تحریر: تجمل محمود جنجوعہ
جمعةالوداع کا دن تھا۔ آج سبھی لوگ مساجد کا رخ کر رہے تھے۔ سب بازار مکمل طور پر بند تھے۔ مساجد میں نمازیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ تھا۔ جمعہ کے خطبہ کے دوران زیادہ تر علمائے کرام نے شب قدر کی فضیلت و برکات بیان کیں۔ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات کو رمضان المبارک کی ستائیسویں رات ”شب قدر” ہے۔حافظ محمد یٰسین صاحب نے بھی خطبہ جمعہ میں لیلة القدر کے فیوض و برکات پر روشنی ڈالی اور اس مبارک رات میں قیام کرنے اور ذکر و اذکار کے بارے میں بیان کیا۔ سب سے پہلے سورة قدر کی تلاوت کی اور اس کا ترجمہ بیان کیا۔ ‘ہم نے اس قرآن کو شب قدرمیں نازل کیا اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے۔ شب قدر ایک ہزار راتوں سے بہتر ہے۔ اس دن فرشتے اور روح الامین (جبرئیل علیہ السلام) اپنے رب سے ہر حکیمانہ حکم لے کر نازل ہوتے ہیں، یہ سلامتی والی (رات) فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔”
اس کے بعد انہوں نے چند آیات اور احادیث کی بھی تلاوت کی اور ان کا ترجمعہ سنایا۔ ”بلاشبہ ہم نے اس (کتاب حکیم) کو ایک بڑی ہی بابرکت رات(شب قدر) میں ہی اتارا ہے کہ ہمیں بہرحال خبردار کرنا ہے ۔ جس میں فیصلہ کیا جاتا ہے ہر حکمت والے کام کا۔” (سورہ الدخان) ”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ توالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ۖ نے فرمایا کہ ‘ جس نے لیلة القدر میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے قیام کیااس کے گزشتہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔’ ”
رب کریم بہت بے نیاز ہے۔ جس کو جب چاہے عطا کر دے، جب چاہے اپنی محبت، اپنا قرب، سوچ و فکر کی بیش قیمت دولت سے مالا مال کر دے۔راقم بھی دیگر بہت سے ایسے سامعین کی طرح تھا جو جسمانی طور پر تو مسجد میں بیٹھے خطبہ سن رہے تھے لیکن ان کے اذہان دنیا کے جھمیلوں میں الجھے تھے مگرخطبہ سنتے سنتے میری نظر ایک اٹھارہ بیس سالہ نوجوان پر پڑی جو سر جھکائے زارو قطار رو رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے گویا آنسوئوں کا سیلاب سا امڈ آیا تھا۔ اسے دیکھ میں کچھ پریشان اور متجسس سا ہو گیا کہ جانوں کہ وہ اس وقت کس کیفیت سے گزر رہا ہے۔
میری پریشانی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ نماز مکمل کرنے کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو ایک دفعہ پھر نظر اسی نوجوان پر جا ٹِکی جو اب بھی آنسوئوں سے تر آنکھیں لئے پروردگار سے جانے کیا مانگ رہا تھا۔ دعا کے بعد وہ کچھ دیر بیٹھا رہا اور پھر اٹھ کر جانے لگا تو میں بھی اس کے ساتھ ہو لیا۔ چند قدم ساتھ چلنے کے بعد میں نے اس سے درخواست کی کہ دومنٹ کے لئے میں اس سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں اسے گھر لے آیا اور ڈرائینگ روم میں بٹھا دیا۔ اس کے پاس بیٹھا اور اس سے یوں گویا ہوا بھائی مجھے پوچھنے کا حق تو نہیں مگر میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کو کیا پریشانی ہے ۔ خطبہ کے دوران آپ …….. میں اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ وہ بولا۔ ”آپ نے خطبہ میں سنا کہ امام صاحب شب قدر کے بارے میں کیا بیان کر رہے تھے؟”۔
میں نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔ چند لمحوں کے توقف کے بعد وہ بولا بھائی ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم اللہ سے گلہ کریں کہ وہ ہماری سنتا نہیں۔ ہم طاق راتوں میں کیا تلاش کریں گے بھیا؟ قرب الٰہی۔۔۔؟ لیکن کس منہ سے؟ میں تذبذب کے عالم میں ٹکٹکی باندھے اسے بس دیکھے جا رہا تھااور وہ گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے بولا۔ ”آپ ہی بتائیں کہ آج کل رمضان بازاروں میں کیا صورت حال ہے، جو اشیاء عام مارکیٹ میں فروخت کے قابل نہیں انہیں رمضان بازاروں میں سٹالز پر سجا دیا جاتا ہے، یہاں سارا دن صارفین کے استحصال کے بعد اگر میں ہی سٹال مالک ہوں تو میں رات کو مصلے پر کھڑا ہو کر ساری رات بھی نوافل ادا کرتا رہوں تو کیا کسی ایک غریب سے کئے گئے ظلم کا بھی مداوا کر سکوں گا۔
