برما کے روہنگیا مسلمانوں پر گزشتہ دنوں سے جو قیامت ٹوٹی ہے، اس کی تفصیلات سوشل میڈیا کے علاوہ اقوام متحدہ، ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور حقوق انسانی کی دیگر تنظیموں نے جاری کردی ہیں اور حکومت برما سے انسانی حقوق کی پامالی پر سخت احتجاج کیا جارہا ہے۔ برما میں جو کچھ ہورہا ہے اس پر جس قدر صدمے کا اظہار کیا جائے وہ کم ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ جب کسی ملک کے عسکری اداروں کے منہ کو خون لگ جائے تو اس کا ذائقہ ان کو نہیں بھولتا۔ برما کے جرنیل گزشتہ 70 برس سے اپنے ہم مذہب بدھسٹوں کا جس طرح قتل عام کرتے رہے ، وہ ناقابل یقین اور ناقابل بیان ہے۔ اب ہوا یہ ہے کہ جمہوریت کے لیے ایک لمبی لڑائی کے بعد برما کی فوجی اشرافیہ کو کسی حد تک پسپا ہونا پڑا ہے اور وہ بدھسٹ اکثریت کے خون بہانے کے آسان مواقعے سے محروم ہوگئی ہے۔
یہی وجہ ہے اب اس نے اپنی توپوں کا رخ روہنگیا مسلمانوں کی طرف موڑ دیا ہے۔ کیوں موڑ دیا ہے؟ اس لیے کہ آمریت پسند اور غیر جمہوری قوتوں کو جمہوریت سے ڈر لگتا ہے۔ انھیں عوام پر مسلط رہنے کے لیے ایک خیالی دشمن کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج وہ روہنگیاؤں کو دشمن بنا کر پیش کررہے ہیں۔ نفرت کو اتنا پھیلا دیا گیا ہے کہ اس سے برما کے عوام تقسیم ہورہے ہیں۔
آج روہنگیاؤں کے ساتھ ہونے والے بد ترین سلوک اور ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے دنیا بھر سے ان کے لیے آواز بلند ہورہی ہے۔ آن سانگ سوکی میری محبوب سیاسی رہنما رہی ہیں۔ اپنے لوگوں کے جمہوری حقوق کے لیے ان کی قربانیاں بے مثال ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ اگر آپ بلندیوں پر فائز ہوجائیں یا کردیے جائیں تو اس مقام کو برقرار رکھنے کے لیے آپ کو ایک واضح نقطۂ نظر رکھنا پڑتا ہے۔
سوکی آج اس مقام کو برقرار نہیں رکھ سکی ہیں تب ہی بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو نے ان کے نام کھلا خط لکھا ہے اور دنیا کے ہر کونے سے یہ آواز اٹھ رہی ہے کہ آن سانگ سوکی نوبیل امن انعام کی حقدار نہیں یہ انعام فوراً ان سے واپس لے لیا جائے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان نے 2012 میں آصفہ بھٹو نے آنگ سان سوکی کو جو بے نظیر بھٹو ایوارڈ برائے جمہوریت پہنایا تھا، اسے واپس لینے کا اعلان کردیا جائے۔ مشکل یہ ہے کہ کوئی بھی ایوارڈ دیے جانے کے بعد واپس نہیں لیا جاتا۔
روہنگیاؤں کے حق میں جس قدر بلند آوازیں اٹھیں وہ ان کا حق ہے لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ:بدھسٹ برمی نوجوان آج بھی اپنے ملک کو دنیا کا سب سے بڑا قید خانہ اور عقوبت خانہ کہتے ہیں جہاں پانچ کروڑ دس لاکھ کی تمام آبادی قیدیوں کی زندگی گزار رہی ہے اور جہاں سے ہر شخص بھاگ جانا چاہتا ہے۔ لیکن کسی کو بھی راہ فرار اور جائے پناہ نہیں ملتی۔
2007ء میں جمہوریت کی بحالی اور اسیروں کی رہائی کے لیے بدھ بھکشو اپنا زعفرانی لبادہ سنبھالتے ہوئے پگوڈوں سے نکلے تو لاکھوں لوگ ان کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئے۔ فوج نے اپنے ہی لوگوں کو اس سفاکی سے شکار کیا کہ رنگون‘مانڈلے اور دوسرے شہروں کی سڑکوں پر خون کے قالین بچھے‘ سیکڑوں لاشوںکو بلڈوزروں سے خندقوں میں دھکیل دیا گیا پھر خندقیں پاٹ دی گئیں۔ ساری دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے لیکن برما کی سرکار نے یہی ظاہر کیا کہ اسے کچھ خبر نہیں اور وہ چین کی نیند سوتی رہی۔
یہاں یہ اہم حقیقت یاد رکھنے کی ہے کہ روہنگیا جس علاقے میں رہتے آئے ہیں وہ علاقہ قیمتی دھاتوں، لکڑی ، زرعی پیداوار اور تازہ پانی کے ذخائر سے مالا مال ہے، کولمبیا یونیورسٹی میں سوشیو لوجی کی پروفیسر ساسکیا ساسن جن کا تعلق ہالینڈ سے ہے اور اب امریکا میں رہتی ہیں اور وہیں پڑھاتی اور لکچر دیتی ہیں، انھوں نے دنیا کے ان علاقوں کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے جہاں معدنی ذخائر بہت بھاری مقدار میں پائے جاتے ہیں ان علاقوں میں عموماً غریب غربا رہتے ہیں۔ ان ملکوں کے بااثر اور دولت مند طبقات کسی نہ کسی بہانے ان لوگوں کو وہاں سے باہر دھکیلتے رہتے ہیں اور اس کے لیے مختلف بہانے تراشتے ہیں۔ ان کی کتابوں کو دنیا کے دانشور حلقوں میں اہمیت حامل ہے۔
