تحریر : مریم چوہدری
ماں محبت، شفقت، عبادت، ریاضت وہ لفظ ہی نہیں اترا، جس سے تجھے لکھوں دنیا میں سب سے بری نعمت ماں ہے۔ ماں جیسی نعمت سے سب کو مستفید ہونا چاہیے۔ وہ ایک ایسی ہستی ہے جواپنی اولاد کے لیے خود تکلیف سہتی ہے۔لیکن بچوں پر کوئی آنچ آنے نہیں دیتی ہے۔ جو ہمارے لیے ہر حال میں بہہتر سوچتی ہے۔ ہمارے فائدے کی بات کہتی ہے۔ حدیث نبوی ۖہے۔ ما ں کے قدموں تلے جنت ہے۔اس طرح اہمیت اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔اور یوں بھی پہلے تین درجے ماں کے ہیں۔اور ایک درجہ باپ کا ہے وہ بھی ہرحال میں ہمیں سکون دیتے ہیں۔ماں خود گیلے بستر پر سوتی ہے اور بچے کو خشک بستر پر سلاتی ہے۔ ماں وہ ہے اگر بچہ تندرست نہ ہوجائے تووہ پریشان رہتی ہے۔ اگر یہ نعمت کھو جائیتو خواہ دنیا کی ساری دولت خرچ کر ڈالو یہ دوبارہ کسی کو بھی نصیب نہیں ہوئی۔یہاں تک کہ وہ عظیم ہستی ہے جس کے بغیر دنیا میں ہر چیز بے رونق ہے۔ ماں اللہ کی دی ہوئی نعمت ہے۔
ماں تیرے بعد بتا کون لبوں سے اپنے
وقت رخصت مرے ماتھے پہ دعا لکھے گا
اس طرح میرے گناہوں کو دھو دیتی ہے
ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے
‘ مجھے ماں جیسی گاڑھی چھاؤں والا درخت کہیں نظر نہیں آتا کہ اس کی چھاؤں اْدھار لے کر رب نے جنت بنائی۔۔۔ دْنیا کے تمام درخت جڑ سوکھنے سے مرجھا جاتے ہیں لیکن یہ درخت پتوں کے سوکھنے سے مْرجھا جاتا ہے ‘
اج کے دور میں ہم سال میں ایک مرتبہ کارڈ اور پھول دیکر مدر ڈے سلیبریٹ کر لیتے ہیں کہ جیسے ہم نے کوئی معرکہ سر کرلیا ہو۔ماں باپ کی حقیقی محبت ادب و احترام ہی دنیا میں کامیابی و آخرت میں نجات کی ضمانت ہے۔ آج مجموعی طور پر معاشرتی صورتحال کا مشاہدہ کیا جائے تو بوڑھے انگریز تو اولڈ ہومز میں جاتے ہیں۔ بلکہ ہماری کمیونٹی کے بے شمار بوڑھے والدین سخت پریشانی رنج و غم کے عالم میں اولڈ ہومز میں زندگی کے آخری دن گزار رہے ہیں۔ بلکہ سنا ہے کہ پاکستان میں بھی اولڈہومز کا رواج ہوگیا ہے۔ یا پھر ہم نے بڑی بڑی کوٹھیاں بنا ڈالی۔ مگر بوڑھے والدین اس ڈر سے سرونٹ کوارٹر منتقل کر دیتے ہیں کہ نسوار ملنے کے بعد تھوک سے ہماری ٹائلیں خراب ہوجائیں گی۔ ہم ظاہر جتنی بھی نمود و نمائش کرلیں۔ جب تک والدین سے حقیقی محبت ادب و احترام نہیں کریں گے۔ سکونِ قلب کبھی نصیب نہتھا۔
ہم اگر پی ایچ ڈی بھی کیوں نہ کرلیں۔ اپنی ماں کا چہرہ دیکھ کر انکی پریشانی نہیں جان سکتے اور ماں جو ان پڑھ ہے۔ جنہیں اپنا نام لکھنا بھی نہیں ا?تا وہ ہماری مسکراہٹ کے پیچھے چھپے دکھ اور ہماری آنکھوں کے اندر کی پریشان کو ایک پل میں پڑھ لیتی ہے۔ یہ ماں کی ممتا ہے۔ ہم اگر ساری زندگی انکی خدمت کریں کندھوں پر بٹھا کر حج و عمرہ کروائیں تو صرف اس رات کا حق ادا نہیں کر سکتے جب بچپن کی یخ بختہ راتوں میں خود گیلے بستر پر رات گزاری اور اپنے لختِ جگر کو سردی کا ایک جھونکا بھی نہ لگنے دیا۔ بے شک ہم یورپ کے باسی ہیں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اپنے پیارے حبیب کے صدقے ہمیں اپنے والدین کی خدمت کرنے کی ہمت و توفیق دے اور جنت کا راستہ ہموار کردے۔ ماں کے قدموں میں اگر جنت ہے تو باپ کے ہاتھوں میں اس جنت کی کنجی ہے۔
