counter easy hit

محمد احمد سبزواری نہیں رہے

Muhammad Ahmed Sabzwari

Muhammad Ahmed Sabzwari

تحریر: نعیم الرحمان شائق
کل کی ایک خبر سے معلوم ہوا کہ ہمارے ملک کی ‘سوشل میڈیا سلیبریٹی’ قندیل بلوچ کو قتل کر دیا گیا ہے ۔میڈیا بتاتا ہے کہ ان کو ان کے بھائی نے غیرت کے نام پر قتل کیا۔ وہ متنازعہ تو تھیں ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کو یوں ہی قتل کر دیا جاتا۔ بہر حال اب وہ دنیا میں نہیں رہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔

کل ایک اور افسوس ناک خبر بھی آئی ۔مگر یہ افسوس ناک صرف مجھ جیسے لوگوں کے لیے ہو سکتی ہے۔ ہوسکتا ہے ، آپ بھی یہ ‘افسوس ناک’خبر پڑھ کر مسکرا دیں ۔ خبر یہ ہے کہ محمد احمد سبزواری ، جو کہ معروف کالم نگار اور میعشت دان تھے ، 104 سال کی عمر میں انتقال کر گئے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جس اخبار کے لیے انھوں نے 23 سال تک کالم نگاری کی تھی ، اس میں دوسرے صفحے پر ایک یک کالمی خبر شائع ہوئی ۔ مجھے کل فیس بک پر ڈاکٹر رئیس صمدانی صاحب کی ایک پوسٹ کی وساطت سے اس خبر کا علم ہوا ۔ درحقیقت محمد احمد سبزواری جیسے لوگ ہمارے لیے اصل اور حقیقی سلیبریٹی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ یعنی ایسے لوگ ، جن کی پوری زندگی علم کا اجالا پھیلانے میں گزر جاتی ہے ۔ ایسے لوگ جن کے دم سے علم کی شمعیں ان کی حیات میں بھی روشن رہتی ہیں اور بعد از مرگ بھی اپنے علم کے نور کی وجہ سے وہ لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔

Muhammad Ahmed Sabzwari

Muhammad Ahmed Sabzwari

مگر ہم سطحی ذہن رکھنے والے لوگ ہیں ۔ ہم ایسے لوگوں کی قدر بالکل نہیں جانتے ۔ ہم ایسے لوگوں کو بھول جاتے ہیں ۔ کل جب مجھے ان کے انتقال کے بارے میں معلوم ہوا تو میں نے ‘گوگلنگ’ شروع کردی ۔ آپ یقین جانیے ، ان کے انتقال کے بارے میں ایک خبر بھی نہیں تھی۔ بعد میں میں نے اردو میں ان کا نام لکھا توڈاکٹر رئیس احمد صمدانی صاحب کے ان کے بارے میں لکھے ہوئے مضمون کے دو تین لنکس آئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کے بارے میں اخبارات اپنا ایک صفحہ ‘قربان’ کردیتے کہ وہ ذی علم شخص تھے اور انھوں نے اپنی پوری زندگی اپنے لوگوں کو معیشت کا علم دینے میں صرف کر دی تھی ۔ویب سائٹیں ان کے کارناموں سے بھری ہوئی ملتیں۔

ٹی وی میزبان ان کے کارناموں کا احاطہ کرتے ہوئے نظر آتے ۔لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔محمد احمد سبزواری جیسے لوگ مغربی دنیا میں ہوتے تو نہ جانے ان کے انتقال کے بعد کتنے دنوں تک ان کے کارناموں کا ڈنکا بجایا جاتا ۔ مگر یہاں کیا ہوا۔ ایسا لگتا ہے ، جیسے ہم ان سے جان چھڑانے کے لیے تیار بیٹھے تھے ۔ کیوں کہ ان کی عمر 104 سال ہو چکی تھی ۔ اب تو ان کو رخصت ہو جانا چاہیے تھا ۔میں یہ بات میں مشاہدے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں ۔جمیل الدین عالی ، علیل تھے ، مگر ہم نے سنا کہ ان کاانتقال ہو چکا ہے ۔اسی طرح کا قصہ عبد الستار ایدھی مرحوم کے ساتھ بھی ہوا ۔

