تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
سرتاج الانبیاء محبوب ِ خدا مجسمِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبوب اور وفادار بیوی اِس جہانِ فانی سے جا چکی تھیں ۔ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی محبوب بیوی سے 25 سالہ خوبصورت ناطہ ٹوٹ چکا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی اپنی معصوم بیٹیوں کو دیکھتے تو دل بھر آتا ۔ معصوم بیٹیاں ماں کی جدائی میں غم کا پیکر بن چکی تھیں ۔ وہ کم سن تھیں اور قدم قدم پر انہیں ماں کی بہت ضرورت تھی ۔ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رسالت کی بہت بڑی ذمہ داری تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر حال میں نبھانی تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بڑی صاحبزادی سیدہ زینب اور سیدہ رقیہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو خیر سے اپنے خاوند ابوالعاص بن ربیع اور حضرت عثمان غنی کے گھر آبا د تھیں ۔ جبکہ اصل مسئلہ تو معصوم شہزادیوں سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ کا تھا جن کو توجہ اور دیکھ بھال کی ضرورت تھی ۔ اِس کے ساتھ ساتھ محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ایسی نیک خاتون خانہ کی ضرورت تھی جو نہ صرف بچیوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ اُن کو ماں کی محبت دے سکے بلکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لائیں تو باعث راحت و سکون ہو۔
چچا ابو طالب اور حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد کفار مکہ کے مظالم میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی گھر سے باہر تشریف لے جاتے تو بد قماش لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تنگ کرتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کوڑا کرکٹ پھینکتے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لاتے تو چہرہ مبارک گرد و غبار سے اٹا ہو تا تو معصوم شہزادیوں کے دل تڑپ اٹھتے اور رخساروں پر آنسو بہنے لگتے پھر معصوم شہزادیاں اپنے بابا جان کا سر اور چہرہ مبارک دھوتی اور ساتھ ساتھ کفار کو برا بھلا بھی کہتیں کہ وہ کیوں ہمارے بابا جان کو تنگ کرتے ہیں ۔ رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے جگر گو شوں کے آنسو دیکھ کر پریشان ہو جاتے لیکن اپنی بیٹیوں کو حوصلہ دیتے کہ رو نہیں اللہ تعالی تمھارے باپ کی حفاظت کرے گا ۔ حالات تقاضہ کرتے تھے کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اب دوسری شادی کر لیں ۔ انہی دنوں میں ایک دن تاجدارعرب و عجم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن گھر میں آرا م کر رہے تھے کہ عالم خواب میں حضرت جبرائیل سبز ریشمی پارچہ پر سیدہ حضرت عائشہ کی تصویر لائے اور عرض کیا۔
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ خاتون دنیا اور آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ ہے ۔ بیوی کا چہرہ دیکھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب میں ہی ارشاد فرمایا اگر یہ خواب اللہ تعالی کی طرف سے ہے تو ضرور پورا ہو گا اور ایک دن رب ذولجلال ایسی زوجہ ضرور عطا کرے گا ۔یہ خواب مسلسل تین رات آتا رہا اور یہ حضرت عائشہ کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ رسول کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُن کے آنے سے پہلے ہی ان کا چہرہ مبارک کے جمال پر انوار کا محب و مشتاق بنا دیا ۔ چند دن بعد ایک دن سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر میں تشریف فرما تھے کہ حضرت خولہ بنتِ حکیم حاضر خدمت ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسرا نکاح کر لیں ۔ کس سے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت کیا۔
