تحریر : پروفیسر محمد عبد اللہ بھٹی
مسجد نبوی میں شہنشاہ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھجور کے تنے کے ساتھ کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے دورانِ خطاب اکثر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کجھور کے تنے پر دستِ اقدس رکھ دیتے جب نمازیوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی تو دور بیٹھنے والے نمازی آپ کی زیارت نہ کر پاتے صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آرام کا بھی خیال رکھتے کہ زیادہ دیر کھڑا ہونے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تھکاوٹ نہ ہو جاتی ہو۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق اور آرام کے لیے انہوں نے ایک منبر تیار کرنے کا سوچا ۔فخرِ دوعالم ، مجسم رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی رائے کو پسند فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے منبر تیار کر لیا گیا ۔ جب منبر کو مسجد میں رکھ دیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ جمعہ کے لیے حجرہ انور سے نکل کر منبر کی طرف بڑھے جیسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کجھور کے تنے کے پاس سے گزرے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تنے کے پاس رکنے کی بجائے آگے جاکر منبر پر جلوہ افروز ہو گئے ۔ تو کجھور کے تنے نے شدت غم اور جدائی میں چیخ و پکار شروع کر دی ۔تنا اِس قدر پر سوز آواز میں رویا کہ پوری مسجد بلکہ مدینہ شریف میں آپ کی آواز سنی گئی ۔رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لائے اور تنے پر دست اقدس رکھا گلے سے لگایا اور اُسے دلا سا دیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دلاسا دینے اور گلے لگانے سے وہ خاموش ہو گیا۔پھر سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بے جان تنے سے گفتگو کی اور اُسے یہ اختیار دیا کہ اگر وہ چاہے تو تجھے پھل دار درخت بنا دیا جائے۔ اور اہلِ ایمان تیرا پھل کھا ئیں اور تجھے باغ میں لوٹا دیاجائے یا تجھے جنتی درخت بنا دیا جائے ۔جنت میں تیری جڑیں جنت الفردوس کی نہروں اور چشموں سے فیض یاب ہوں۔جنت میں تیرا پھل انبیاء رسل اور اُس کے متقی بندے شوق سے کھا ئیں ۔کجھور کے تنے نے جنت کا درخت بننا پسند فرمایا۔
محترم قارئین شہنشاہ دو عالم بے جان تنے سے چند ہاتھ دور ہوئے تھے لیکن وہ بے جان تنا آپ کی جدائی برداشت نہ کر سکا اور غمزدہ ہو کر سسکیا ں لے کر رونے لگا اُس وقت تک خاموش نہ ہوا جب تک محسنِ انسانیت نے گلے سے نہیں لگا یا ۔حضرت حسن بصری نے خوب فرمایا ہے ۔اے مسلمانوں ایک لکڑی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات کے شوق میں روتی ہے تو تم تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق کے زیادہ حقدار ہو آج کل کی مادیت پرست معاشرے میں خال خال ہی کوئی خوش قسمت ہے جو عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جزبے سے معمور ہے ۔سید عرب و عجم کے مقام اور عشق سے جانور پہاڑ درخت تک واقف تھے چاند آپ کے حکم پر دو ٹکڑے ہو گیا درخت چل کر پا س آگیا پاگل اونٹ نے اپنا سر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں رکھ دیا لیکن آج مسلمانوں میں عشق ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سنت نبوی پر عمل بہر کم رہ گیاہے۔ آج ہماری نوجوان نسل مغرب کی پرستش میں لگی ہوئی ہے ۔آج کا مسلمان ہمارے ماضی کے عظیم دانشوروں اور مفکروں کو مکمل طور پر بھول چکا ہے ۔مغرب پرستی کے سحر میں وہ خود کو بھول چکا ہے ۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر دور کے انسانوں کے لیے مشعل راہ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ِ طیبہ ایک شفاف آئینہ ہے جس میں کوئی دھبہ نظر نہیں آتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانیت کو اعلی و ارفع اقدار سے روشناس کرا یا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہی کائنات کی ظلمتوں کو اپنے نور سے اجالے میں تبدیل کیا ۔