معافی کا حقدار کیسے ٹھہروں گا جب کوئی غریب مزدور سارا دن روزے کی حالت میں خون پسینہ ایک کرنے کے بعد گھر جاتے ہوئے آدھا کلو پھل لے کر جاتا ہے کہ وہ خود بھی اس سے افطار کرے گا اور اس کے اہل خانہ بھی کھائیں گے مگر جب وہ گھر جا کر پھل کاٹنے کے لئے شاپنگ بیگ کھولتا ہے تو آدھے سے زیادہ پھل ناقص یا گلا سڑا ہوتا ہے۔ بتائیے اس وقت اس کے منہ سے میرے لئے کون سی دعائیں نکلیں گی؟ انتظامیہ کے وہ بددیانت اہلکار اور افسران کس منہ سے قرب الٰہی اور بخشش مانگیں گے جب وہ رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینے میں ان سٹالز مالکان سے بھتہ لے کر ان کو یہ سب کرنے کی اجازت دے رہے ہیں۔”
کعبے کس منہ سے جائو گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
آپ دیکھئیے کہ عام مارکیٹ میں ماہ صیام میں اشیاء خورونوش سمیت تمام ضروریات زندگی کی چیزوں کی قیمتیں کیسے آسمان سے باتیں کرنے لگ جاتی ہیں، ناجائز منافع خور کس طرح اس مقدس مہینہ کو سیزن سمجھ کر لوٹ مار کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ اختیارات کے باوجود کیوں خاموش تماشائی ہوتی ہے کیونکہ انہیں ان کی ”عیدی” بہم پہنچائی جا رہی ہوتی ہے۔ اب آپ ذرا رمضان المبارک کے علاوہ دیکھ لیں، ہمیں کیا چیز خالص دستیاب ہے۔ ہمیں سال کے بارہ مہینے سرخ مرچوں کے نام پر اینٹیں، چائے کی پتی کے نام پر لکڑی کا برادہ، دودھ کے نام پر کیمیکل ملا گندہ پانی، ادرک کے نام پر تیزاب، گوشت کے نام پر گدھے، منرل واٹر کے نام پر گندہ پانی، سبزیوں کے نام پر زہر، گھی کے نام پر جانوروں کی گندی چربی، کیا کچھ نہیں کھلایا جا رہا۔ سال کے بارہ مہینے، مہینے کے تیس دن، دن کے چوبیس گھنٹے، کب ہم خوف خدا میں آکر اپنی مکروہ حرکات سے باز آتے ہیں۔ بھیا! میرا سوہنا رب اپنے حقوق تو معاف کر دے گا مگر اپنے بندوںکے حقوق کبھی معاف نہیں کرے گا۔ وہ بولتا جا رہا تھا اور میں سر جھکائے سنتا چلا جا رہا تھا۔ میرے پاس اس کو کہنے کے لئے الفاظ نہ تھے۔ میں محوحیرت تھا کہ اتنی چھوٹی عمر میں وہ اس قدر پختہ سوچ رکھتا تھا۔ اس کی آنکھیں ایک بار پھر آنسوئوں سے تر ہو چکی تھیں۔ میرے کانوں میں عابی مکھنوی کے یہ الفاظ گونج رہے تھے۔
مرچ میں اٹھائوں تو
اینٹ کا برادہ ہے
دودھ پانی پانی تو شہد لیس چینی کی
وردیوں میں ڈاکو ہیں
کرسیوں پہ کتے ہیں
عصمتوں پہ بولی ہے
سرحدیں بھی ننگی ہیں
چینلوں پہ بکتی ہے بھوک
مرنے والوں کی
دیر تک رلاتا ہے رش تماش بینوں کا
بے زبان لاشوں کا
جس جگہ میں رہتا ہوں
بے حسوں کی جنت ہے
مومنوں کی بستی ہے
بے پناہ سادہ ہیں
سود کے نوالوں سے
جب ڈکار لیتے ہیں
شکر کی صدائوں سے
رب کو یاد کرتے ہیں
رب بھی مسکراتا ہے
جب یہ طاق راتوں میں
کچھ تلاش کرتے ہیں۔۔۔
یقین کیجیئے میرے پاس نہ اس وقت کوئی الفاظ تھے اور نہ اس وقت کہ جب میں یہ لکھ رہا ہوں۔ بس اتنا کہنا چاہوں کہ خدائے کریم ہمیں منافقت کا لبادہ اتار پھینکنے اور سچائی و ایمانداری کا رستہ اپنانے اور اپنے بندوں سے پیار کرنے کی ہمت و طاقت اور توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو اس نوجوان جیسی انسان دوستی اور فکر عطا فرمائے تاکہ ہم بھی سوئی انسانیت کو جگا سکیں اور ہمیںقرب الٰہی نصیب ہو سکے۔ آمین۔
تحریر: تجمل محمود جنجوعہ
tmjanjua.din@gmail.com
0301-3920428
www.facebook.com/tajammal.janjua.5