کوئٹہ میں چوتھے پشتوعالمی سیمینار کے لیے جاتے ہوئے اس طرف کا سفر ہم نے ایک پرائیویٹ کمپنی کے جہاز میں کیا، پرواز کے دوران وہ تمام سہولتیں فراہم کی گئیں جو ہوائی سفر میں مروج ہیں، نک سک سے بالکل درست، ائیرہوسٹیں، پر تکلف کھانا اور مشروبات وغیرہ واپسی کا ٹکٹ باکمالوں اور لاجوابوں کا تھا ۔اس لیے ایک گونہ خوشی ہوئی کہ چلو اتنا تو معلوم ہو گیا کہ اپنی قومی ایئر لائن اتنی مصروف ہے کہ مسافروں کو نہ لے جا پانے کی وجہ سے دوسروں کو بھی موقع دے رہی ہے۔ اصل میں انسان کو خوش ہونے کے لیے بہانہ چاہیے ہوتا ہے پھر وہ سب کچھ خود ہی فرض کرلیتا ہے۔
لیکن ہماری یہ خوشی واپسی کے سفر میں اس وقت ہوا ہو گئی جب بس سے اتر کر ایک ایسے جہاز کی سیڑھیوں کے سامنے پہنچے جس کا رنگ گہرا نارنجی بلکہ سرخ تھا پہلے تو خوشی ہوئی کہ اپنے باکمال لوگ اتنے لاجواب ہو گئے ہیں کہ ائرلائنوں کے ساتھ ساتھ دوسروں کے جہازوں کو بھی دال ‘روٹی کا موقع دے رہے ہیں، کسی نے کہا کہ یہ طیارہ روس کا ہے اوپر چڑھے تو کسی خوش نماء ائیر ہوسٹسں کو استقبال کرنے کے بجائے ایک مرد کا سامنا ہوا دیکھ کر کپاس کے کھیت میں بھینسے کا منظریاد آیا، رنگت تو خدا کی دین ہے لیکن اس کا سفید چہرہ نہایت ہی خزن وملال اور دکھ بھرا دکھائی دے رہا تھا جیسے نہایت مجبوری لاچاری اور بیزاری کے عالم میں کھڑا کر دیا گیا ہو۔
اندر بیٹھنے کے بعد ایک خاتون بھی نظر آئی جسے ہم کوئی معمر گھریلو خاتون سمجھ کر اپنی سیٹ چھوڑنے والے تھے لیکن دوسرے ساتھی نے کھینچ کر بٹھا دیا کہ مسافر نہیں ائیرہوسٹس ہے۔ غور سے دیکھا تو تعین کرنا پڑا کیونکہ محترمہ نے لیپاپوتی کی ہر ممکن کوشش کی ہوئی تھی لیکن اس کم بخت چغل خور غماز عمر کے مقابلے میں ہار گئی تھی، دکھ فکر مندی اور مجبوری کی تحریر اس کے چہرے پر لکھی ہوئی تھی۔ ہماری سیٹ کے سامنے دوسری سیٹ پر کچھ نامانوس سی تحریر نظر آئی تو ہم نے اپنے ایک روسی ساتھی السکیاندر سے اس کا مطلب پوچھا۔ اس روسی پشتو اسکالر کا قصہ بعد میں سنائیں گے جو پشتو عالمی سیمینار میں شرکت کے لیے روس سے آیا تھا اس نے تحریر پر نظر ڈالی تو بولا کہ یہ روسی تحریر نہیں بلکہ ویت نامی زبان لکھی ہوئی ہے اور یہ طیارہ بھی ویت نامی ہے۔
اللہ اللہ ہمارے باکمالوں اور لاجوابوں کی دریا دلی اور غریب نوازی کہ جنگ زدہ‘غربت زدہ بلکہ سب کچھ زدہ ویت نام کو بھی نواز رہے ہیں ۔اس وقت تک بھی ہمارا یہ یقین قائم تھا کہ باکمال لاجواب دوسروں کو نوازنے کاکام غریب پروری کے جذبے سے کر رہے ہیںلیکن جب تواضع شروع ہوئی تو پتہ چلا کہ جسے سمجھے تھے انناس وہ عورت نکلی۔
