تحریر: ممتاز ملک ۔ پیرس
نثار صاحب کے چاروں بچے اب اپنے پاوں پر کھڑے ہو چکے تھے . دونوں بیٹیاں اچھی جاب بھی کر رہی تھیں اور اچھے گھروں میں بیاہی جا چکی تھیں اور بہت خوشحال زندگی گزار رہی تھیں . بیٹے بھی اچھے عہدوں پر فائز اور شادی کے بعد اپنے اپنے گھروں میں آباد ہو چکے تھے . تین کمروں کا اپارٹمنٹ اب دونوں میاں بیوی کے لیئے کافی تھا. اچانک نثار صاحب کی وفات سے اب ان کی ماں اکیلی ہو گئی تھی ،بلکہ وہ آمدنی جو میاں کی دکان سے آتی تھی اب ختم ہو گئی تھی. انکے بچوں کا خیال تھا کہ ابا کافی جمع پونجی چھوڑ گئے ہیں، اس لیئے ماں کو کوئی تنگی نہیں ہے لیکن گھر کا ٹیکس ،چارجز، یوٹیلٹی بلز یہ سب ادا کرنے کے لیئے اب ماں کے پاس کچھ نہیں.تھا زیورات کے نام پر کوئی سونا چاندی بھی وہ سفید پوشی میں بچوں کی ضروریات پوری کرتے ہوئے بنا نہ پائی تھیں کہ اسی کو بیچ کر کچھ عرصہ گزارہ کیا جا سکے . گھر کا کچن جو ہر چیز سے بھرا رہتا تھا وہ نعمت جا نہ اور سٹور روم بھی چارماہ دس دن کی عدت کے دوران ختم ہو چکا تھا . اپنی وضع داری کا بھرم رکھنے کویہ ماں اپنی اولاد سے بھی یہ نہ کہہ سکی کہ مجھے ماہانہ کچھ رقم دے دیا کرو یا ان اخراجات کی ادائیگی کر دیا کرو . ایک روز چھوٹے بیٹے نے اس کی طرف چکر لگایا . ماں کو گلے لگایا . خیریت پوچھی اور یہ کہہ کر روانہ ہو گیا کہ “ماں اپنا خیال رکھنا “پھر آؤنگا۔۔۔۔۔۔
چار روز بعد بڑے بیٹے نے بھی ماں.کے گھر آ کر خیریت پوچھی اور “پھر آؤنگا “کہہ کر روانہ ہو گیا . بڑی بیٹی نے فون پر ایک آدھ منٹ بات کر کے” ماں اچھی ہو ” کہہ کر فون رکھ دیا. چھوٹی بیٹی کا ماں کے گھر جانے کا آج ارادہ ہوا، سوچا آج ماں کو بٹھا کر خود اپنے ہاتھ سے چائے بنا.کر پلاؤں گی . ماں سے گلے مل کر خیریت معلوم کی اور اسے بٹھایا کہ میں آپ کے لیئے چائے بناتی ہوں .ماں نے پوری کوشش کی کہ وہ اس کے چکن میں نہ جائے لیکن وہ نہ مانی . اس نے کچن کیبنٹ کھولی تو ٹی بیگ ندارد . وہ سٹور روم میں چائے لینے گئی تو وہ سٹور روم جہاں ان کے باپ کے ہوتے اس قدر کھانے پینے کا سامان ہوتا کہ پاؤں رکھنے کو جگہ نہ ہوتی اب وہاں کھانے کو دانہ نہ تھا .
ماں کایہ سوچ کر حال خراب ہونے لگا کہ آج بھرم کی سنبھالی ہوئی چادر تار تار ہونے کو ہے . اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا .
ماں کیا کرتی ہیں آپ نے گروسری بھی نہیں خریدی ابھی تک. لیکن ماں تو صوفے پر اکھڑی ہوئی سانسیں لے رہی تھی
اس کے تو ہاتھ پاوں پھول گئے . امّاں امّاں کیا ہوا.بولیں نا… اس نے ماں کو بمشکل پڑوسن کی مدد سے اپنی گاڑی میں ڈالا کہ وہ ایمبولینس کے انتظار میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی . فورََا قریبی ہسپتال میں ان کا چیک ہوا ، وہ بے چینی سے ہسپتال کے ایمرجنسی روم کے باہر ٹہل رہی تھی . اور سوچ رہی تھی امّاں بابا کے جانے کے بعد ان کے غم میں بہت کمزور ہو گئی ہیں .اتنے میں ڈاکٹر نے باہر آ کر اس سے پوچھا آپ کی ماں اتنے روز سے بھوکی کیوں ہے ؟ تین چار روز سے کھانا نہ کھانے کی وجہ سے ان کی حالت خراب ہو گئی تھی اب انہیں کچھ کھلا دیں تاکہ دوا دی جا سکے .
