اسلام آباد( نیوز ڈیسک ) مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد پڑاؤ کی تاریخ تبدیل کرنے جا رہے ہیں، ملک بھر سے چلنے والے قافلوں کی ہدایت ہے کہ اپنے اپنے علاقوں سے 27 اکتوبر کو روانہ ہوں جبکہ تما قافلے ایک ساتھ 31 اکتوبر کو وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں داخل ہونگے۔
تفصیلات کے مطابق جمیعت علمائے اسلام نے بھی ہوٹرن لے لیا ہے اور حکومت کے خلاف پڑاؤ ڈالنے کی تاریخ تبدیل کر دی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے اس حوالے سے کہا ہے کہ جمعیت کا کوئی بھی جلوساکتیس اکتوبر سے قبل اسلام آباد میں داخل نہیں ہوگا ، ستائیس اکتوبر کو جتنے بھی جلوس نکالے جائیں گے وہ کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ہونگے ۔ کشمیریوں کے حق میں جلوس نکالنے کے بعد تما جلوس 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہونگے اور حکومت کے خلاف پڑاؤ ڈالے گے۔دوسری جانب اسی حوالے سے نامور پاکستانی صحافی صابر شاکر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہر طرح کا ماڈل موجود ہے۔جو موزوں ہو ‘وہ دوبارہ بھی آزمایا جا سکتا ہے۔اب‘مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کے حتمی اعلان کے بعد اے این پی محمود خان اچکزئی بھی میدان میں آچکے ہیں۔اور مسلم لیگ نون کے ساتھ ساتھ بلاول بھٹو بھی مولانا کے ارد گرد منڈلاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔اڈیالہ جیل میں اپنے والد صدر زرداری سے ملاقات کے بعد بلاول نے مولانا کی کامیابی کیلئے دعا بھی کی ہے اور اپنی شمولیت کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا‘پھر صدر زرداری کا یہ کہنا کہ نومبر کے آخری ہفتے تک انتہائی احتیاط سے قدم اٹھانا ہوں گے‘ بڑا معنی خیز ہے۔مولانا پارلیمنٹ کے باہر میدان لگائیں گے اور معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک لے جانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ واضح رہے کہ سکیورٹی فورسز گولی نہیں چلائے گی اور نہ ہی چلانی چاہیے‘
بالکل سال 2014ء کی طرح۔سیاسی کھلاڑیوں کو آپس میں ہی پنجہ آزمائی کرنے دے جائے تو بہتر ہوگا۔پارلیمنٹ کے اندر پی پی پی اور مسلم لیگ نون میدان سجائے گی۔بی این پی مینگل‘ ایم کیو ایم‘ مسلم لیگ ق میں سے کوئی ایک جماعت بھی ازخود یا کسی مصلحت پر پھسل جاتی ہے‘ تو نتیجہ صاف ظاہر ہے‘لیکن شاید نوبت یہاں تک نہ پہنچ پائے‘کیونکہ اپوزیشن عددی اکثریت رکھنے کے باوجود مل کر بھی چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے میں ناکام رہی تھی۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تاجروں اورصنعتکاروں سے تفصیلی نشست میں یہ واضح کرچکے ہیں کہ حکومت پانچ سال پورے کرے گی۔اس لیے ملکی معیشت کو بہتر کرنے کیلئے مثبت کردارادا کریں۔ تنازع کشمیر بھی خطے کی بدلتی صورتحال بھی کسی بڑی تبدیلی کی نفی کررہا ہے۔ آرمی چیف کا چین کے دورے پر ساتھ جانا بھی موجودہ سیٹ اپ کے جاری رہنے کی طرف اشارہ ہے۔اور ایک آئینی پیکیج پر بھی خاموشی سے کام جاری ہے‘ جو آئندہ انتخابات سے پہلے یہی اسمبلی منظور کرے گی۔معاملہ الجھا ہوا صرف اس لیے نظر آتا ہے کہ مرئی اور غیر مرئی سمیت مولانا‘ مسلم لیگ نون اور پی پی پی دودھ کے اس قدرجلے ہوئے ہیں کہ چھاچھ کو بہت پھونک پھونک کر پینا چاہتے ہیں۔ورنہ تو سب ایک ہی چھتری تلے پلے بڑھے ہیں۔کیا اپوزیشن صورتحال کو اس نہج پر لے جائے گی کہ وزیر اعظم عمران خان ‘ایوان ِصدر جانے کیلئے تیار ہو جائیں ؟ کیونکہ دھرنا ہونے سے پہلے نہ روکا گیا تو پھر یہ کسی ایک کی قربانی ضرور لے گا۔اور وہ ایک کون ہوسکتا ہے اس کا انحصار اپوزیشن کی سجائی سیاسی شطرنج کی بساط پر ہوگا ‘کیونکہ سیاست میں کبھی کبھی دو اور دو پانچ بھی ہوتا ہے۔