عراق کے شہر موصل میں بین الاقوامی عسکری اتحاد کے طیاروں نے 3 3گھروں کو بم باری کے ذریعے ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا جس کے نتیجے میں 230 افراد جاں بحق، جبکہ درجنوں شدید زخمی ہو گئے ہیں۔ہلاک شدگان میں اکثریت بچوں اور عورتوں کی ہے۔
ایک سکیورٹی ذریعے نے انکشاف کیا کہ حملوں کا نشانہ بننے والے گھروں میں سے ایک گھر کے ملبے کے نیچے سے نکالی جانے والی لاشوں کی تعداد 130 ہو گئی ہے۔اس کے علاوہ موصل کے مغربی حصے میں دو گھروں پر شدید بم باری کی گئی۔ اس کے نتیجے میں تقریبا دیگر 100 افراد موت کی نیند سلا دیئے گئے جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ مغربی موصل میں چار لاکھ افراد محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔عرب ٹی وی کے مطابق امدادی ٹیمیں ملبے کے نیچے سے لاشوں کو نکالنے کی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ ذرائع نے واضح کیا کہ لڑائی کی شدت اور آزاد کرائے جانے والے علاقوں پر داعش کی جانب سے میزائل باری کے باعث شہری دفاع کی ٹیموں کو ملبے کے نیچے سے شہریوں کو نکالنے کی کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا ہے جبکہ وقتی طور پر کام روکنا بھی پڑا۔ ادھر عراقی فوجی ذرائع نے بتایا کہ سکیورٹی فورسز کو رات کے پہر شہریوں کو بچانے کی ہنگامی کالیں موصول ہوئی ہیں۔ یہ افراد موصل کے مغربی حصے میں 33گھروں کے ملبے کے نیچے پھنسے ہوئے ہیں جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ مذکورہ صورت حال مغربی موصل میں داعش تنظیم کے ساتھ مقابلے کے دوران ہونے والی فضائی بم باری کے نتیجے کے طور پر سامنے آئی ہے۔ واضح رہے کہ عراقی فوج 19 فروری سے مغربی موصل کو آزاد کرانے کے لیے عسکری آپریشن کر رہی ہے، جس میں اسے امریکا کے زیر قیادت بین الاقوامی اتحاد کی بھرپور معاونت حاصل ہے۔ اس سے قبل موصل کے مشرقی حصے پر کنٹرول حاصل کرنے کے واسطے 17 اکتوبر 2016 کو شروع کیا جانے والا عسکری آپریشن 24 جنوری کو مکمل کر لیا گیا تھا۔