Jang

Jang

محمد احمد سبزواری16 جنوری ، 1913ء کو بھوپال میں پیدا ہوئے ۔1939ء میں حیدر آباد دکن کی عثمانیہ یونی ورسٹی سے انھوں نے ایم اے کیا تھا ۔ 1948ء میں وہ ہجرت کر کے پاکستان آگئے تھے ۔ یہاں انھوں نے حکومت ِ پاکستان کے اسٹیٹکس کے شعبے میں ملازمت اختیا ر کر لی ۔ 1976ء میں وہ اس ملازمت سے ریٹائر ہوگئے ۔1931ء سے ان کے تحریری کیریئر کا آغاز اس وقت ہوا ، جب انھوں نے لاہور سے شائع ہونے والے ‘تہذیب ِ نسواں ‘میں ‘جنون کی کہانیاں ‘ کے نام سے ایک تحریر لکھی۔ 1942ء میں انجمن ترقی اردو نے ان کی کتاب ‘ہماری بنک’ شائع کی ۔ جو شاید بنک کے موضوع پر اردو کی اولین کتاب ہے ۔ 1951ء میں انھوں نے ‘اصطلاحات ِ بینکاری’ کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ انھیں اردو زبان سے محبت تھی ۔ شاید اسی وجہ سے بابائے اردو مولوی عبد الحق سے ان کے قریبی تعلقات تھے ۔ انھوں نے ماہانہ رسالے ‘معاشیات’ کے سلسلے میں مولوی عبد الحق کے ساتھ کام کیا تھا ۔ 1993ء سے وہ روزنامہ جنگ میں ‘معیشت کی جھلکیاں ‘ کے نام سے کالم لکھ رہے تھے۔ یہ سلسلہ ان کی وفات تک جاری رہا۔

درج بالا اقتباس میں میں نے ان کےچند علمی کارناموں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
ان کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ وہ سو سال سے زائد عمر کے تھے ، لیکن چاق و چوبند تھے ۔اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ وہ شہر ِ قائد میں رہتے تھے۔ یعنی کسی دیہات یا گاؤں میں نہیں رہتے تھے۔ شہر کی آلودہ فضا میں رہتے ہوئے بھی وہ صحت مند تھے۔ یہ میں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ کچھ لوگ اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتے ۔ پھر جب ان سے صحت کی خرابی کا پوچھا جائے تو وہ ماحولیاتی آلودگی پر دوش ڈال دیتے ہیں ۔ وہ سگریٹ نوشی اور دیگر مضر ِ صحت چیزوں سے مکمل طور پر پرہیز کرتے تھے۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت پڑھنے اور لکھنے جیسی صحت مند اور جان دار سرگرمیوں میں صرف کر دیتے تھے ۔لکھنا اور پڑھنا واقعی صحت مند سرگرمیاں ہیں۔

Columnist

Columnist

مولانا وحید الدین خان صاحب ، جو انڈیا میں رہتے ہیں، ان کی پیدائش 1925ء کی ہے ۔ لیکن ابھی تک ہم نے ان کی بیماری کی خبر نہیں سنی ۔ الحمد للہ ۔ شاید ان کی صحت کا راز بھی یہی ہے کہ انھوں نے اپنے آپ کو پڑھنے اور لکھنے جیسی صحت مند سرگرمیوں میں مصروف رکھا ہوا ہے ۔ محمد احمد سبزواری جیسے لوگ اگر مغربی دنیا کے رہنے والے ہوتے تو ضرور بالضرور ان کی قابل ِ رشک صحت پر بھی ان کے انتقال کے بعد کئی دنوں تک بحث جاری رہتی ۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے ۔(آمین )

تحریر: نعیم الرحمان شائق
ای میل: shaaiq89@gmail.com