آج کے جدید دور میں ہمارا نوجوان طبقہ کیونکہ مغرب سے ہی متاثر ہے اُن کے لیے کہ آئو دیکھو جن کے نقش قدم پر تم چلنے کی کوشش کر رہے ہو وہ عظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کس طرح گن گاتے ہیں کیونکہ تعریف وہ نہیں جو اپنے منہ کی جائے فضیلت تو وہ ہے جس کے دشمن اور مخالفین بھی معترف ہوں ۔محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلند مقام اور اخلاق کی تعریف تو اُن لوگوں نے بھی کی جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان نہ لائے ذیل میں اُن لیڈروں اور غیر مسلم دانشوروں کی تحریروں سے اپنے ایمان کو گرماتے ہیں جن کے دل ایمان کی روشنی سے منور نہ ہوئے مگر وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں کیا کہتے ہیں: جارج برناڈ شاہ لکھتا ہے: ”آ نے والے سو سالوں میں ہماری دنیا کامذہب اسلام ہو گا مگر یہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا اسلام نہیں ہوگا بلکہ یہ وہ اسلام ہو گا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں دلوں دماغوں اور روحوں میں جا گزیں تھا”۔
فادر ولیم رطب اللسان ہے: پیغمبر اسلام نے ہمیں سکھایا ہے کہ انسان اپنی نیک فطرت پر پیدا کیا گیا ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مال و دولت حسب نسب یا رنگ کی بنیا دپر انسانوں کے درجے قائم کرنے کی مخالفت کی اور دنیا سے غلام و آقا مفلس و مال دور کے فرق کو ختم کر دیا ۔ لیکن آج کی دنیا میں یہ امتیاز باقی ہے ۔ آئیے بانی اسلام سے سبق سیکھیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام لیوا رات کے راہب اور دن کے شہسوار تھے ۔ نپولین بو نا پارٹ اس طرح اظہار خیال کرتا ہے : محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل عرب کو اتحاد کا درس دیا ۔ ان کے باہمی جھگڑے ختم کئے ۔ تھوڑی سی مدت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت نے نصف صدی سے زیادہ دنیا فتح کر لی پندرہ برس کے مختصر عرصے میں عرب کے لوگو ں نے بتوں اور جھوٹے خدائوں کی پرستش سے توبہ کر لی۔مٹی کے بت مٹی میں ملادئیے گئے ۔یہ حیرت انگیز کارنامہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور ان پر عمل کرنے کے سبب انجام پایا۔
جارج برناڈ شاہ مشہور برطانوی ڈرامہ نگار اور فلسفی: اپنے خوبصورت الفاظ میںاس طرح خراج عقیدت پیش کرتا ہے ۔ ”میرا ایمان ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا شخص دنیا کا حکمران ہوتا تو ہماری اس دنیا کے تمام مسائل حل ہو چکے ہوتے اور یہ دنیا خوشیوں اور امن کا گہوارہ بن جاتی ”۔ میں نے ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مذہب کو حیران کن قوت اور صداقت کی وجہ سے اعلیٰ مقام دیا ہے ۔ میرے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مذہب دنیا کا واحد مذہب ہے جو ہر دور کے لائے ہوئے تقاضوں کے لئے کشش رکھتا ہے ۔میں نے اس حیران کن انسان کا بغور مطالعہ کیا ہے ۔بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی انسانیت کے نجات دہندہ ہیں۔ باسورتھ اسمتھ مشہور برطانوی مصنف : اس طرح اظہار خیال کرتا ہے صبح دم ہونے والی موذن کی آواز ہر روز اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ جہاں جہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام پہنچا اس کا آرام طلبی پر گہرا اثر پڑا ۔ یہ آواز یہ بھی گواہی دیتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کودنیا میں اللہ کی حکومت کے قیام پر اور انسان کی آزادی فکر پر کتنا گہرا یقین تھا ۔ان کی خصوصی توجہ کا مرکز غلام اور یتیم تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ خو دبھی یتیم تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ بات پسند تھی کہ جو حسن سلوک ان کے ساتھ خدا نے کیا ہے وہی دوسروں کے ساتھ بھی روا رکھیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی دراصل سورج کی طرح ہے جس کی کرنیں پوری دنیا کو منور کئے ہوتی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی کے آکری ایام تک سادگی اور عاجزی کو اپنائے رکھا۔
