اسلام آباد (ویب ڈیسک) مولانا فضل الرحمٰن کی اجیت دول کے منظر عام پر لائی جانے والی تصویر پرانی ہے 6 سال قبل 2013ء میں جب مولانا فضل الرحمٰن بحیثیت چیئرمین کشمیر کمیٹی انڈیا کے دورے پر گئے تھے اور ایک تھنک ٹینک کی تقریب میں شریک تھے یہ تصویر اس موقع کی ہے لیکن اس پرانیتصویر کو ایک غلط رنگ میں پیش کیا جارہا ہے۔
یہ وضاحت مولانا فضل الرحمٰن کے ترجمان کی جانب سے اس تصویر کے حوالے سے جاری کی گئی ہے جو اتوار کو سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ بعض ٹی وی چینلز پر بھی دکھائی گئی، اس تصویر میں جمعیت علمائے ہند کے جنرل سیکرٹری مولانا محمود مدنی اور جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمٰن اجیت دول کے ہمراہ بیٹھے ہیں جو اس وقت بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے مشیر برائے قومی سلامتی امور ہیں اور ماضی میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے اہم رکن اور تحقیقاتی اداروں سے وابستہ رہے ہیں۔۔تاہم ترجمان کی جانب سے وضاحت میں کہا گیا ہے کہ جس وقت مولانا فضل الرحمٰن اجیت دیول سے ملے تھے اس وقت وہ وی آئی ایف کے ڈائریکٹر تھے۔ وضاحت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مولانا نے بھارتی وزیراعظم سے بھی ملاقات کی تھی اور بھارت جانے سے قبل پاکستان کی انٹیلی جنس اداروں سے بریفنگ لے کر گئے تھے اور واپسی پر بھی ان کو تمام حالات کی رپورٹ کی تھی۔ جبکہ دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام ف نے پیمرا کے خلاف انسانی اور صحافتی حقوق کی عالمی تنظیموں کو خطوط لکھ دیے ہیں جبکہ پارٹی ترجمان نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کی اجیت دول کے ساتھ تصویر 6 سال پرانی ہے۔ تفصیلات کے مطابق جمعیت علمائے اسلام (ف)نے انسانی اور صحافتی حقوق کی عالمی تنظیموں کو خطوط تحریر کیے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ’’پیمرا‘‘ نے ہماری جماعت کے سربراہ کی نشریاتی کوریج پر پابندی عائد کر دی ہے، ہم 2018 کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف مسلسل آواز اٹھا رہے ہیں جس کی پاداش میں یہ پابندی کی گئی ہے۔ایچ آر سی، پی آئی ایف جے، ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دیگر اداروں کو لکھے جانے والے ان خطوط میں کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعت ہونے کے ناطے احتجاج ہمارا آئینی اور جمہوری حق ہے لیکن پیمرا ہماری آواز کو دبا رہا ہے اس لئے عالمی تنظیمیں ہماری آواز کو عالمی سطح پر بلند کرے۔