تحریر : نعیم الرحمان شائق
بابا کی محفل میں سکوت مرگ چھایا ہوا تھا۔ وہ خود بھی خاموش تھے، ان کی مرید بھی چپ تھے۔ بابا کی محفلیں اکثر و بیشتر تبسم بانٹتی تھیں۔ جو بھی یہاں آتا، خوش وخرم ہو جاتا۔ مگر کبھی کبھار سکوت چھا جاتا ۔ خاموشی اس محفل کو ہر طرف سے گھیر لیتی تھی ۔ یہ اسی وقت ہوتا ، جب کوئی جاں کاہ حادثہ پیش آتا ۔ جب انسانوں کا خون ہوتا تو بابا سمیت اس کے مریدین اداس ہو جاتے ۔ بابا ایسے واقعات کے بعد تبصرے بھی کرتے ، جو بڑے پر مغز ہوتے ۔ ان کے مریدین ان کی باتوں سے مستفید ہوتے ۔ آج کا سکوت بھی یہ بتا رہا تھا کہ کسی کاخون ہوگیا ہے ۔ تبھی تو یہ سب خاموش بیٹھے تھے ۔ جی ہاں ، ایک ایسی بچی کا انتقال ہو گیا تھا ، جس نے اپنی عمر کی پہلی بہار بھی نہیں دیکھی تھی ۔ بچے تو روز ہی مرتے ہیں، مگر یہ دس ماہ کی بچی جس وجہ سے مری تھی ، اس وجہ نے بابا کو سخت ملول کر دیا تھا ۔ بابا کا اداسی بتا رہی تھی کہ اس واقعے نے انھیں غم زدہ کر دیا ہے۔
کافی دیر کی پر اسرار خاموشی کے بعد بابا گویا ہوئے ،”جانتے ہو ، جنگل کو جنگل کیوں کہا جا تا ہے ؟”بابا نے سوال کیا تو سب مریدین سوچنے لگے۔ لیکن کسی سے جواب نہیں بن پڑا ۔ قدرے توقف کے بعد بابا پھر بولے،” جنگل کو جنگل اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہاں انصاف نہیں ہوتا ۔ وہاں ہر ایک کے لیے الگ الگ معیار ِ زندگی ہوتا ہے ۔ ‘جس کی لاٹھی ، اس کی بھینس ‘ کا دور دورہ ہوتا ہے ۔ وہاں طاقت ور کے لیے الگ قانون ہوتا ہے ، کمزور کے لیے الگ قانون ہوتا ہے ۔ اس لیے اس کو جنگل کہتے ہیں ۔یاد رکھیے ، جب یہی سب کچھ انسانوں کی بستیوں ، شہروں اور محلوں میں ہو تو وہ بھی جنگل بن جاتے ہیں ۔ اگر ان جنگلوں کو انسانوں کی بستیاں بنانا ہے تو ایک ہی حل ہے ۔ وہ یہ ہے کہ انصاف کا بول بالا کیا جائے ۔ انصاف میں ایسی طاقت ہے کہ یہ جنگل کو شہر بنا دیتا ہے ۔ بے سکونی کو سکون میں تبدیل کر دیتا ہے۔
انصاف امن و سکون کا ضامن ہے۔ انصاف آشتی کی علامت ہے ۔ جب کہ نا انصافی ظلم ہے اور جہاں ظلم ہو ، وہاں امن و سکون بھلا کیسے قائم ہو سکتا ہے ؟ “بابا یہ کہہ کر خاموش ہوگئے ۔ قدرے توقف کے بعد ایک شخص گویا ہو ا، “یہ دس ماہ کی بچی تھی ۔ اس طرح کے بچے روزانہ مرتے ہیں ، مگر اس بچی پر اس قدر افسوس کیوں؟”بابا اس سوال پر مسکرانے لگے ۔ پھر بولے: ” بات یہ ہے کہ اس بچی کی موت نے ہمارے ملک میں پھیلے دوہرے معیار کا پول کھول کے رکھ دیا ہے ۔ اس بچی کی موت میں ایک سبق ہے ۔ سبق یہ ہے کہ ہمیں بہت کچھ تبدیل کرنا ہوگا ۔ یہ دوہرا معیار ختم کرنا ہوگا ۔ افسوس اس بات کا نہیں کہ ایک دس ماہ کی بچی کی موت واقع ہوگئی ہے ۔ یہ تو ہونا ہی تھا ۔ کیوں کہ ہر جاندار کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔ مگر اس بچی کی موت جس طریقے سے ہوئی ہے ، اس طریقے نے سب کو سوگ وار کر دیا ہے ۔ اس لیے سب جذباتی ہو رہے ہیں ۔ اس لیے سب پر غم اور غصہ چھایا ہوا ہے ۔”بابا خاموش ہوئے تو ایک اور سوال داغا گیا، “ہو سکتا ہے ، یہ میڈیا کی شرارت ہو ؟ ہو سکتا ہے ، اس واقعے کو اچھال کر ایک مخصوص سیاسی جماعت کی ساکھ کو متاثر کرنا ہو ؟” بابا نے اس سوال پر ایک زور دار قہقہہ لگا کر کہا ،” چلو مان لیا کہ یہ میڈیا کی شرارت ہے۔
