اسلام آباد(یس اردو نیوز) پانچ سال پورے کرنے کی بات کرنا قوم کو بددعا دینے کے برابر ہے۔ عید الاضحی کے بعد تمام مدارس کھولے جارہے ہیں۔ کرونا وبا کے تناظر میں ایس اوپیز کے مطابق ‘مدارس کے بچوں کے امتحانات ان کے متعلقہ ضلع کے مدارس میں لیے جائیں گے ۔’ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے مطالبہ کیا ہے کہ ایک مرتبہ شفاف انتخابات قوم کو دے جائیں، ریاستی ادارے اس میں مداخلت نہ کریں، بیلٹ باکس تبدیل نہ کریں اور عوام کے ووٹ کو شفاف طریقے سے گنا جائے، اس طرح جو فیصلہ قوم کرے گی ہمیں قبول ہے۔ کراچی میں جے یو آئی (ف) کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان صوبوں کے درمیان میثاق ملی ہے، آج بھی ہم یہ مطلبہ کریں گے کہ ووٹ قوم کی امانت ہے، واپس قوم کو دی جائے، الیکشن شفاف کیے جائیں، یہ دور اب ختم ہوجانا چاہے کہ الیکشن ہوتے ہیں اور اس پر اعتراضات شروع ہوجاتے ہیں انہوں نے کہا کہ ‘وزیراعظم عمران خان کچھ کہتے ہیں اور فوج کچھ کہتی ہے، یعنی ریاست اور ریاستی ادارے ایک پیج پر نہیں ہیں اور پھر یہ ہی معاملہ وفاق اور صوبوں کے مابین ہے’۔ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ سیاسی جماعتیں اس وقت ریاست کی بقا کی جنگ لڑرہی ہیں، ایک طرف دنیا کووڈ 19 کا مقابلہ کررہی ہے اور دوسری طرف اپوزیشن پاکستان میں کووڈ 18 کا مقابلہ کررہی ہے۔
جے یو آئی (ف) کے سربراہ کا کہنا تھا کہ حکومت کی کوئی پالیسی نظر نہیں آتی، معاشی طور پر ختم ہوجاتے جارہے ہیں، ملک کی برآمدات ختم ہوچکی ہیں۔ انہوں نے کہا پچھلے انتخابات کو تمام سیاسی جماعتوں نے مسترد کیا اور پانچ سال پورے کرنے کی بات کرنا قوم کو بددعا دینے کے برابر ہےایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ‘ایک انڈے کو نکالنے سے کچھ نہیں ہوگا پورا ٹوکرا خراب ہے، مائنس آل کی بات کریں’۔ فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جس طرح فاٹا کا انضمام کیا گیا، اسی طرح مقبوضہ کشمیر کا انضمام ہوا۔ جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے کہا کہ ہماری پالیسی عجیب ہے، کشمیر کے محاذ پر فعال ہیں اور کرتارپور راہداری کے محاذ پر دوستی اور محبت ہے، دو محاذوں پر ایک ہی یونین کے ساتھ دو مختلف رویےکیوں ہیں۔ پاکستان میں زیر حراست بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ‘کلبھوشن کا معاملہ عدالت میں ہے، اگرچہ وہ ہمارا دشمن ہے لیکن پاکستان کے آئین کے مطابق عدل و انصاف کے تحت سارے امور ہونے چاہیے’۔ مدارس کو کھولنے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے واضح کیا کہ ‘ہم کسی تضاد کی طرف نہیں جارہے ہے، حکومت عید الاضحیٰ کے بعد تعلیمی ادارے کھولنے کی بات کررہی ہے اور ہم بھی عید کے بعد کھولنے جارہے ہیں’۔