تحریر: واٹسن سلیم گل
یوں تو ہمیں اچھی بری خبریں سننے کی عادت ہو گئ ہے۔ مگر آج کل قصور زیادتی اسکینڈل کے حوالے سے جو خبریں ہمارے معاشرے میں گردش کر رہی ہیں وہ دیکھ کر سر شرم سے جھک گیا ہے جب میں اپنے معاشرے کی بات کرتا ہوں تو اس سے مراد ہمارا قلئ معاشرہ ہے۔ جس میں کوئ تفریق نہی ہے ۔ مسلمان۔ مسیحی، ہندو، پنجابی، پٹھان، بلوچی، مہاجر، سندھی، امیر ، غریب، خواندہ، غیر خواندہ ، مزہبی طبقہ یا دہریہ سب ہی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ اور اخلاقی اقدار کی پستی کا عنصر ان تمام گروپوں میں کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ یونہہ تو شراب، جنس کی بھوک، نفرت، بے راہ روی اور شر دنیا کے تمام ممالک میں موجود ہے۔
مگر ہم پاکستانی ہیں اور اپنے معاشرے پر نظر رکھتے ہوئے اس میں اچھائ پر فخر کرتے ہیں تو برائیوں پر شرمندہ بھی ہیں اور ان برائیوں پر قابوں پانے کے لئے سوچ بچار کرنا بھی ہمارا ہی فرض ہے کوئ باہر سے آکر ہماری اصلاح نہی کرے گا۔ قصور کا واقعہ تو سامنے آ گیا ہے مگر جانے ایسے کتنے واقعات ہیں جن پر پردہ پڑا ہے۔ میں اپنے آپ کو پاکستانی سمجھتا ہوں اور اس پر فخر کرتا ہوں۔ ہمارا ملک ایک بڑا ملک ہے۔ ایٹمی طاقت ہے۔ ہم دنیا کے بہت سے ممالک سے کہیں بہتر ہیں۔ تو ہمیں اپنے آپ کو بہتر ثابت بھی کرنا ہے۔ مگر میں نے گزشتہ اتوار کو اتفاق سے دنیا کہ ایک بہت ہی چھوٹے ملک سے اپنے ملک اور اقدار کا موازنہ کیا تو مججھے مایوسی ہوئ۔
میں اتوار کو ایمسٹرڈیم میں ایک میلہ سمر فیسٹیول ” کواکو” میں شریک تھا۔ اس میلے کا اہتمام سورینام کے لوگوں نے کیا تھا۔ میں ہالینڈ میں آنے سے پہلے نہی جانتا تھا کہ دنیا میں سوری نام بھی کوئ ملک ہے۔ یہ جنوبی امریکہ کا ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جو ڈچ کالونی ہے۔ ہالینڈ میں مقامی گوروں کی آبادی کے بعد سب سے بڑی کمیونٹی سوری نام کے لوگوں کی ہے۔ سوری نامیوں میں افریقہ کے سیاہ فام پہلے نمبر پر اور پھر انڈیا کے وہ مہاجر جن کو ڈچ حکومت مزدور بنا کر لائ اور پھر 1875 میں ان کو سوری نام کے جزیرے پر آباد کر نے کا پروانہ دے دیا۔ آج ان ہنوستانی سوری نامی تارکین وطن کی بہت بڑی تعداد ہالینڈ میں رہتی ہے اور یہ کمیونٹی ہر سال ایک سمر فیسٹیول کا اہتمام کرتی ہے۔” کواکو” جو چار ویک اینڈ تک رہتا ہے۔ مجھے اس سال دو بار اس میلے میں جانے کا موقع ملا۔ ، میں آخری دن اتوار 9 اگست کو بھی اس میلے میں موجود تھا۔ لگھ بھگ کوئ تیس سے چالیس ہزار لوگ اس وقت اس میلے میں موجود تھے۔
ان میں سیاہ فام، ہندوستانی سوری نامی، اور مقامی گوروں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ میں میلے میں گھوم رہا تھا ۔ ااتنی بڑی تعداد میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ چپکے ہوئے تھے گرمی بھی بہت تھی۔ اسی گرمی کی مناسبت سے سوری نامی اور مقامی گوریاں مختصر کپڑوں میں اس میلے کی جان تھیں۔ وہیں نوجوان منچلے بئیر اور شراب کے نشے میں دھت میلے میں ناچ رہے تھے۔ اس منظر کو دیکھ کر مجھے پاکستان میں اپنے کرسمس کے میلے یاد آ گئے۔ کہ ہماری لڑکیاں حیا اور شرم کے لباس اوڑھے ہوئے ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود بھی کوئ منچلہ ان سے دست درازی سے باز نہی آتا اور ہر سال میلے میں کسی نہ کسی وجہ سے جھگڑہ ہو جاتا تھا۔ جبکہ میلے بھی چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ چاند رات کو ہزاروں منچلے بوری بازار صدر میں اور طارق روڈ پر صرف اس لئے آتے تھے کہ کسی خاتون کو صرف کہیں سے چھو لیں۔ اور اس لمس کے قصے دوسرے دن اپنے دوستوں کو سناتے نظر آتے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ بسوں میں سوار چھوٹی عمر کے لڑکے کسی نہ کسی انکل کی ہوس زدہ حرکت پر اپنی جگہ تبدیل کرتے نظر آتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ہماری بسوں اور ویگنوں میں عورتوں کے کمپارٹمنٹ علیحدہ ہونے کے باجود بھی کوئ نہ کوئ ہوا کی بیٹی زلیل ہوتی تھی ۔ اور تو اور ہم امیر اور غریب کے فیشن بھی الگ ہوتے تھے۔ اور ایک دوسرے کا مزاق عام سے بات تھی۔ ہمارے معاشرے میں فیشن بھی قید ہے۔ اگر دھوتی شلوار کا فیشن ہے تو سب اسی لباس میں ملبوس ہوں گے۔ صرف رنگ اور ڈیزائن مختلف ہونگے۔ اسی طرح مردانہ فیشن ہے۔ مگر ” کواکو” میلے میں مجھے قطئ طور پر نہی لگا کہ یہ کوئ ایک کمیونٹی ہے۔ فرق لباس فرق فیشن ، جہاں خوبصورت لڑکیاں اپنے جسم کے نشیب و فراز کی دکان لگائے مختصر سے کپڑوں میں بے نیاز گھوم رہیں تھیں۔ میں نے نہی دیکھا کہ شراب کے نشے میں دھت کسی نوجوان نے کسی خاتون کے ساتھ کوئ بد تمیزی کی ہو۔ ہاں میں نے دیکھا کہ تنہا منچلے جال لئے گھوم رہئے تھے۔
وہ رقص کے لئے کسی خاتون کو پوچھتے تھے۔ انکار کرنے پر مسکرا کے آگے بڑھ جاتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ وہاں بھی معزور لوگوں کے لئے بیت الخلا موجود تھے۔ اور کوئ ویل چئیر پر اور کوئ بیساکھیوں پر میلے کا مزا لے رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ جہاں خوبصورت جسم تھے تو وہاں بے ڈول اور فربہ خواتین بھی اپنی بڑی سی توند کے ساتھ بے نیاز گھوم رہیں تھیں وہاں ایسے بھی تھے کہ سوٹ کے نیچے جوگر پہن کر گھوم رہے تھے۔ بزرگ بھی کسی کی پرواہ کئے بغیر کھا پی رہے تھے۔ کوئ کسی کو نوٹس نہی کر رہا تھا۔
کسی کے پاس اتنا وقت نہی تھا کہ وہ اپنا قیمتی وقت کسی دوسرے پر تنقیدی نظر ڈال کر برباد کرے۔ کسی کے پاس اتنا وقت نہی تھا کہ وہ یہ دیکھتا پھرے کہ کس نے کیا پہنا ہے اور کون شراب پی رہا ہے۔ اور کونسی خاتون مختصر لباس میں بے شرم اور بے حیا دکھائ دے رہی ہے اگر کسی کا پاس ان سب چیزوں کو نوٹ کرنے کا وقت تھا۔ یا وہ بجائے انجوائے کرنے کے ان خرافات میں اپنا وقت برباد کر رہا تھا تو وہ میں تھا۔ میں کیوں تھا؟؟ یا میں ہی کیوں تھا؟؟؟ اس کا کیا جواب ہو سکتا ہے۔ میں نے خود کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ میں بھی تو اپنے معاشرے سے جڑا ہوا ہوں۔
تحریر: واٹسن سلیم گل