وہ فورا اپنی ماں کے پاس پہنچی جو اب قدرے ہوش میں تھی . آپ نے کھانا کب سے نہیں کھایا ؟اور کیوں نہیں کھایا وہ بس وقت نہیں ملا کس بات کا؟ کھانا کھانے کا امّاں ؟؟ نہیں وہ گروسری کرنے کا ؟ امّاں آپ سارا دن گھر میں ہوتی ہیں کام بھی کوئی خاص نہیں ہے پھر یہ کیا وجہ ہوئی کہ گھر کے سامنے کے سٹور سے گروسری کا وقت نہیں ملا آپ کو؟ ماں نے آنکھیں موند لیں. اماں مجھے پتہ ہے آپ جاگ رہی ہیں مجھے جواب دیں جانے کہاں سے موٹے موٹے آنسو ماں کی بند آنکھوں کناروں سے باہر لڑھک گے شاید سب کچھ کہہ گئے بیٹی نے اپنے منہ پر شدت غم سے نکلتی چیخ کو روکنے کے لیئے ہاتھ رکھ کر پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھا اس کے ذہن میں پچھلے چار دن کی فلم چلنے لگی آفس لنچ ، گھر پر دو روز سے ہونے والی دعوتوں اور پھر بہت سا کھانے کا سامان مسجد میں بھی بھیج دیا تھا . اور یہاں اس کی ماں چار روز سے بھوکی تھی . ہمیں یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ ہم بہن بھائی ساتھھ بیٹھھ کر ماں سے پوچھتے کہ امّاں آپ کی مالی حالت کیسی ہے.؟
ہم آپ کو مالی طور پر کیسے تحفظ دے سکتے ہیں ؟ یا ہم سب آپ کا جیب خرچ طے کر دیں تاکہ آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو. یہ.سب بہت آسان تھا ان کے لیئے ، لیکن ماں کی غیرت نے ان سے یہ سب کہنا سننا گوارہ نہ کیا . ہمیں یہ خیال خود سے ہونا چاہیئے تھا کہ ہماری شہر بھر میں کی جانے والی نیکی میں سب سے بھاری نیکی کو ہم نے قابل اعتناء ہی نہ جانا اور محروم رہے اس نے فوں پر بہن بھائیوں کو فورََا اسپتال پہنچنے کی تاکید کی اور بہن کو گھر سے کھانا لیکر آنے کی تاکید کی۔ ایمرجنسی وارڈ میں وہ اپنی ماں کے سرہانے کھڑی سوچنے لگی کہ ماں اپنے بچوں کی ہر ضرورت بنا کہے جان جاتی ہے اور اولاد اتنی بے خبر کیسے ہو سکتی ہے ایک عمر کے بعد ماں باپ اور اولاد کی جگہ بھی بدل جاتی ہے شاید ۔ پہلے ماں باپ ہمارا خیال رکھتے ہیں اور پھر بچوں کو اپنے ماں باپ کا کیال رکھنا ہوتا ہے ۔ یہ ہی اس رشتے کا حسن ہے۔
اس نے بہن کے آنے سے پہلے کینٹین سے سینڈوچ منگوا کے ماں کو دھیرے سے پکارا امّاں ۔۔۔۔ آنکھیں کھولیں آپ کو میری قسم ۔۔۔۔۔ ماں نے ڈبڈباتی آنکھوں سے نقاہت سےاسے دیکھا منہ کھولیں جلدی سے اس نے ماں کے منہ میں پیار سے لقمہ رکھا اس ایک لقمے کے ماں کے منہ میں جاتے ہی آج اسے شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ اپنے پیاروں سے بے خبری کیوں معاف نہیں ہوتی اس کی آنکھوں سے دو آنسو گرے اور ماں کے دوپٹے میں جذب ہو گئے ۔ اس نے اللہ کا شکر ادا کیا کیا کہ بہت دیر نہیں ہوئی تھی اور ماں کی چھاؤں سلامت تھی۔
تحریر: ممتاز ملک ۔ پیرس