ایک ڈبے میں دو پٹریاں انتہائی سوگوار صورت بنائے پڑی تھیں جن کے ساتھ پلاسٹک کا ایک کپ بھی سنگت کر رہا تھا جس کی گنجائش تقریباً ڈیڑھ گھونٹ کی رہی ہو گی وہ بھی کسی چھوٹے بچے کی، بعد میں اس کپ کے اندر تھرماس سے تھوڑی سی چائے بھی ٹپکاری تقریباً وہی وقت تھا۔ وہی سفر تھا جس میں پرسوں دوسرے ائیر لائن والے پر تکلف کھانا ، رنگا رنگ مشروبات اور بعد میں چائے دے چکے تھے ۔کئی سال پہلے بھی ایک مرتبہ ہم اپنے باکمالوں کے ساتھ اسی کوئٹہ سے اسی وقت سفر کر چکے تھے تب ویسا ہی پرتکلف کھانا ملا تھا جو ائیر لائنوں میں مروج ہے لیکن اس مرتبہ پھر
آیا ہے بے کسئی عشق پہ رونا غالب
اس شعر کا دوسرا مصرعہ بھی لاجواب اور کمال کا ہے کہ یہ ’’ سیلاب بلا ‘‘ جو پہلے ریلوے کو لاحق ہوا پھر واپڈا کو نگل گیا پھر پی ٹی وی کو دفنا دیا اور اب با کمالوں کو لاحق ہے اس کے بعد کہاں جائے گا ؟یعنی
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
اور کس کے گھر جائے گا وہی تو اس کا ٹھکانہ ہے جسے عوام کالانعام کہتے ہیں جو پیدا ہی اس لیے ہوئے ہیں کہ ہر کسی کے جرم کی سزا انھیں دی جا سکے ۔
ایک پشتو گیت ہے کہ
نرے باران دے پاس پہ غرونوئے وروینہ
جورے کرمے تہ نصیب راو ستی یمہ
یعنی بارش اوپر پہاڑوں پر برس رہی ہے لیکن میرا نصیب مجھے گہرے کرمے‘‘(کرم پارہ چنار کا نام ہے) میں لے آیا ہے
یعنی سیلابوں کی زد میں ہوں۔
پاکستانی عوام بھی پیدائشی طور پر ’’گہرے کرمہ‘‘ میںبسائے گئے ہیں۔یہ اس ملک پر خسارے کا ’’ڈینگی‘‘ ہر محکمے کو لاحق ہے بلکہ صحیح نام شاید سوائن فلو ہو اس نے ہر محکمے اور ہر ادارے کی ریڑھ کی ہڈی کو گلا دیا ہوا ہے جو بھی آتا ہے اپنی جھولی تو بھر کر لے ہی جاتا ہے لیکن اپنے پیچھے نا اہلوں نکھٹوؤں اور نالائقوں کی ایک بڑی تعداد بھی سرکاری محکموں اور اداروں میں گھسا دیتا ہے جواس کی ریڑھ کی ہڈی پر مستقل بوجھ بنے ہوئے ہوتے ہیں، ایسا کونسا محکمہ یا ادارہ ہے جو خود اپنے آپ کو نہ ہڑپ کر رہا ہو۔گویا
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
وہی نیولے اور سانپ کا قصہ ہونے ہی والا ہے۔کہ سانپ نے نیولے کو نگلنا شروع کیا اور نیولے نے سانپ کو دم کی طرف سے نگلنا شروع کیا، تھوڑی دیر میں وہاں کچھ بھی نہ رہا سانپ کو نیولے نے نگل لیا تھا اور نیولے کو سانپ نے نگل لیا تھا ،کوئی پوچھے کہ دونوں کہاں چلے گئے تو جواب یہی ہے کہ دونوں نے ایک دوسرے کو نگل لیا اور جب دونوں ہی ’’نگلے‘‘ گئے تو وہاں بچتا کیا؟
آیا نہ اس نالہ دل کا اثر مجھے
جب تم ملے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے
سعداللہ جان برق:بشکریہ ایکسپریس نیوز