تحریر: عقیل خان
ویسے تو میں نے بہت سے سیاسی، تعلیمی، ثقافتی، حالات حاضرہ اور مذہبی موضوعات پر کالم لکھیں ہیں مگر آج میں جس موضو ع پر کالم لکھ رہا ہوں اگر دنیا کے تمام درخت قلم بن جائیں ،زمین کاغذکی بن جائے اور تمام سمندر سیاہی بن جائیں تب بھی ان کی تعریف مکمل نہیں ہو سکتی۔وہ موضوع دنیا کی عظیم ترین ہستی ،وہ ہستی جس کے لیے یہ دنیا وجود میں آئی، جس نے انسان کو جینا سکھایا ، وہ ہستی جو زمین سے لیکر آسمان والے تک کی محبوب ہے۔ جی وہ موضوع ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کا ہے۔
12ربیع الاول کو پورے عالم اسلام میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کی ولادت کا دن بڑے جوش و جذبے اورمذہبی عقیدت و احترام سے منایا جا تا ہے۔ یہ کائنات جس ہستی کے لیے بنائی گئی وہ ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم 12 ربیع الاول 632 ھ (20اپریل 571ئ) کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کے والد محترم کا نام عبداللہ تھاجو آپ کی پیدائش سے پہلے وفات پا چکے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کی پرورش آپ کے دادا عبد المطلب نے کی۔
آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کی والدہ کا نام حضرت آمنہ تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم چھ برس کے تھے توآپ کی والدہ کا انتقال پر ملال ہو گیا۔ جب آٹھ برس کے تھے توآپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کے دادا بھی وفات پاگئے۔ اسکے بعد آپ کی پرورش کی ذمہ داری آپ کے چچا ابو طالب کے کاندھوں پر آگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم نے اپنے چچا کے ساتھ بصرہ اور شام کے کئی تجارتی سفر کئے۔ بارہ سال کی عمر میں جب آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم تجارت کے سلسلے میں ملک شام گئے تو وہاں ایک عیسائی راہب بحیرہ نے آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کو دیکھا تو آپ کے چچاابو طالب کو بتایا کہ نبوت کی جو علامات تورات اور انجیل میں درج ہیں وہ آپ کے بھتیجے یعنی آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم میں موجود ہیں۔ جب آپ کی عمرپندرہ برس ہوئی توآپ نے جنگِ فجار میں حصہ لیا۔
آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم جب پچیس برس کے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کا نکاح حضرت خدیجہ سے ہوگیا جو ایک بیوہ تھیں اوران کی عمر چالیس سال تھی۔ آپۖ بہت دیانتدار اور امین تھے جب آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم چالیس برس کے ہوئے تو ایک دن حسبِ معمول غارِ حرا میں عبادت کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتہ جبرائیل علیہ السلام کی وساطت سے آپۖ کو نبوت کے منصب پر سرفراز کیا۔
اسلام سے قبل عرب کا دور جاہلیت کا دور تھا۔ اہلِ عرب اگرچہ اکثر اَن پڑھ اور جاہل تھے مگر علم نجوم اور طب کے علم پر عبور رکھتے تھے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کو جب نبوت ملی تو سب سے پہلی آیات یہ نازل ہوئیں۔ (ترجمہ) پڑھ اپنے رب کے نام سے۔ جس نے انسان کو قلم کے ذریعہ علم سکھایا۔ وہ جس نے انسان کو وہ باتیں سکھائیں جو اسے معلوم نہ تھیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم نے ان آیات کو دہرایا۔ آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم نے نبوت کے بعد مکہ مکرمہ میں احکامِ الہٰی کی تبلیغ کا آغاز کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم پیغمبر ہونے سے پہلے ہی انصاف اور دیانتداری کی وجہ سے ملک بھر میں صادق وامین کے لقب سے مشہور تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم انصاف کے معاملے میں کسی سے رعایت نہ کرتے تھے چاہے آپ کا عزیزکیوں نہ ہو۔ عرب کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کو نبی تونہیں مانتے تھے لیکن وہ فیصلے آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم سے کرواتے تھے۔ ایک دفعہ ایک عورت چوری کرتے ہوئے پکڑی گئی تووہ لوگ فیصلے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کے پاس لئے آئے۔ چوری ثابت ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم نے اسلامی قانون کی رو سے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمایا۔ عرب کے بڑے بڑے سرداروں نے چاہا کہ یہ بڑے گھرانے کی عورت ہے۔ اس کی سفارش کرکے اسے بچائیں۔ ایک صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم سے سفارش کرنے کے لئے آئے تو آپ نے فرمایا: ” تم اللہ کی مقرر کی ہوئی باتوں میں سفارش کو دخل دیتے ہو۔”
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔” ہر نبی کی ایک دعا ہے جو ضرور قبول ہوتی ہے تو ہر ایک نبی علیہ السلام نے جلدی کرکے وہ دعا مانگ لی (دنیا ہی میں) اور میں یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم نے اپنی دعا کو چھپا کر رکھا ہے قیامت کے دن اپنی اْمت کی شفاعت کے لئے اور اللہ چاہے تو میری شفاعت ہر ایک اْمتی کے لئے ہوگی بشرطیکہ وہ شرک پر نہ مرا ہو۔”
آج پورے عالم اسلام میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم ،پیغمبر انسانیت ،روحِ ایماں ، شانِ کائنات اورسراپا نور کے پیکر میں ڈھلے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کی ولادت با سعادت کی خوشی منائی جا رہی ہے۔ہر طرف آمد رسول کے نعرے لگ رہے ہیں مگرمیرا سوال ان لوگوں سے ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کی آمد پر تو جشن منا رہے ہیں مگر کبھی ان کی سنت پر عمل کیا؟ کیا کبھی ان کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلنے کی کوشش کی؟ جن چیزوں سے آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم نے منع فرمایا کیا ہم لوگ اس سے دور رہے ؟ ہم جتنی خوشی اور جوش کے ساتھ یہ جشن مناتے ہیں کا ش اسی جوش و جذبے کے ساتھ ہم اپنے پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کرکے پوری دنیا میں اسلام کا بول بالا کردیں۔
دنیا سے برائی کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیں۔ تمام مسلمان ایک کتاب اور ایک نبی کے سائے میں اکٹھے ہوجائیں تاکہ ہم غیر مسلموں کو بتا سکیں کہ ہم ایک خدا اور ایک رسول کے ماننے والے ہیں ۔اس طرح کسی غیر مسلم کی مسلمانوں کی طر ف آنکھ اٹھانے کی ہمت نہیں ہوگی۔ میری اس دن کے موقع پر اپنے رب العزت اور مالک کائنات سے یہی دعا ہے کہ تما م دنیا کے مسلمانوں کو نیکی کی ہدایت دے اور برائی سے ہمیشہ دور رکھے۔ تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائے اور قیامت کے حضوراکرم صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کی شفاعت سے بہر مند فرمائے۔
تحریر: عقیل خان
aqeekhancolumnist@gmail.com