تحریر: لقمان اسد
محترمہ بے نظیر بھٹو واقعتاً ایک نڈر لیڈڑ اور ایک عظیم سیاسی رہنما تھیں پاکستان میں حقیقی جہموریت کی منزل ان کا نظریہ، منشور،نصب العین اور واضح ایجنڈا تھا محترمہ نے اپنی زندگی پاکستان کے مزدوروں،غریبوں،لاچاروں، بے کسوں، بیروز گار نوجوانوں اور دکھی مائوں کیلئے وقف کررکھی تھی۔خود مختار اور جمہوری پاکستان اُن کا ماٹو تھا یہی جنگ لڑتے لڑتے وہ اسی مقصد پر اپنی زندگی قربان کرگئی دومرتبہ وزیراعظم رہنے والی رہنما کا سرراہ قتل ایک افسوسناک اور المناک سانحہ تھا پوری پاکستانی قوم نے اس واقعہ پر غم کی شدت کو محسوس کیا۔27دسمبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی ساتویں برسی تھیں ملک بھر میں اس حوالے سے تقاریب منعقد ہوئی جب کہ مرکزی تقریب اور جلسہ عام گڑھی خدابخش میں پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت کے زیراہتمام منعقد کیا گیا۔اس جلسہ عام میں پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے اپنے خطاب میں کئی نکات پر بات کی۔
پیپلزپارٹی کے اندرونی اختلافات کے حوالے پھیلتی خبروں کی تردید انہوں نے کی اور کہا کہ ہمیشہ پاکستان پیپلزپارٹی افواہوں کی گردشوں میں اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے اس حوالے سے انہوں نے اپنے کارکنوں پارٹی پرستاروں اور جیالوں کو مطمئن کرنے کی بھرپور کوشش اپنے خطاب میں کی۔ملک میں موجودہ دہشت گردی کی صورتحال بھی ان کے اس اہم خطاب کا موضوع بنی دہشت گردی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی نااہلی کے سبب ملک آج خطرات میں گھرا ہوا ہے جہاد افغانستان کو جہاد کشمیر سے ملاکر دہشت گردوں کو منظم ہونے کا موقع فراہم کیا گیا۔پرویز مشرف کا نام لیے بغیر”بِلے” کو استعارہ کے طور پر لیکر آصف علی زرداری نے پرویز مشرف کو جہاں تنقید کا ہدف بنایا وہاں اس عنوان پر انہوں نے افواج پاکستان پر طنز کے خوب نشتر چلائے اور اعلانیہ طور پر کہا کہ اگر”بِلا”افواج پاکستان کا نمائندہ ہے تو پاکستان پیپلزپارٹی اس کا مقابلہ کریگی۔
فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مشروط طور پر وہ فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت میں اپنا ووٹ دینگے ساتھ ہی انہوں نے شرط بھی بتلادی کہ سیاستدانوں اور صحافیوں کے تحفظ کی ضمانت پر اس قانون کا ساتھ دی سکتے ہیں۔ آصف علی زرداری کا محترمہ بے نظیر بھٹو کی ساتویں برسی کے موقع پر کیا گیا یہ خطاب کئی حوالوں سے اہم اورغور طلب ہے ان کے خطاب کی نمایاں بات اپنی پارٹی کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کی غرض سے افواج پاکستان پر کی گئی بلاجواز تنقید تھی اپنے خطاب میں وہ پارٹی کارکنوں کو یہ باور کرنا چارہے تھے کہ آج پاکستان پیپلزپارٹی میں جو کمزوریاں خامیاں آپ دیکھ رہے ہیں وہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہیں اور ان کا دشمن بہت مضبوط ہے وہ یہ بھی باور کرانا چاہ رہے تھے کہ پیپلزپارٹی کل بھی اس مضبوط دشمن کی سازش کے سبب مظلوم تھی اور آج بھی لاچار ،بے بس اور مظلوم ہے۔آصف زرداری کو چاہیے کہ انہوں نے اپنے اس خطاب میں جہاں سانحہ کار ساز کے شہداء کو یاد کیا وہاں وہ تھر میں بھوک سے بلک بلک کر ان مرنے والوں بچوں کا ذکربھی کرتے جدھر ان کی حکومت کے ہوتے ہوئے افواج پاکستان کو اپنی خدمات پیش کرنا پڑیں۔ملکی حالات کے پیش نظر تحریکیں بھی وجود میں آجایا کرتی ہیں،احتجاج بھی زور پکڑلیتے ہیں اور نئی سیاسی جماعتیں بھی اپنی عملی جدوجہد کے سبب ملک کے عوام میںمقبول ہوجایا کرتی ہیں۔
کچھ عرصہ قبل جب عمران خان نے میاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف دھرنوں کا آغاز کیا تو آصف علی زرادری نے کئی مواقع پر اس حوالے سے بھی فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا اور عمران خان کو فوج کا نمائندہ قرار دیا جب وہ عمران خان کے حوالے سے افواج پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو انہیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جب خود انہی کی پارٹی پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی گئی اور ان کے قائد ذوالفقار علی بھٹو نے دیکھتے ہی دیکھتے انتہائی قلیل عرصہ میں ملک بھر میں اپنی مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے تو ان کی پشت پر کون کھڑا تھا؟