مشہور جرمن شاعر گوئٹے : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح خراج ِ عقیدت پیش کرتا ہے ۔اگر اسلام یہی ہے تو ہم سب مسلمان ہیں ۔بے شک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لایا ہوا دین اخلاص انسانیت کے ساتھ ہمدردی اور معاشرے کے لئے اعلی ترین اخلاقی ہدایت ہے ۔اسلام کبھی ناکام نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کی تعلیم انسان کو ان بلندیوں تک پہنچا سکتی ہے جو انسانی تصور سے بالاتر ہے مشہور انگریز افسانہ نگار ایچ ، جی ویلز کے خیالات : کچھ یوں ہیں انسانی برابری اور انسانی اخوت کا پیغام اگرچہ عیسٰی علیہ السلام کے ہاں بھی پایا جاتا ہے ۔ مگر تاریخ میں پہلی بار جس شخصیت نے ایک باعمل معاشرہ قائم کیا وہ صرف محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ ایک اور معروف امریکی مصنف گبن کے رائے اس طرح ہے: محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا کہ خدا وہ ہے جو لوگوں کے دلوں کے پوشیدہ بھید جانتا ہے ۔ماضی ، حال اور مستقبل کا علم صرف اللہ کو ہے ۔دنیا کے سب دانش و رمل کر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیش کردہ عقیدہ وحدانیت پر تنقید نہیں کر سکتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسن اخلاق میں شہرہ آفاق تھے پروفیسر تھامس کا ر لائل ایک معروف بر طانوی ادیب ہے جو کسی تعارف کا محتاج نہیں : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کے بارے میں اس کی رائے کچھ اس طرح ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت میں قناعت کی شان نظر آتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شمار ان لوگوں میں تھا جن کا شعار سچائی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا ۔وہ فطرتاً بے لوث اور سچے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام پر عمل کرنے والے دنیا کے بہترین انسان بن گئے ۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بطور ہیرو اس لئے تسلیم کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی وہ بننے اور دکھانے کی کوشش نہ کی جو وہ نہیں تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خود نمائی سرے سے موجو د نہیں تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عظیم انسان اور عظیم ترین پیغمبر تھے۔
مہاتما گاندھی: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام زندگی کے واقعات مذہب میں کسی سختی کو روا رکھنے کی مخالفت سے لبریز ہیں۔ جہاں تک مجھے علم ہے کسی مسلمان نے آج تک کسی کو زبردستی مسلمان بنانے کو پسند نہیں کیا اسلام اگر اپنی اشاعت کے لئے قوت استعمال کرے گا تو تمام دنیا کا مذہب نہ رہے گا۔ پروفیسر راما کرشنا رائو میسور یونیورسٹی میں پروفیسر تھے لکھتے ہیں: محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاقلب مبارک محبت اور اُخوت سے لبریز تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندگی بھی اپنے بد ترین دشمن کو بھی معاف کرتے رہے ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے غرض اور نام و نمود سے دور رہنے والے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے بندے اور پھر اس کے رسول تھے اب آئیے دیکھیں کہ سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک گرنتھ صاحب میں: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کی تعریف کس طرح کرتے ہیں :
م محمد من توں من کتاباں چار
من خدا دی بندگی سچا اے دربار
الف اک ہے دوجا پاک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کلمہ پڑھ نانکا جو درگاہ پویں قبول۔
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی