تحریر : انجینئر افتخار چودھری
جدہ سے میرے ایک فیملی فرینڈ وقار صاحب ہیں آج انہوں نے دل کو ہلا دینے والی ایک پوسٹ شیئر کی۔ پوسٹ میں چند دوستوں کی بیٹھک کا ذکر تھا سب دوست ایک دوسرے کو بتا رہے تھے کہ میری ماں کو کھانے میں کیا پسند تھا ہر کوئی کچھ نہ کچھ بتا رہا تھا لیکن ایک دوست نے آسامن کی طرف دیکھ کر گھورنا شروع کیا۔ وہ بتا نہیں سکا سوچتا رہا کہ اس کی ماں کو کیا پسند تھا وہ اپنے خیالات کو جمع نہ کر سکا۔اس نے کہا دوستو! بہت سوچا بہت کچھ ذہن میں آیا زور دیا بس اتنا یاد ہے میری ماں کو بچا کھچا پسند تھا۔ جو بھی بچ جاتا۔میں اس وقت سے سوچ رہا ہوں کہ اس محفل میں بیٹھا شخص میں تھا۔ میں نے اپنی ماں کے ساتھ زندگی کے ٤٧ سال گزارے ہوش کے ٤٠ سمجھ لیں میں نے بے جی کو اہتمام سے کسی میز پر بیٹھے کھانا نہیں کھاتے دیکھا البتہ جب ماں جدہ آئیں تو ہم نے ریجیں نکالیں۔
پانچ بھائیوں اور ایک بہن کے ساتھ ہم چھ بچے تھے ہر ایک کی اپنی فرمائش ہوا کرتی ماں محدود وسائل سے سب کو پورا کرنے کی کوشش کرتیں میری عادت تھی رات کے آخری پہر اٹھ جاتا ٹھنڈی چائے یا ٹھنڈے دودھ میں گڑ ملا کر روٹی کے ساتھ کھاتا ۔ایک بار قلعہ دیدار سنگھ کسی شادی پر گئے۔بے جی نے میزبان خاتون سے کہا جو چائے مجھے دینی ہے وہ الگ کسی برتن میں ڈال دیں میرا بیٹا رات کو اٹھ کر مانگتا ہے۔میرے بچپن کی یادوں میں یہ ایک یاد ان دنوں کی ہے جب میں تقریبا ٥ سال کا ہوتا تھا۔
مائیں تو ساری دنیا کی انمول ہوتی ہیں میری ماں بھی ان جیسی مائوں کی طرح تھیں۔آج جب وقار بھائی نے ذکر چھیڑا تو ماں یاد آ گئی۔ہمارے گھر میں جب کوئی خاص مہمان آتا تھو آلو گوشت شوربے والا بنتا سبزی والے چاول توے کی روٹیاں ۔گلابی رنگ کا کسٹرڈ بنایا جاتا جس میں کیلے ڈالے جاتے۔مہمانوں کے جانے کے بعد ماں ہمیں سیڑھیوں کے نیچے بٹھا کر کھانا کھلاتیں۔اور خود ٹھنڈی روٹی کے ساتھ شوربے سے کھا کر اللہ کا شکر ادا کرتیں۔٧٠ سال کی عمر مین جدہ میں ایک مصری ڈاکٹر کے پاس لے گیا اس نے جب بے جی کا بلڈ پریشر چیک کیا تو کہا ما شاء اللہ بہت اچھا ہے۔ماں جی اس عمر میں سلم تھیں پوتوں کے ساتھ مل کر خوب رونقیں لگاتیں۔ بڑا بھاری سا گدا ابغل میں دبا کر ایک کمرے میں لے جاتیں۔
ڈاکٹر دوست تھا کہنے لگا اپنی ماں سے پوچھو کیا کھاتی ہیں بے جی نے بتایا زندگی میں کبھی ایک روٹی سے زیادہ نہیں کھائی اور پنکھے کے نیچے نہیں سوئی۔ایک بار گھر میں ہی گم ہو گئیں ہم عزیزیہ اسکول کے ساتھ والی گلی میں رہتے تھے پاکستانی دوست اس گلی کو چودھری والی گلی کہتے تھے۔بڑا تلاش کیا تو جائے نماز کے اوپر سوئی ہوئی پائی گئین اور وہ بھی بڑے ڈائنینگ ٹیبل کے نیچے۔ بے جی کی زندگی کے اس پہلو کو اجاگر کیا۔اپنی بیوی سے ایک روز پوچھا کہ تم ہی بتائو کہ بے جی کو کھانے میں کیا پسند تھا تو اس نے بتایا کہ رمضان میں گھر کے بنے ہوئے دہی بھلے شوق سے کھاتی تھیں۔
یقین کیجئے یہ اس نے بتایا تو مجھے پتہ چلا۔ایران میں چھوٹے بھائی کے پاس رہیں واپسی پر آ کر ایرانی لوگوں کے طرز حیات پر باتیں کرتیں۔جدہ میں جب دفتر سے واپس آتا تو انہیں مکان کی بالکونی میں منتظر پاتا۔وقار صاحب مائیں تو سب ہی کی اچھی ہوتی ہیں میری بھی ان میں سے ہی ایک تھیں۔آج آپ نے مائوں کی پسند کا کھانا پوچھا تو میرا جواب بھی آپ کی بھیجی ہوئی پوسٹ والے دوست کا تھا کہ میری ماں بچا ہوا کھانا پسند کرتی تھیں۔
