پاکستان ایسا ملک ہے جہاں اشیائے خورد ونوش پر بھی ٹیکس لگتا ہے ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہو تا کیونکہ ٹیکس ان لوگوں پر لگتا ہے۔
پاکستان ایسا ملک ہے جہاں اشیائے خورد ونوش پر بھی ٹیکس لگتا ہے ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ ٹیکس ان لوگوں پر لگتا ہے جن کی آمدن زیادہ ہوتی ہے ہمارے ملک میں معاملہ ہی الٹ ہے، امیروں سے ٹیکس لیتے نہیں اور غریبوں کی ہر چیز پر ٹیکس ہے۔ آٹا، دال، دودھ، گھی سب پر ٹیکس۔ یہ ظلم ہے، نا انصافی ہے۔ ابھی پٹرول، ڈیزل کے نرخوں میں اضافہ کر کے ایک اور بم چلا دیا گیا جس سے ٹرانسپورٹ سے وابستہ تمام چیزیں مزید مہنگی ہو جائینگی۔ ٹماٹر پہلے ہی 200 روپے، بھنڈی 100 روپے کلو تک فروخت ہو رہی ہے۔ غریب کہاں جائے، کیا کھائے؟، ان حالات میں یہ سوال ضرور اٹھے گا کہ حکمران خاندان نے اربوں، کھربوں کہاں سے جمع کر لیے؟، یہ بالکل سیدھا سا معاملہ ہے۔ ہمارے فوجداری نظام قانون کی 2 باتیں بڑی اہم ہیں، ایک، اگر آپ کسی پر الزام لگاتے ہیں تو یہ آپ کو ثابت کرنا ہے کہ وہ مجرم ہے، لیکن جب یہ معاملہ پبلک آفس ہولڈر کے معلوم ذرائع آمدن سے زائد اثاثوں کا ہو تو ایسے میں پھر ملزم کو یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ مجرم نہیں ہے۔ بتانا پڑتا ہے کہ اس نے یہ اثاثے کیسے بنائے۔ وہ کون سے ذرائع تھے جن کو یہ اثاثے بنانے کیلئے بروئے کار لایا گیا، جیسے ایک طرف تو 6 ہزار روپے ٹیکس دیا جاتا ہے، دوسری طرف انہی کی اربوں کی جائیدادیں نکلتی ہیں، ایسے میں یہ ان کو بتانا ہے کہ یہ کہاں سے آئیں۔ گزشتہ 2 سال سے ان جائیدادوں کی منی ٹریل نہیں دی جا سکی اور اگر اب بھی یہ ثابت نہ کر سکے تو پھر یہ گمان کیا جائے گا کہ یہ مجرم ہیں کیونکہ اسطرح کے مقدمات میں ثابت کرنے کی ذمہ داری ملزم پر ہوتی ہے۔
مثال کے طو ر پر ایک افسر کی تنخواہ ایک لاکھ روپے ہے اور اس کے اثاثے 2 ارب کے ہیں تو اس سے پوچھا جائے گا کہ یہ آپ نے کیسے بنائے جس کے جواب میں اگروہ ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا تو ایسے میں یہی سمجھا جائے گا کہ یہ پیسہ عوام کا ہے۔ آمدن سے زائد اثاثوں کے مقدمات کو سیاسی بنا کراس کا فائدہ اٹھایا جارہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ہم بے قصور ہیں، حالانکہ دو سال ہو چکے، اگر قابل قبول منی ٹریل دے دی جاتی تو بات کب کی ختم ہو چکی ہوتی، نیب اس وقت سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کر رہا ہے، نیب کے چیئرمین بھی اب ایک سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج ہیں، ورنہ ماضی میں یہ نیب والوں کو بھی کرپشن کے پیسوں میں سے کچھ دے کر معاملات صاف کرا لیتے تھے۔ قائد اعظم نے 11 اگست کو پہلی بات یہ کہی تھی کہ تین چیزوں سے خبردار رہیں، اقربا پروری، بدیانتی اور کرپشن۔ یہ برائیاں اگر ہماری جڑوں میں چلی گئیں تو بیخ کنی ہو جائے گی۔ اقربا پروری یہ ہے کہ باپ کی جگہ بیٹے کو دے دی جائے، جیسے حضرت معاویہ ؓ نے یزید کو حکمران بنا دیا، امام حسین ؓ کا قافلہ اسی لئے تھا کہ یہ ظلم نہ ہو کہ باپ اپنے بیٹے کو نامزد کرے کیونکہ اسلام تو مانتا ہی جمہوریت کو ہے، چاروں خلفائے راشدین منتخب ہو کر آئے تھے اور اس کے بعد یزیدیت آگئی اور اب اس کی پیروی ہم کر رہے ہیں۔
اقبال کہتے ہیں کہ قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات سپریم کورٹ نے 6 ماہ میں ان مقدمات کا فیصلہ کرنے کا کہاہے، احتساب عدالت کو مقررہ مدت میں یہ مقدمات نمٹانے چاہئیں، گواہان موجود ہیں اور اب تو وہ خود بھی آ گئے ہیں، اگرچہ صاحبزادگان کو سمن و نوٹسز بھیجے گئے مگر وہ نہیں آئے، لیکن اس کے باوجود فیصلہ تو ہونا ہے، ان کی جائیدادیں قرق کرلی گئی ہیں اور طریقہ کار بھی یہی ہے، نیب آرڈیننس بھی یہی کہتا ہے، نیب آرڈنینس میں تو مقدمات کیلئے 6 ماہ سے بھی کم کا وقت دیا گیا ہے، جس پر ماضی میں عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ اسی طرح عمران خان صاحب ہیں، شاید انہوں نے ریکارڈ نہیں رکھا ہوا تھا، کبھی کہہ دیتے ہیں کہ جمائما نے پیسے بھیجے اور کبھی کچھ کہہ دیتے ہیں، اگر وہ بھی پھنستے ہیں تو اس کا بھی ٹرائل ہونا چاہیے، اسی طرح اپورزیشن لیڈر ہیں، جن پر الزام ہے کہ وہ ایک میٹر ریڈر تھے اور اب ارب پتی بن گئے ہیں۔ اب معاملات مزید تاخیر کا شکار نہیں ہو نے چاہئیں۔ قانون کو اپنا راستہ اختیار کر نا چاہیے۔