کراچی کی مقامی عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں سابق بینکر اور آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی تصور کیے جانے والے حسین لوائی اور طٰحٰہ رضا کو 11 جولائی تک جسمانی ریمانڈ پر فیڈل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے حوالے کردیا۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے 6 جولائی کو حسین لوائی سمیت 3 اہم بینکرز کو منی لانڈرنگ کے الزامات میں حراست میں لیا گیا تھا۔
ایف آئی اے کی جانب سے دونوں ملزمان کو سخت سیکیورٹی کے حصار میں سٹی کورٹ میں جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
عدالت میں پیشی کے دوران ایف آئی اے کے تفتیشی افسر سراج پہنور کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ حسین لوائی پر منی لانڈرنگ، بینک فراڈ اور کرپشن کے الزامات ہیں اور اس حوالے سے چیف جسٹس پاکستان نے بھی ازخود نوٹس لیا۔
اس موقع پر ایف آئی اے کی جانب سے 28 اکاوئنٹس کی تمام تفصیلات بھی عدالت میں پیش کردی گئیں۔
دورانِ سماعت حسین لوائی کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل شوکت حیات نے بتایا کہ 3، 4 سال سے بند تحقیقات دوبارہ شروع کی گئی، اس پر ایف آئی اے حکام نے کہا کہ ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد ہیں، جبکہ ان کے وکیل کا اعتراض بے بنیاد ہے۔
اس پر تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ ملزمان نے 7 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی جبکہ ان سے 4 ارب روپے برآمد کر لیے گئے ہیں۔
دوران سماعت ایف آئی اے کی جانب سے ملزمان کے وکیل کو ایف آئی آر کی کاپی بھی فراہم کی گئی جبکہ اس دوران دونوں فریقین کے درمیان تکرار بھی دیکھنے میں آئی۔
ملزمان کے وکیل کی جانب سے کہا گیا کہ ان کے موکل کا طبی معائنہ کرایا جائے، ملزمان تعلیم یافتہ ہیں اور بی کلاس کے حقدار ہیں۔
اس پر عدالت کی جانب سے ملزمان سے استفسار کیا گیا کہ آپ پر تشدد تو نہیں کیا گیا جس پر ملزمان نے جواب دیا کہ ہم پر کوئی تشدد نہیں کیا گیا۔
بعدِازاں عدالت نے تفتیشی افسر کو ملزمان کا میڈیکل کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
ساتھ ہی عدالت نے ملزمان کا 11 جولائی تک جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے تفتیشی افسر کو ہدایت دی کہ آئندہ سماعت پر تفتیش میں پیش رفت سے بھی آگاہ کیا جائے۔
میرا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے، حسین لوائی
عدالت میں پیشی کے موقع پر حسین لوائی نے میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے جبکہ مجھ سے کوئی رقم برآمد نہیں ہوئی اور یہ کیس برآمدگی کا نہیں بلکہ منی لانڈرنگ کا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں ایک بینک کا صدر ہوں برانچ منیجر نہیں، 2014 میں میرے خلاف تحقیقات کی گئی۔
حسین لوائی سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ کو آصف علی زرداری کی وجہ سے گرفتار کیا گیا؟ اس پر انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ مجھے آصف علی زرداری یا کسی اور وجہ سے گرفتار کیا، وقت بتائے گا مجھے نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فیصلہ آنے میں دیر ہے لیکن بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ اس مقدمے کے پیچھے کون ہے۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ ایف آئی اے حکام کہتے ہیں کہ آپ سے 4 ارب روپے بر آمد ہوئے ہیں؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ نہ ہی یہ برآمدگی کا معاملہ ہے اور نہ مجھ سے پیسہ بر آمد ہوئے۔
حسین لوائی نے کہا کہ ’میں بلڈ پریشر اور دل کا مریض ہوں، جنہوں نے یہ سب کام کیے وہ ملک سے باہر ہیں لیکن الزام مجھ پر لگادیا گیا‘۔
واضح رہے کہ 6 جولائی کو وفاقی تحقیقاتی ادارے نے معروف اینکر اور سمٹ بینک کے سابق سربراہ حسین لوائی سے تقریباً 35 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کے کیس میں ایف آئی اے کے دفتر میں پوچھ گچھ کی، بعد ازاں انہیں حراست میں لے لیا گیا تھا۔
اس حوالے سے ذرائع کا کہنا تھا حسین لوائی اور دیگر 3 بینکرز نے 3 مختلف نجی بینکوں میں 29 جعلی بینک اکاؤنٹس بنائے جن میں سندھ حکومت کے مراعات یافتہ افراد نے رقوم جمع کرائیں تھیں جنہیں بعدِازاں مبینہ طور پر اہم سیاستدان، ان کے کاروباری شراکت دار اور ایک عرب شہری کے اکاؤنٹ میں منتقل کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ حسین لوائی 40 سال سے زائد بینکنگ کا تجربہ رکھتے ہیں اور وہ نومبر 2008 سے فروی 2016 تک سمٹ بینک لمیٹڈ کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔
اس کے علاوہ حسین لوائی اٹلس بینک لمیٹڈ اور مسلم کمرشل بینک کے سی ای او بھی رہ چکے ہیں جبکہ فیصل اسلامک بینک اور مشرقی وسطیٰ کے یونین بینک کے کنٹری جنرل منیجر بھی رہے ہیں۔
حسین لوائی و دیگر کے خلاف درج ایف آئی آر کے اہم مندرجات
حسین لوائی اور دیگر کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر میں اہم انکشاف سامنے آیا ہے جس کے مطابق اس کیس میں بڑی سیاسی اور کاروباری شخصیات کے نام شامل ہیں۔
ایف آئی آر کے مندرجات میں منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والی آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی کمپنی کا ذکر بھی ہے، اس کے علاوہ یہ بھی ذکر ہے کہ زرداری گروپ نے ڈیڑھ کروڑ کی منی لانڈرنگ کی رقم وصول کی۔
ایف آئی آر میں انور مجید کی کمپنیوں کا تذکرہ بھی ہے جبکہ ابتدائی طور پر 10 ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے درج ایف آئی آر میں چیئرمین سمٹ بینک نصیر عبداللہ لوتھا، انور مجید، نزلی مجید، نمرہ مجید، عبدالغنی مجید، اسلم مسعود، محمد عارف خان، نورین سلطان، کرن امان، عدیل شاہ راشدی، طٰحٰہ رضا نامزد ہیں۔
ایف آئی آر کے متن میں منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والی کمپنیوں اور افراد کو سمن جاری کردیا گیا جبکہ فائدہ اٹھانے والے افراد/ کمپنیوں سے وضاحت بھی طلب کرلی گئی ہے۔
ایف آئی آر کے متن میں کہا گیا کہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ 6 مارچ 2014 سے 12 جنوری 2015 تک کی گئی۔