دوست احباب انہیں ملنے آتے دعائیں لیتے تھے۔ماں جی اللہ والی تھیں اپنے گھر کی چھت پر تبلیغی جماعت کے اجتماع کروایا کرتی تھیں۔مولانا عبداللہ درخواستی بھی ہمارے گھر تشریف لا چکے ہیں۔ایک بار میرا ایک غریب دوست جسے تنگی حالات نے اس قدر مجبور کیا کہ وہ گھر چھوڑ کر چلا گیا اس کے پانچ بچوں اور بیوی کو گھر لے آئیں۔بہوئیں دیکھتی رہیں اور بے جی نے کہا یہ میرے بیٹے کا وہ دوست ہے جس نے اس کی گرفتاری کے موقع پر پولیس سے ہاتھا پائی کی تھی۔فاروق میرا بچپن کا دوست تھا تحریک ختم نبوت میں مجھے اندیشہ ء نقص امن کے تحت باغبانپورہ چوک سے گرفتار کیا گیا تو اس نے مجھے گرفتار کرنے پر مزاحمت کی۔مدرسہ اشرفالعلعم کے پاس مجھے ١٩٧٤ مین تحریک ختم نبوت مین حصہ لینے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا۔وہ بچے پندرہ دن تک گھر رہے،ماں جی اس دنیا سے ٢٠٠٢ میں گئیں۔
ان کا جہاں سے جانا اللہ کی رضا تھی۔لیکن اس میں جنرل مشرف دور کی سفاکیوں کا بڑا ہاتھ ہے ۔مجھے جدہ میں چند دوستوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا جس میں قاری شکیل مرحوم ارشد خان مرحوم مسعود پوری مرزا آفتاب ڈاکٹر قسیم وغیرہ شامل تھے۔ان میں اکثر میاں نواز شریف کے قریبی دوست تھے۔جنرل اسد درانی ان دنوں سفیر پاکستان تھے میاں نواز شریف گرچہ ایک معاہدے کے تحت وہاں تھے جس میں یہ شک شامل تھی کہ وہ سیاست نہیں کریں گے مگر مسلم لیگی دوستوں کی سیاست جاری تھی میں نامئیندہ تھا پاکستان کے ایک اہم اخبار کا جس سے حکومت وقت کو اس لئے تکلیف تھی کہ میں جدہ سے میاں نواز شریف کی دوستوں کی کوریج کرتا تھا۔اور پھر وہ پکڑے گئے اور مجھے بھی ایک روز اوڈی کے سروس سنٹر سے اٹھا لیا گیا۔
یہ تھی ہماری پاک طینت اور پاک را آمریت جس کا بخار آج کل چڑھا ہوا ہے۔٧١ دن کی جیل نے بے جی کوتوڑ کے رکھ دیا تھا۔ماں جی کو جب ٢٩ مئی کو ملا تو وہ ایک لاشہ سا تھیں ساتویں روز برین ہیمرج ہوا اور ٢٤ روز قومے میں چلی گئیں۔قربانیاں لوگوں نے جمہوریت کے لئے بہت کچھ دیا میرے حصے میں ماں آئی جو دے دی۔پمز کے بستر پر بے جی کی حالت دیکھتا تو دل کرتا گردنیں اڑا دوں جس دن ان لا ؛اشہ میرے سامنے آیا دل کیا کہ بم باندوں اور پھٹ جائو ں مگر بے جی کا ایک تکیہ کلام تھا او جانے۔اس او جانے میں کتنے صبر کی تلقین تھی اس کا پتہ مجھے بعد کی زندگی میں ملا۔میری زندگی میں بعد میں بڑی خوشیاں آئیں اسی شہر جدہ جہاں سے جیل میں بند ہو کر گیا تھا عزتیں سمیٹیں پر ماں نہ تھی۔
شائد اس کے حصے میں بچا کھچا تھا وہ اپنے نصیب کو لے کر جون ٢٠٠٢ میں گجرانوالہ کے بڑے قبرستان میں دفن ہو گئیں۔جنازہ زعیم ملت مولانا رحمت اللہ نوری نے پڑھایا دعا عبدالرحمن مکی صاحب نے کرائی اس سہ پہر کو رم جھم بھی ہوئی جون کے آخری ہفتے میں قیامت کی گرمی میں جنت سے بارش کی بوندیں بے جی کو لینے آئیں۔ یہ بچا کھچا تھا۔
تحریر : انجینئر افتخار چودھری
iach786@gmail.com