نوائے وقت میں ہماری کولیگ اور معروف خاتون صحافی فرزانہ چودھری نے گنگا رام ہسپتال لاہور کے ایم ایس ڈاکٹر سید نعمان مطلوب سے گفتگو کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہاں 22 کنال خالی زمین پر کئی وارڈز اور نئی عمارت بنائی جا سکتی ہے۔ اس سے پہلے کسی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو اس طرح کی بات کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔
لاہور میٹرو بس بن گئی ہے اور اورنج ٹرین بنائی جا رہی ہے۔ میں اس کا معترف ہوں مگر صحت اور تعلیم بھی بنیادی مسائل ہیں اور جب وسائل موجود ہیں تو یہ ترقی بھی ہونا چاہیے۔ نواز شریف ترقی کی باتیں کرتے ہیں اور ملتان میں بھی میٹرو بس کے افتتاح کے موقع پر کہا کہ نیا پاکستان بنانے والے کہاں ہیں؟ نیا پاکستان دیکھنا ہے تو ملتان میں آ جائیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ملتان میں میٹرو بس جنوبی پنجاب کی ترقی میں سنگ میل ہے۔
تو میری گذارش ہے کہ میانوالی جانے کے لیے بھی کوئی اچھی سڑک ہونا چاہیے۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے۔ میانوالی شہر کی طرف جانے والی ایک ہی کچھ بہتر سڑک ہے۔ وہ بھی چونکہ ضلع کچہری کے دفاتر اور افسران کی سرکاری عالیشاں عمارتوں کے درمیان میں سے گزرتی ہے۔ برسوں گزر گئے کہ شہر کی طرف جانے کے لیے کوئی اور اچھی سڑک نہیں بنائی جا سکی۔
میرے خیال میں جس طرف ایم ایس گنگا رام نے توجہ دلائی ہے اسے سنجیدگی سے لیا جائے اور گنگا رام ہسپتال کو کچھ تو ’’مشرف بہ اسلام‘‘ کیا جائے۔ کاش اس طرح صدر جنرل مشرف بھی توجہ کرتا ورنہ جس شخص کو تیسری بار عوام نے وزیراعظم بنایا ہے نواز شریف ہی کچھ توجہ کریں۔ دونوں بھائی مل کر یہ کارنامہ انجام دیں۔
گنگا رام میں اس توسیع کے علاوہ کم از کم دو تین ہسپتال مزید لاہور میں بنائے جائیں ۔ پہلے سے موجود ہسپتالوں کو بہتر بنایا جائے تاکہ خلق خدا کو آسودگی ملے۔ ورنہ یہ خبریں تو کئی بار شائع ہو چکی ہیں کہ ہسپتال میں ایک ایک بستر پر دو دو مریض لٹائے گئے ہیں۔ مجھ سے کئی آدمی اب ہسپتال میںمناسب دیکھ بھال کے علاوہ یہ بھی فرمائش کرتے ہیں کہ ہمارے مریض کے بستر سے دوسرے مریض کو ہٹایا جائے تو میں ان سے کہتا ہوں کہ دوسرے مریض کو زمین پر لٹا دیا جائے۔ میں یہ بات ایم ایس کو نہیں کہہ سکتا۔
زمین پر لیٹی ہوئی ایک مریضہ کی موت واقع ہو گئی تھی تو اس کے لیے شہباز شریف نے سخت ایکشن لیا۔ ہم ان کے شکر گزار ہیں مگر وہ میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے بعد صحت کے مسائل کی طرف بھی توجہ دیں۔ ہم ان کے مزید شکر گزار ہوں گے۔ وقت آنے والا ہے کہ عوام میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے لئے تعریف کریں گے۔ میٹرو بس کے علاوہ دیگر ٹرانسپورٹ اور گاڑیوں کو بھی اس روٹ پر چلنے کی اجازت دی جائے۔ میٹرو بس کے باوجود ٹریفک بلاک ہونے کے واقعات کم نہیں ہوئے۔ اگر رش ختم نہیں ہوتا تو پھر ان منصوبوں کا کیا فائدہ ہے۔ ان کا فائدہ ہے مگر فائدے کے لیے منصوبہ بندی کو ٹھیک ہونا چاہیے۔ یہ تو ہے کہ میٹرو بس میں کبھی شہباز شریف نے سفر نہیں کیا۔ اس طرح ٹھوکر نیاز بیگ اور شاہدرے والوں کو بڑا فائدہ ہوا ہے۔ یا وہ جو اس راستے میں آتے ہیں۔ مگر سنا ہے کہ کرایہ ایک سٹاپ سے دوسرے سٹاپ تک اور ٹھوکر نیاز بیگ سے شاہدرہ تک ایک جتنا ہے۔