جب محترمہ بے نظیر بھٹو سابق چیف جسٹس آف پاکستان اور اس وقت کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کیلئے چلائی جانے والی تحریک کی حمایت کررہی تھیں اور ان کی ہی جماعت کا ایک بڑا رہنما افتخار محمد چوہدری کی گاڑی ڈرائیو کررہا تھا تب تو ملک میں ایک فوجی جرنیل کی حکومت تھی تب کیسے اس تحریک کو اتنی قوت اور عوام میں پذیرائی ملی کہ دو بارکی معطلی کے باوجود اسی فوجی جرنیل کی حکومت کو محض عوامی طاقت کے آگے گھٹنے ٹیک کر افتخار محمد چوہدری کو بحال کرنا پڑا اس تحریک کہ جس میں آصف علی زرداری کی جماعت ہراول دستہ کا کردار ادا کررہی تھی کے پشتیبان کون تھے۔
خود ان کی حکومت نے جب سوات میں آپریشن کیا اس وقت وہ صدر پاکستان تھے اس وقت بھی افواج پاکستان کو ان کی حکومت میں یہ ذمہ داریاں سونپی گئیں۔وزیرستان میں آپریشن انہوں نے خود روکے رکھا اور صوفی نور محمد سے معاہدہ بھی کیااب جبکہ وہ موجودہ تمام مسائل کی ذمہ داری سے خود کو یکسر مبرا اور آزاد تصور کرتے ہیں حقائق تو یہی ہیں کہ ماضی میں جس طرح سیاسی اور جمہوری حکومتوں سے غلطیاں سرزرد ہوتی رہیں اسی طرح فوجی حکومتوں سے بھی غلطیاں ہوئیں۔ان کی اس بات میں گو وزن ہے کہ غلطیوں کے سبب دہشت گردوں کو پھلنے پھولنے اور طاقتور ہونے کا موقع میسر آیا لیکن سرعام ایک جلسہ عام میں اور ایک ایسے وقت میں کھلے الفاظ میں افواج پاکستان کو رگیدنا اور اپنی بے جاتنقید کا ہدف ٹھہرانا کہ جب دہشت گرد اپنے خلاف ہونیوالی مضبوط فوجی کاروائیوں کے سبب افواج پاکستان کے خلاف کھل کر میدان میں اُترے ہوئے ہیں ایک بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ ہونے اور سابق صدر پاکستان ہونے کی حیثیت سے انکا یہ عمل پاکستان کے عوام کی اکثریت کے نزدیک قابل تعریف اور قابل تائید ہرگز نہیں ٹھہرتا۔
وہ پاکستان کے صدر رہے ہیں پاکستان کے عوام ان سے ذمہ دارانہ کردار اور گفتگوکی توقع رکھتے ہیں۔ وہ جب بھی ایک پارٹی قائد یا رہنما کے طور پر گفتگوکریں انہیں اس بات کو بھی ضرور مدنظر رکھنا چاہیے کہ وہ پاکستان کے کلیدی عہدی پر فائز رہ چکے ہیں اور ایک سابق صدر کے طور پر ان کی بات کتنی اہمیت کی حامل اور کتنا وزن رکھتی ہے جب چہار اطراف دشمن ملکی سالمیت کے درپئے ہے تو وہ سابق صدر کے طور پر یا ایک سیاسی جماعت کے رہنما کے طور پر دنیا کو اپنی اس طرز کی گفتگوکے پیش نظر کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ان کے اندر چھپی خواہشات کا محور و مرکز کیا ہے؟آصف علی زردای نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد ان کی تدفین کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں لاکھوں کے اجتماع میں چوہدری برادران کی پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم کو”قاتل لیگ”کہا تھا لیکن جب خود ان پر مشکل وقت آیا تو اسی قاتل لیگ قرار دی گئی جماعت کے سربراہان کو انہوں نے گلے لگایا۔
پہلی بار ملک میں نائب یا ڈپٹی وزیراعظم کے عہدے کی اصطلاح کا وجود عمل میں لاکر چوہدری پرویز الہی کو اپنی حکومت میں نائب وزیراعظم مقرر کیا۔ چوہدری برادران سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا جاسکتا ہے اور غیر معمولی اختلافات کو پس پشت رکھ کر ان سے نئے تعلقات کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے تو افواج پاکستان سے کیوں نہیں؟آصف زرداری کو ماضی کی طرح آئندہ بھی کبھی کہیں نہ کہیں کسی سطح پر افواج پاکستان کے ساتھ ملکر کام کرنا پڑسکتا ہے۔
ملکی مفاد کا تقاضا تو یہی ہے کہ ذاتی ایجنڈے اور سیاسی ایجنڈے سے ہٹ کر ان حالات میں اب ملک بچانے اور ملکی مسائل حل کرنے کی خاطر سب کو اپنا اپنا ماضی بھلاکر ایک دوسرے کا دست وبازو بن کر آگے کی طرف بڑھنا چاہیے اگر اب بھی ایسی ہی خرافات کے بل بوتے پر کوئی سیاسی رہنما اپنی سیاسی ساکھ مضبوط بنانے کی ضد پر اٹا اور ڈٹا رہے اور کئی بار حکومتیں میسر آنے کے باوجود کوئی خود کو خود سے مظلوم بناکر پیش کرنے کی روش پر چلتا رہے تو یہ محض اس کا ذاتی ایجنڈا تو ہوسکتا ہے لیکن کسی کے ایسے عمل سے پاکستان کا ہر شخص اتفاق نہیں کرسکتا لوگ ویسے بھی اب امن کی کرکٹ کھیلنا چاہتے ہیں وہ تیر سے شیر کے شکار کو اب فضول شے اورو قت کا ضیاع تصور کرتے ہیں
تحریر: لقمان اسد