بیوہ اور کنواری دونوں طرح کے رشتے ہیں جسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پسند فرمائیں۔ حضرت خولہ نے عرض کیا ۔بیوہ تو حضرت سودہ بنتِ زمعہ اور کنواری آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ترین دوست اور عاشق زادحضرت ابو بکر کی صاحبزادی سیدہ عائشہ ہیں ۔ دونوں جگہ بات کرو ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اذن پانے کے بعد حضرت خولہ بنتِ حکیم حضرت ابو بکر صدیق کے درِ دولت پر پہنچیں اس وقت وہ گھر پر نہیں تھے اُن کی اہلیہ محترمہ سے بات کی تو ماں نے کہا عائشہ کے باپ کو آنے دو اُن سے بات کروں گی پھر بتائوں گی کل آنا اِس کے بعد حضرت خولہ بنتِ حکیم سیدہ سودہ کے والد زمعہ کے پاس آتی ہیں اور آنے کا مقصد بیان کیا باپ نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور کہا مجھے ذاتی طور پر کوئی اعتراض نہیں لیکن سودہ کی مرضی دریافت کر لو ۔ اب حضرت خولہ بنتِ حکیم اند ر حضرت سودہ کے پاس جاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم سے شادی کر نا چاہتے ہیں کیا مرضی ہے ۔ حضرت سودہ نے سنا تو اپنی سماعت اور قسمت پر یقین نہ آیا کہ اِس عمر میں جبکہ پچاس سال سے تجاوز کر چکی ہے محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رشتہ آئے گا خوشی اور جذبات کا عجیب عالم تھا کہ ایسی دولت نایاب حاصل ہو گی
کیونکہ حضرت سودہ قدیم الاسلام تھیں اور فدائیت کی حد تک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتی تھیں بولیں خولہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے آقا اور مولا پر ایمان لائی ہوں وہ میرے ہادی و رہنما ہیں انہیں میری ذات کے بارے میں فیصلہ کر نے کا کلی اختیار ہے جس طرح چاہیں فیصلہ فرمائیں ۔ اگلے دن حضرت خولہ بنت حکیم دوبارہ حضرت ابو بکر صدیق کے گھر گئیں وہ پہلے سے منتظر تھے گویا ہو ئے خولہ مجھے تمھارے توسط سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام ملا ہے میرا جو تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے اس کی روشنی میں کیا یہ جائز ہے عائشہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھتیجی ہیں ۔ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِس ضمن میں بات کروں گی پھر اطلاع دوں گی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساری بات سننے کے بعد کہا ابو بکر صرف میرا دینی بھائی ہے نکاح جائز ہے۔
پھر حضرت سودہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شادی ہو گئی جنہوں نے اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹیوں کی دیکھ بھال اپنی اولاد سے بڑھ کر کی ۔ چند دن بعدحضرت ابو بکر نے حضرت خولہ کے ذریعے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیغام بھیجا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہہ دیں کہ جب چاہیں عائشہ سے شادی کر لیں ۔ سیدہ حضرت عائشہ کی عمر محبو ب خدا سے نکاح کے وقت پندرہ سال ہجرت کے وقت اٹھارہ سال اور رخصتی کے وقت انیس سال تھی اور جو لوگ نکاح کے وقت چھ سال رخصتی کے وقت نو سال لکھتے ہیں وہ درست نہیں ہے ۔ میاں محمد سعید نے اپنی کتاب حیات ام المومنین میں معتبر حوالوں کے ساتھ اِس اہم موضوع پر روشنی ڈالی ہے ۔
ماہ شوال دس نبوی بعوض پانچ سو درہم حق مہر پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں سیدہ عائشہ آگئیں نکاح کے وقت ان کی عمر پندرہ سال تھی لیکن اُس وقت رخصتی عمل میں نہ آئی اِس کو موخر کر دیا گیا جس کی حکمت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کا خدا ہی بہتر جانتے تھے ۔حضرت سیدہ عائشہ سے نکاح ایک تو حکم ِ ربی تھا دوسرا اپنے محبوب اور عاشق حضرت ابو بکر صدیق کے ساتھ تعلقات کی مضبوط بنیاد استوار کر نا اور غلط جہالت پر مبنی رواجوں کی قید سے لوگوں کو آزاد کرانا مقصود تھا۔
جس نے انسانی معاشرے کو جہالت کے سمند میں غرق کیا ہوا تھا مثال کے طور پر منہ بولے رشتوں کو بنیا دبنا کر نکاح کے لیے جائز اور وسیع حلقے کو محدود کر دیا گیا تھا جس سے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے تھے اس دو ر جہالت میں منہ بولے بھائی کی بیٹی سے نکاح حرام خیال کیا جاتا تھا لہذا اِس جہالت پر مبنی رسم کا قلع قمع کر نا ضروری تھا ۔ لہذا محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ سے نکاح کر کے اِس جہالت پر مبنی رسم کا خاتمہ کر دیا ۔
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956