عالمی سطح پر انسانوں کی نقل مکانی ان کا خاص موضوع ہے۔ برما کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ برمی فوج روہنگیاؤں کے ساتھ ہونے والے ظلم کو مذہبی اور نسلی پردے میں چھپا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے بے پناہ مفادات اس علاقے سے وابستہ ہیں جہاں روہنگیا اب سے نہیں سالہا سال سے رہتے ہیں۔ ہمارے یہاں عمومی طور سے اس بات پر غور نہیں کیا جارہا کہ برما کی فوج کو اچانک روہنگیاؤں کی نسلی صفائی کا خیال کیوں آیا؟ ان کا کہنا ہے کہ غریب روہنگیاؤں سے ان کی زمینیں اونے پونے خرید نے کا معاملہ جتنی تیز رفتاری سے بڑھا، اس کو قانونی تحفظ دینے کے لیے برما کی فوجی جُنتا نے 2012 میں ملکی قوانین تبدیل کیے۔
2012 میں حکومت نے روہنگیا علاقے کی 17 ہزار ایکڑ زمین پر قبضہ کیا تھا لیکن جب 2012 میں فوج اور پولیس کے اہل کاروں پر دہشت گرد حملے ہوئے تو طے کیا گیا کہ برما کی اس اقلیت کو اس کی نہایت قیمتی زمینوں سے محروم کرنے کے لیے اسے مذہبی اور نسلی رنگ دیا جائے۔ اس طرح وحشت اور بربریت کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو اس وقت بھی جاری ہے۔ اس برمی اقلیت کو اپنے گھروں اور اپنی زمینوں سے محروم کرکے 31 لاکھ ایکڑ اراضی فوج نے اپنے من پسند بڑے کاروباری اداروں کے سپرد کردی ہے۔
یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ ایک طرف فوج مذہبی نفرت کی آڑ میں بیش قیمت زمینوں پر قبضہ کررہی ہے، دوسری طرف خطے میں پھیلتے ہوئے مذہبی انتہا پسندوں نے روہنگیاؤں کی حالت زار سے فائدہ اٹھایا ہے اور انھیں اپنے حلقۂ اثر میں لینے میں ان عسکریت پسندوں کو زیادہ دشواری نہیں ہورہی ۔ تیسری طرف برما کا وہ نیا قانون ہے جس کے تحت وہاں 100 فیصد غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت مل گئی ہے۔ ان خالی زمینوں کو اپنی تحویل میں لینے والے غیر ملکی سرمایہ داروں کو 70 سال کی لیز کی سہولیت بھی دے دی گئی ہے۔
اس وقت صورت حال کچھ ایسی ہوگئی ہے کہ برما کی فوج کو مذہبی اور نسلی بنیادوں پر روہنگیاؤں کے قتل، ان کے گھروں اور دکانوں کو نذر آتش کرنے کے واقعات پر مسلمان ملکوں اور عالمی برادری کا احتجاج سستا سودا محسوس ہو رہا ہے۔ مذہبی منافرت کی آڑ میں اگر زمینوں اور بے پناہ قدرتی وسائل پر قبضہ ہوتا رہے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ اس پر سے ستم یہ ہوا ہے کہ لولی لنگڑی جمہوریت بحال کرکے آن سانگ سوکی کو برما کے جمہوری چہرے کے طور پر دکھا یا جارہا ہے۔
سوکی جن پر دنیا کے تمام جمہوریت دوست اور آزادی پسند افراد اور گروہ ناز کرتے تھے، وہ ادھورے اختیارات کے ساتھ ایک غیر مؤثر حکمران کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ اس بات نے ان کی شہرت اور ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اسی بناء پر میں نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ چند برس پہلے تک وہ ماہِ کامل تھیں لیکن اب اس چاند کو گہن لگ گیا ہے اور یہ گہن مجھ ایسے لوگوں کے لیے ذاتی صدمے کا سبب ہے جنہوں نے ان کی جمہوری اور حقوق انسانی کی دہائیوں پر پھیلی ہوئی جدوجہد کی تعظیم و تکریم کی تھی۔ جمہوری جدوجہد کرنے والے رہنماؤں کو غاصب حکمرانوں سے مکمل اقتدار لینا چاہیے، ورنہ اسے مسترد کردینا چاہیے۔ آج سوکی اسی بحران میں گرفتار ہیں۔
نیو یارک ٹائمز کا یہ کارٹون تو ان کی نظر سے بھی گزرا ہوگا جس میں ان کے گلے میں امن کا نوبیل انعام ہے اور الفرڈ نوبیل اس تمغے اور سوکی، کو بہت طیش سے دیکھ رہا ہے۔