24مئی ، محسن پاکستان ، نواب آف بہاولپور صادق محمد خان عباسی کا یوم وفات ہے۔ اچھی بات ہے کہ پہلی مرتبہ سابق ریاست بہاولپور کے تینوں اضلاع بہاولپور، بہاولنگراور رحیم یار خان میں عام تعطیل کی گئی ۔ یہ حقیقت ہے کہ ریاست بہاولپور کی پاکستان کیلئے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
لیکن یہ بھی وضاحت ضروری ہے کہ نواب آف بہاولپور کی خدمات در اصل وسیب کی طرف سے تھیں کہ کوئی بھی فرمانروا محض اسٹیٹ کا امین ہوتا ہے اور اس کے مالک و مختیار وہاں کے باشندے ہوتے ہیں۔پاکستان کیلئے خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے ، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ نواب بہاولپور صادق محمد خان عباسی نہ صرف مسلم لیگ کو فنڈ دیتے تھے بلکہ انہوں نے کراچی میں بہاولپور کے الشمس محل اور القمر محل تحریک پاکستان کے لئے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور فاطمہ جناح کے حوالے کر دیے ،آج نوا ب کے انہی محلات پر سندھ کا گورنر ہاؤس بنا ہوا ہے مگر اسی ریاست کی عصمت مآب خواتین گھروں میں ’’ماسیاں ‘‘بن گئی ہیں اوروسیب کے لوگوں کے پاس رہنے کی جگہ نہیں وہ جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔ پاکستان کیلئے خدمات کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں، خدمات کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے نواب بہاولپور نے ریاست کی طرف سے ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا جس پرایک طرف مملکت خداداد بہاولپور اور دوسری طرف پاکستان کا جھنڈا تھا، پاکستان قائم ہوا تو قائداعظم ریاست بہاولپور کی شاہی سواری پربیٹھ کر گورنر جنرل کا حلف اٹھانے گئے، پاکستان کی کرنسی کی ضمانت ریاست بہاولپور نے دی ،پہلی تنخواہ کی چلت کیلئے پاکستان کے پاس رقم نہ تھی تو نواب بہاولپور نے پہلی تنخواہ کی چلت کے لئے 7کروڑ روپے کی خطیر رقم دی
قائداعظم نے نواب بہاولپور کو محسن پاکستان کا خطاب دیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے کہا کہ قیام پاکستان سے قبل بھی ایک پاکستان ڈھائی سو سال پہلے موجود تھا اور اس کا نام ریاست بہاولپور تھا ۔ تحریک پاکستان قیام پاکستان اور استحکام پاکستان کیلئے ریاست بہاولپور کا کردار ناقابل فراموش ہے مگر افسوس کہ آج ان باتوں کا تذکرہ تاریخ پاکستان اور نصاب کی کسی کتاب میں موجود نہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ نواب آف بہاولپور کی پاکستان کیلئے بے پناہ خدمات ہیں ۔ اسی بناء پر قائد اعظم نے انہیں محسن پاکستان کا خطاب دیا تھا ۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ آج بہاولپور کے ساتھ ساتھ پورے وسیب سے امتیازی سلوک ہو رہا ہے ، ریاست بہاولپور کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق نواب بہاولپور پنجاب یونیورسٹی کا سینٹ بلاک ،کنگ ایڈورڈ کالج کی نصف بلڈنگ اور لاہور ایچی سن کالج کے بہت سے کمرے لاکھوں روپے خرچ کر کے تعمیر کرائے۔ریاست بہاولپور کی طرف سے تعلیمی مقاصد کیلئے لاہور کو سالانہ جو گرانٹ جاری ہوتی رہی اس کی تفصیل کے مطابق کنگ ایڈروڈ کالج ڈیڑھ لاکھ ،اسلامیہ کالج لاہور تیس ہزار ،انجمن حمایت اسلام پچھتر ہزار،ایچی سن کالج دوہزار،اور پنجاب یونیورسٹی لاہور بارہ ہزار اس کے ساتھ ساتھ لاہور کے ہسپتالوںاور دوسرے رفاہی اداروں کی ریاست بہاولپور کی طرف سے لاکھوں کی مدد کی جاتی رہی ۔اس رقم کی مالیت کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت سوا سو روپے تولہ سونا، ایک روپے میں سو اینٹ پختہ ،چار آنے سیر چھوٹا گوشت ،اور دو روپے من گندم تھی سب سے اہم یہ کہ اس وقت برطانیہ کا پونڈ اور مملکت خداداد بہاولپور کا کرنسی نوٹ برابر شرح مالیت کے حامل تھے۔
