آج ہم یہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نذرانہ ءعقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عزت و تکریم کروڑوں عام انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے سر جھکاتی ہیں۔ وہ عظیم مصلح تھے، عظیم رہنما تھے، عظیم واضع قانون تھے، عظیم سیاستدان تھے اور عظیم حکمران تھے، ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو کسی میدان میں کبھی بھی ناکامی نہ ہوگی۔ یہ فرمان بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے
25 جنوری 1948 ءکراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاتھا ۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کیا تھے؟ ان کے نظریات کیسے تھے؟ ا ن کا دو قومی نظریہ دراصل کیا تھا ۔ اس کا انداز بانی پاکستان
حضرت قائداعظمؒ کی اس تقریر سے کیا جا سکتا ہے جو انہوں نے 8 مارچ 1944 کو علی گڑھ یونیورسٹی میں طلبا کے اجتماع میں کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا۔ ”پاکستان اس دن معرض وجود میں آ گیا تھا جب ہندوستان میں پہلا غیر مسلم مسلمان ہوا تھا“ اسی طرح 17 نومبر 1945 کو بابائے قوم نے ایڈورڈ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا۔ ”ہم دونوں قوموں میں صرف مذہب کا فرق نہیں، ہمارا کلچر ایک دوسرے سے الگ ہے۔ ہمارا دین ہمیں ایک ضابطہ حیات دیتا ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے ہم اس ضابطہ کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔مجھے سمجھ نہیں آتی لوگ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کو کیوں ایک عام سیاستدان یا قانوندان سمجھتے ہیں ، حالانکہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اللہ پاک کے ولی تھے ۔ تاریخ کی ورق گردانی بتاتی ہے کہ محمد علی جناح پر اللہ پاک کا خصوصی کرم و فضل اور تاجدار مدینہ جناب ِمحمد ﷺ کا عشق تھا۔ آپ سچے پکے عاشق ِ رسول ﷺ تھے ۔ آپ کا ایک فرمان جو انہوں نے
6دسمبر 1943 کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 31 ویں اجلاس سے خطاب کے دوران کہا!
”وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں، وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے، وہ کون سا لنگر ہے جس پر امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے؟ وہ رشتہ، وہ چٹان، وہ لنگر اللہ کی کتاب قرانِ کریم ہے۔ مجھے امید ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے، قرآنِ مجید کی برکت سے ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا، ایک کتاب، ایک رسول، ایک امت“
جو لوگ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کو غلط کہتے ہیں کیا تاریخ سے سبق ماضی کو بھول گئے ہیں ؟
ہندو مسلمانوں کو نیچ سمجھتے تھے۔ مسلمان ایک نیچ قوم کی حیثیت سے ذہنی غلام تھے۔ یا د رہے کہ یہ وہ مسلمان نہیں تھے جو ایران، ترک یا عرب سے آئے تھے ان سیدوں،شیرازیوں، گیلانیوں، برلاس، قریشیوں بخاریوں کو مقام حاصل تھا یہ وہ مسلمان تھے جن کا نسلی تعلق ہندووں ہی کی مختلف برادریوں سے تھا جن میں بگٹی، مینگل، بھٹو، بھٹی، شیخ، راو، رانا،کھوکھر، سبھی شاامل تھے۔مگر ان کے قبول اسلام ہی سے وہ ہندو قوم سے جدا ہو کر امت مسلمہ میں شامل ہوگئے اور ہندووں کی نظر میں نیچ کہلائے۔ہندوستان میں انگریزوں کی آمد سے ساڑھے پانچ سو سے زائد ریاستیں تھیں جن کے ماتحت جاگیریں تھٰن۔ تاریخ شاہد ہے کہ جن ریاستوں کے حکمران مسلمان تھے وہاں رواداری، مساوات عام تھی، مگر جن کے حکمران ہندو تھے وہاں تعصب عام تھا۔ ہو سکتا ہے مسلمان حکمران ہندووں کی اکثریت اور حیثیت کی وجہ سے مصلحتاً رواداری برتتے ہوں مگر بعض حالات میں ایسا نہیں تھا۔بے شک انگریزوں نے بزور شمشیر اور عیاری و مکاری سے برصغیر پر قبضہ کیا مگر انہوں نے عوامی مفاد کے لئے کام بھی بہت کئے جن میں تعلیمی اداروں، ہسپتالوں کے قیام کے علاوہ سڑکوں اور ریلوے کا جال بچھانا انہیں کی وجہ سے ممکن ہو سکا۔انگریزوں کی غلامی کا جو سب سے اہم فائدہ ہوا وہ جذبہ حریت کا پیدا ہونا تھا۔ ورنہ انگریزوں کی آمد سے قبل یہ ہندو اور مسلمان اپنے جاگیردار یا نواب کی بیگار و خدمت گذاری کے علاوہ کچھ نہیں سوچ سکتے تھے۔ سینکڑوں سال سے مقامی حکمران ان کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کرتے تھے۔ یہ غلامی ہماری گھُٹی میں شامل تھی اور ہے آج بھی ہم اپنے محلے، اپنی بستی کے غنڈے، جابر و ظالم کے سامنے کھڑے ہونے کی جرات نہیں کرتے۔بہر حال ہندو اور مسلامانوں نے امل کر انگریزوں سے آزادی کی جنگ لڑی جس میں اگر مینگل پانڈے،بھگت سنگھ، جیسے آزادی کے متوالے تھے تو دلا بھٹی۔ رائے احمد خان کھرل، عجب خان آفریدی جیسے بھی اس قافلے میں شامل تھے مگر اُس دور کے خوشامد یوں نے انہیں ڈاکو اور لٹیرے کی حیثیت سے متعارف کرایا۔ آزادی کی جنگ دونوں قوموں نے لڑی۔ اُس وقت معاشی اور معاشرتی طور پر ہندو مسلمانوں کے مقابل میں بہت مستحکم تھے۔ مسلمانوں کی اکثریت مقامی طور پر ان کے تابع تھی۔ جہاں ہندو کم تھے وہاں بھی معاشرتی اور سیاسی طور پر وہ غالب تھے اس لئے یہ یقین کامل تھا کہ مسلمان آزادی کے بعد پھر ماضی کی طرح ہندووں کی غلامی میں آجائیں گے۔۔ اس موقع پر مسلمانوں کا ایک مفاد پرست طبقے نے جن میں پنجاب کی یونیسسٹ پارٹی اور خیبر پختون خواہ کی کانگریس مذہبی علما سے مل کر پاکستان اور دو قومی نظریہ کی مخالفت کی۔ آج حالت یہ ہے کہ جو لوگ یا صوبے تحریک پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھے، آج انہیں کی اولادیں مسندِ اقتدار پر جلوہ افروز ہیں
پنجاب کی یونیسٹ پارٹی اور سر فضل حسین خضر حیات ٹوانہ کی قائداعظم اور ڈاکٹر محمد علامہ اقبال سے دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پنجاب نے آخر دم تک پاکستان کی مخالفت کی اور کانگریس کی حمایت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ کو پنجاب میں کبھی کامیابی نہ ہو سکی
بلوچستان کی بات جانے دیجیے کہ وہ تو خان آف قلات کی جاگیر تھی۔ آئیے خیبرپختونخواہ کی طرف چلتے ہیں۔ یہ سرزمین اُس شخص کی ہے جس نے پاکستان دشمنی کی مثال قائم کی اور کانگریس کی چاپلوسی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی خیبر پختون خوا میں ریفرنڈم کران پڑا جس میں انہیں منہ کی کھانی پڑی آج اے۔این۔پی جو درحقیقت خان عبدالغفار خان کا لگایا ہوا پودا ہے آج خیبرپختونخواہ کی سیاست پر راج کر رہا ہے۔ کیا یہ تاریخ کا مذاق نہیں؟
جن اسلامی جماعتوں نے قائداعظم کو کافر اعظم کہا۔ اقبال پر کفر کا فتویٰ عائد کیا اور پاکستان کو ایک حرافہ سے تشبیح دی۔ مگر آج وہی پاکستان کی ایک کثیر آبادی پر اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتی ہیں کیا یہ تاریخ کا ظلم نہیں؟
قائد اعظم محمد علی جناح رحمة اللہ علیہ کا وہ خطاب آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں جو ان کے کردار کی سچائی کی سچی اور کھری شہادت کے طور پر تاریخ کے سینے پر چمک رہا ہے۔ یہ خطاب آپ نے 30 جولائی 1948 ءکو لاہور میں اسکاوٹ ریلی سے کیا تھا۔ آپ نے فرمایا
میں نے بہت دنیا دیکھ لی۔ اللہ تعالی نے عزت، دولت، شہرت بھی بے حساب دی۔ اب میری زندگی کی ایک ہی تمنا ہے کہ مسلمانوں کو باوقار و سر بلند دیکھوں۔ میری خواہش ہے کہ جب مروں تو میرا دل گواہی دے کہ جناح نے اللہ کے دین اسلام سے خیانت اور پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت سے غداری نہیں کی۔ مسلمانوں کی آزادی، تیظیم، اتحاد اور مدافعت میں اپنا کردارٹھیک ٹھیک ادا کیا اور میرا اللہ کہے کہ اے میرے بندے! بے شک تو مسلمان پیدا ہوا۔ بے شک تو مسلمان مرا ۔ان سب باتوں سے جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ حقیقت ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ ” ولی اللہ “ تھے
یااللہ اپنے حبیب ﷺ کے صدقے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور انکے رفقاءجو اسلامی جموریہ پاکستان کی جہدوجہد میںدامے درمے اورسخنے محمد علی جناح کے ساتھ رہے جو برِ صغیر کے مسلمانوں کی تکلیفوں پرشانیوں کو اپنی تکلیف پرشانی سمجھ کر دور کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ سب کو قبر میں راحت سکوں اور اپنی رحمت کے سائے تلے رکھ۔