اس واقعے کو اچھال کر انھوں نے ایک سیاسی جماعت کی ساکھ کو متاثر کیا ہے ۔ لیکن کیا اس میں کوئی شک ہے ہمارے ملک میں دو الگ الگ معیار ہائے زندگی ہیں ۔ یہاں غریبوں کا کوئی پرسان ِ حال نہیں ۔ جب کہ امیر سونے کے چمچ سے کھانا کھاتے ہیں ۔ مانا کہ یہ تفاوت اور فرق قدرتی امر ہے ۔ کوئی غریب ہوتا ہے تو کوئی امیر ۔ لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک باپ اپنی دس ماہ کی بیمار اور لاچار بچی کو گود میں لیے مارا مارا پھر رہا ہے ۔ اسے ہسپتال پہنچنے کے لیے سڑک نہیں مل رہی ۔ دوسری طرف سڑکیں بلاک ہیں ۔ ہسپتال میں تقریب ہو رہی ہے ۔ اس طرح تو نہیں ہونا چاہیے ناں! ہو سکتا ہے کہ اس واقعے کی اس قدر زیادہ تشہیر کے پیچھے میڈیا کے زبردست مفادات کار فرما ہوں ۔ لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ یہاں غریب کا کوئی پرسان ِ حال نہیں ہے ۔ کوئی جا کر اس باپ سے پوچھے ، جس کی گود میں اس کی دس ماہ کی بچی نے جان دے دی ہے۔
باپ کی اس وقت کیا حالت ہوگی ، جب اس کی ننھی منی بچی اس کی گود میں پڑی زندگی کی آخری سانسیں لے رہی ہوگی۔ اس بچی کی ماں کیا حال ہوا ہوگا؟” بابا ایک بار پھر خاموش ہونے کے ساتھ ساتھ اداس بھی ہوگئے۔پھر وہی پر اسرار خاموشی اور سکوت ۔ مگر یہ خاموشی زیادہ دیر تک قائم نہ رہی ۔ ایک مرید کے سوال نے مہر ِ سکوت توڑ دیا، ” اب کیا ہوگا؟”بابا اس سوال پر گہری سوچ میں پڑ گئے ۔پھر بولے ،” غیب کا علم رب تعالیٰ کے پاس ہے ۔ البتہ میری دانست میں یہ کام ضرور ہوں گے ۔ سب سے پہلے اعلیٰ عہدے داران کی طرف سے اس واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا جائے گا ۔ یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے ۔ پھر بچی کے والد کو سرکاری ملازمت دینے کا اعلان کیا جائے گا ۔ یہ بھی حسب ِ معمول امر ہے ۔ اس طرح تو ہر واقعے کے بعد ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتیں اس واقعے کو خوب اچھا لیں گی ۔ یہ بھی معمول کی بات ہے ۔ ہمارے ملک میں اس طرح کے واقعات کے بعد کم از کم یہ تین کام ضرور ہوتے ہیں ۔ “بابا کےخاموش ہونے کے بعد ایک بار پھر سوال کیا گیا، ” کیا بچی کے والد صاحب سرکاری نوکری لے لیں گے ؟”بابا نے سوچ کر کہا ، ” مجھے نہیں لگتا کہ وہ والد ، جس کے بازوؤں میں اس کی دس ماہ کی بچی نے دم توڑا ہو ، سرکاری نوکری بہ خوشی قبول کر لے گا ۔ وہ ایسا نہیں کرے گا ۔ باقی اللہ سائیں خوب جانتا ہے۔
تحریر : نعیم الرحمان شائق