اتنی عظیم تعلیمی خدمات کا تذکرہ نصاب کسی کتاب میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت زندگی کے تمام معاملات میں تمام خطوں کے ساتھ مساوی سلوک کرے ۔ بہاولپور کی عظیم خدمات کے تذکرے سے پہلے ریاست بہاولپور کے دوسرے امور کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔ یہ اسلئے ضروری ہے کہ وسیب کو تقسیم کرنے اور وسیب کے لوگوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کے ایجنڈے پر کام کرنے والے کچھ سیاسی لوگ پاکستان کیلئے ریاست بہاولپور کے تذکرے کے ساتھ ہی بہاولپور صوبہ ، بہاولپور صوبہ کی تکرار شروع کر دیتے ہیں۔ بہاولپور ریاست یا صوبہ ؟ اس بارے پس منظر پر غور کرنے سے بہت سے حقائق سامنے آتے ہیں ۔ ریاست بہاولپور کے فرمانروا نے عوام کی امور حکومت میں شرکت کیلئے 1952ء میں ایک عبوری دستوری ایکٹ کا نفاذ کیا ، جس کے تحت 49 ارکان کی انتخاب کے ذریعے اسمبلی وجود میں آئی ۔ ریاست بہاولپور کی عوامی کابینہ وجود میں آئی۔ مخدوم زادہ حسن محمود ریاست بہاولپور کی کابینہ کے وزیراعظم تھے ۔ عبوری ایکٹ کے تحت ریاست بہاولپور کا آئینی سربراہ امیر آف بہاولپور نواب صادق محمد خان عباسی تھے ۔ گویا یہ پروپیگنڈہ غلط ہے کہ ون یونٹ کے قیام سے پہلے تک بہاولپور صوبہ تھا ۔ اگر صوبہ ہوتا تو حسن محمود وزیراعظم نہیں وزیراعلیٰ ہوتے اور صوبے کا گورنر بھی ہوتا۔ بہاولپور کے عوام کیلئے مسائل کا آغاز 16 دسمبر 1954ء کو ہوا جب حکومت پاکستان کے دباؤ پر گورنر جنرل غلام محمدخان اور نواب آف بہاولپور کے درمیان معاہدہ ہوا۔
اس معاہدے کی رو سے ریاست بہاولپور کو ون یونٹ یعنی نئے صوبہ مغربی پاکستان میں ضم کیا گیا اور اس موقع پر نواب آف بہاولپور نے جو شرائط لکھوائیں ان میں نواب اور ان کے خاندان کیلئے مراعات اور پروٹوکول کی پوری تفصیل موجود ہے مگر ریاست کے عوام، ریاست کے مستقبل یا پھر ون یونٹ کے خاتمے پر ریاست بہاولپور کی حیثیت یا پوزیشن بارے ایک بھی شق شامل نہیں ۔ اس معاہدے کے خلاف معروف وکیل اور عظیم رہنما ریاض ہاشمی مرحوم نے رٹ پٹیشن دائر کی جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ ریاست کی منتخب اسمبلی کی موجودگی میں نواب آف بہاولپور کو اس بات کا اختیار حاصل نہ ہے کہ وہ اسمبلی کی منظوری کے بغیر ریاست کے عوام کے مفاد کو بالائے طاق رکھ کر معاہدہ کریں ۔ لیکن روائتی وسیب دشمنی کا مظاہرہ ہوا اور یہ کہہ کر رٹ پٹیشن خارج کر دی گئی کہ ریاض ہاشمی متاثرہ فریق نہ ہے۔ حالانکہ ریاض ہاشمی ریاست بہاولپور کا باشندہ ہونے کی حیثیت سے متاثرہ فریق نہیں ہو سکتا تو پھر کون ہو سکتا ہے؟ 17 اکتوبر 1955 ء کو ریاست نئے صوبے میں ضم ہو گئی اور یحییٰ دور میں ون یونٹ کے خاتمے پر ریاست کو پنجاب کا ڈویژن بنا دیا گیا ، پھر بھٹو دور میں نواب آف بہاولپور عباس خان عباسی نے پنجاب کا گورنر بن کر الگ صوبہ کی جدوجہد کی تحریک کو نقصان پہنچایا۔ ان کے بعد نواب صلاح الدین عباسی نے بھی یہی کچھ کیا ہے۔