دوسری طرف کراچی میں بھی شوکت خانم کینسر ہسپتال کا افتتاح عمران خان نے کر دیا ہے۔ اس کے بعد وہ کوئٹہ میں بھی افتتاح کریں گے مگر میں نے ابتدا میں بھی لکھا ہے کہ لاہور شوکت خانم کینسر ہسپتال کے بعد ہی میں نے میانوالی میں کینسر ہسپتال کے لیے مطالبہ نہیں کیا تھا۔ وہاں ایک جنرل ہسپتال بنایا جائے۔ میانوالی شوکت خانم جنرل ہسپتال۔ میری ملاقات بہت محترم اور عظیم خاتون شوکت خانم سے ہوئی تھی۔ وہ بہت اچھی اور بہت بڑی عورت تھیں۔ عمران خان ان کی واحد نرینہ اولاد تھے۔ عمران خان کے والد محترم سے بھی میری ملاقات ہوئی تھی۔ محترم اکرام اللہ خان کا تعلق میانوالی کی شیرمان خیل فیملی سے ہے۔ ان کے بڑے بھائی ظفراللہ بہت اعلیٰ شخصیت تھے۔ بہت سادہ آدمی تھے۔ ہم موسیٰ خیل سے اپنے ماموں ڈاکٹر غلام اکبر خان نیازی کی بارات لے کے جناب ظفراللہ خان کے گھر گئے تھے۔ ان کے صاحبزادے حفیظ اللہ خان صحافی حلقوں میں معروف ہیں۔ ایک اخبار میں کالم لکھتے ہیں۔ انعام اللہ نیازی ایم پی اے ہیں وہ بھکر سے اپنے چھوٹے بھائی مرحوم نجیب اللہ خان کی سیٹ پر منتخب ہوئے ہیں۔ بڑے بھائی سعیداللہ خان نیازی بڑے دبنگ اور دلیر آدمی ہیں۔ وہ عمران کے فرسٹ کزن (چچا زاد بھائی) ہیں مگر ان سے کوئی سیاسی تعلق نہیں رکھتے۔
اب عمران ایک قومی لیڈر ہیں۔ جب پورے پاکستان میں تحریک انصاف کے پاس صرف عمران خان کے لیے ایک سیٹ تھی تو وہ سیٹ میانوالی سے ان کے آبائی علاقے سے تھی۔ میانوالی کو بھلانا عمران خان کے لیے ناممکن ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ پورے پاکستانیوں کے لیے نیا پاکستان بنانے کا وعدہ سچ کر دکھائیں مگر میانوالی کا بھی بہت حق ان پر ہے۔ آج تک کسی ممبر اسمبلی اور سیاستدان کو توفیق نہیں ہوئی کہ میانوالی کے لیے کچھ کرے۔ عمران خان اگر یہ نہیں کریں گے تو نقصان اٹھائیں گے۔
مجھے یاد ہے جب وہ اکیلے پاکستان سے جیتے تھے تو ایک خوبصورت جملہ کہا تھا کہ میانوالی میں میرے لیے ہوا چل پڑی ہے۔ اور وہ جیت گئے۔ اب بھی وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں میرے لیے ہوا چل پڑی ہے۔ دیکھیں 2018 کے الیکشن کیا رنگ دکھاتے ہیں۔ بہرحال وہ میانوالی میں ایک چھوٹا موٹا مگر اعلیٰ شوکت خانم جنرل ہسپتال ضرور بنوائیں۔ لوگ حاملہ عورتوں کو کھوتیوں پر لاد کر لاتے ہیں اور وہ راستے ہی میں مر جاتی ہیں اس کے علاوہ بھی چھوٹی موٹی تکلیفوں کے لیے کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ کینسر ہسپتال بنوانے کی ابھی ضرورت میانوالی میں نہیں ہے۔ میانوالی میں ایک عام ہسپتال ضرور ہو جو سب بیماریوں کے لیے ہو۔ وہاں ڈاکٹرز دوائیں اور فوری ٹیسٹوں کا اہتمام ہو۔ یہ عام ہسپتال سارے شوکت خانم ہسپتالوں سے زیادہ معروف ہو گا۔