تحریر: رانااعجاز حسین
موسم گرما جوبن پر ہے، شدید ترین گرمی تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ حکومت کو ان دنوں شدید گرمی اور ماہ رمضان کے مبارک مہینے کا احترام کرتے ہوئے لوڈ شیڈنگ میں خاطر خواہ کمی لانا چاہئے تھی ۔ مگر رمضان المبارک کے احترام میں لوڈ شیڈنگ میں کمی صرف اعلان تک محدود رہی ۔ جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ موسم گرما میں شدت کے ساتھ ہی بدترین لوڈ شیڈنگ نے عوام کا جینا دوبھر کررکھا ہے ۔ بجلی کے شارٹ فال میں اضافہ کے باعث شہروں میں9 سے 16گھنٹے اور دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں میں 14 سے 20 گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے ، جبکہ بجلی کی بار بار ٹرپنگ اس کے علاوہ ہے ۔ مرمت کے نام پربھی 6سے 8 گھٹنے تک بجلی کی بندش کا سلسلہ معمول ہے۔شدید لوڈشیڈنگ سے روزہ داروں ،معصوم بچوں اور بزرگ شہریوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اس کے علاوہ کاروباری اور گھریلو سرگرمیاں بھی متاثر ہورہی ہیں۔ ایسے میں جب ماہ صیام کے مبارک ایام میں گرمی کی شدت اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہو اس وقت میں بجلی کی بندش سے عوام پاکستان کی تکلیف اور مشکلات کا باآسانی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ باقی کے رمضان اور پھر جولائی کی شدید گرمی اور لو چلنے کے دنوں میں لوگوں کا جو حال ممکنہ طور پر ہو سکتا ہے’ اس پر عوامی ردعمل کا حکومت کو ابھی سے تدارک کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لوڈ شیڈنگ کے باعث شہر شہر عوامی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنے دور اقتدار کے تین سال گزارنے کے باوجود بھی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے میں ناکام رہی ہے، جبکہ مسلم لیگ (ن)نے اپنی انتخابی مہم میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کو اپنا مرکزی نکتہ بنایا تھا، وزیراعظم نوازشریف اپنے جلسوں میں عوام سے ہاتھ اٹھوا کر پوچھتے کہ کتنے گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے’ جواب میں لوگ 18, 18 گھنٹے پکارنے لگتے۔ آج بھی 18 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ میاں نوازشریف پھر پوچھتے کہ کیا آپ لوگ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں’ جواب میں لوگ ہاں ہاں کی گردان شروع کردیتے اور میاں صاحب انہیں لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات کا یقین دلاتے جس پر جلسے کے شرکاء کے چہرے خوشی سے تمتمانے لگتے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کا جلسوں میں اعلان کرتے۔ باقی قائدین بھی عوام کی دکھتی رگ ”لوڈشیڈنگ” ہی کو چھیڑتے۔ میاں نوازشریف عوام کو یہ بھی یقین دلاتے کہ انکے پاس اہل اور قابل لوگوں کی ٹیم موجود ہے’ تمام مسائل اقتدار میں آتے ہی حل کرنا شروع کر دینگے اور قوم جلد ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو جائیگی۔ مصائب و مشکلات میں گھرے عوام نے مسلم لیگ (ن) کے قائدین کے دعوئوں’ وعدوں اور اعلانات پر اعتبار کیا۔
اس پارٹی سے اپنے مسائل کے حل کی امیدیں وابستہ کیں اور مئی 2013ء کے انتخابات میں اس کا دامن ووٹوں سے بھر دیا۔ مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آئی’ یہ اپنے اقتدار کے تین سال کا عرصہ گزار چکی ہے بجلی کی لوڈشیڈنگ اپنی جگہ موجود ہے’ جس میں مزید اضافے کا خدشہ بھی منڈلا رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے اپنے دوسالہ دور اقتدار کے دوران بجلی کی قلت پر قابو پانے کے کئی خواب قوم کو دکھائے گئے۔ کئی پراجیکٹس کا آغاز ہوا’ مگر اب تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں خاطر خواہ کمی واقع نہ ہوسکی۔ نندی پور پراجیکٹ آدھا ہی مکمل ہوا تھا کہ اس کا زور و شور اور شان و شوکت سے افتتاح کردیا گیا۔ کہا گیا کہ اس سے 95 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی’ اس منصوبے کا نالائق انجینئرز نے بیڑا غرق کردیا،اب یہ بند پڑا ہے اور حکومت نے ملائیشیاء کو ٹھیکے پر دے کر اس سے اپنی جان چھڑالی ہے ۔ اب وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کہتے ہیں سال2018 ء میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کہتے ہیں کہ 2018ء الیکشن کا سال ہے’ اس سے قبل لوڈشیڈنگ ختم ہو جائیگی۔ چھ ماہ اب انہوں نے پانچ سال پر محیط کر دیئے ہیں۔
منصوبوں کے افتتاح کی خبر قوم کیلئے کبھی بڑی خوش کن ہوا کرتی تھی۔ اب اس میں عوام کی دلچسپی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ اب منصوبوں کے افتتاح سے اگے کی بات کی جائے، اور بتایا جائے کہ ان کو اپنے کاروبار اور گھروں کیلئے بجلی ضرورت کے مطابق کب دستیاب ہو گی۔ جہاں بجلی کا شارٹ فال آٹھ سے نو ہزار میگاواٹ ہو’ وہاں ایک سو میگاواٹ سے کتنے کارخانے’ ٹیوب ویل اور دیگر کاروبار چلنے میں مدد ملے گی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے یہ خوشخبری بھی سنائی تھی کہ وفاقی اور پنجاب حکومت نے مل کر صوبے میںگیس سے 3600میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبے لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کا ہر قدم توانائی بحران کے خاتمے کیلئے اٹھ رہا ہے اور2018 ء تک توانائی کے متعدد منصوبے بجلی پیدا کر رہے ہونگے۔ پنجاب اور مرکزی حکومت عوام کوان نئے منصوبوں سے 3600 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے حسین سپنے دکھا کر خوش کرنے کی کوشش کررہے ہیں، مگر اب عوام محض طفل تسلی سے خوش ہونے والے نہیں۔
بلاشبہ، انرجی سیکٹر کو جن مسائل کا سامنا ہے وہ وسیع اور گہرے ہیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انتخابات جیتنے اورحکومت بنانے کے فوری بعد جو دعوے کیے گئے اور ان سے جتنی توقع تھی، حکومت نے اس سے کہیں کم اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ گرمی کی شدت میں کو مدنظر رکھتے ہوئے بجلی کی کمی کو پوراکرنے کی طرف توجہ دے تا کہ عوام سکھ کا سانس لے سکیں جبکہ بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لئے مذید نئے ڈیمز کی تعمیر کی اشد ضرورت ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ گزشتہ دور حکومت میں مسترد کیے گئے ملکی مفاد میں نہایت سود مند منصوبے” کالاباغ ڈیم” کو جلد از جلد فعال کرکے اس پر کام شروع کیا جائے۔ ماہ رمضان میںبجلی کی لوڈشیڈنگ کے دورانیہ میں کمی کی جائے اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی ٹرپنگ کا مکمل خاتمہ یقینی بنایا جائے اور برادر دوست ملک چین کے تعاون سے جاری توانائی منصوبوں کو بروقت مکمل کیا جائے تاکہ عوام پاکستان کو جلد از جلد لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے نجات میسر آسکے۔
تحریر: رانااعجاز حسین