ماں کے بلند مرتبے اور اس کی خدمت واِطاعت کی ترغیب اور اس کے ساتھ درشت کلامی یا سلوک بد کی وعید میں کئی آیتیں ہیں۔ سورہ نسائ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے معاً بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم بھی موجود ہے۔ اور اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائو اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ (النسائ ٣٦) سورہ? بنی اسرائیل میں بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت کے حکم کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان کی کسی بات پر اْف تک نہ کرنے اور ان کے ساتھ درشت کلامی نہ کرنے کا حکم ہے۔ ان سے ادب سے بات کرنے اور ہمہ وقت ان کے ساتھ مہربانی اور انکساری کا معاملہ کرنے کا واضح حکم ہے۔
آپ کے رب نے فیصلہ کردیا کہ تم لوگ صرف اسی کی عبادت کرو اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو، اگر وہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک بوڑھا ہوجائے تو ان سے اْف تک نہ کہو، اور ان سے شریفانہ بات کرو اور نرمی ورحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کررہو اور دْعا کرو کہ اے رب ان دونوں پر رحم فرما جس طرح ان لوگوں نے مجھ کو بچپن میں پالا تھا۔
ایک دفعہ کسی صحابی نے حضور ۖسے عرض کیا کہ کیا میں جہاد کروں ؟ قال لک ابوان قال نعم قال ففیھا فجاھد۔ آپ ۖنے فرمایا تمہارے ماں باپ ہیں تو کہا ہاں ، فرمایا تو ان دونوں کی خدمت میں لگے رہو۔ نسائی کی روایت ہے کہ ایک صحابی حضرت جاہمہ? جہاد میں شریک ہونے کے لیے حضور? کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ ?نے فرمایا کہ تمہاری ماں ہیں ان کی خدمت کرو کہ ان کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔ فقال ھل لک من ام قال نعم قال النھا فان الجن? عند رجلیھا۔ آپ نے فرمایا کہ تمہاری ماں ہیں، کہا ہاں آپۖنے فرمایا مستقل ان کی خدمت میں لگے رہو اس لیے کہ جنت ماں کے پیروں میں ہے۔
اس حدیث میں اس بات کی جانب اِشارہ ہے کہ اگر جنت تلواروں کے نیچے ہے تو وہ ماں کے قدموں کے آس پاس بھی ہے۔صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق آپ? نے اس شخص کے حق میں رنج وافسوس کے کلمات بیان فرمائے جس نے والدین کو یا ان میں سے کسی کو بڑھاپے میں پایا پھر بھی ان کی خدمت کے ذریعے جنت کا مستحق نہ بن سکا۔ برباد ہوا، برباد ہوا، بربادہوا جس نے اپنے ماں باپ یا ان میں سے کسی کو بڑھاپے میں پایا پھر بھی جنت میں داخل نہ ہوا۔ ماں اگر غیر مسلم ہے مشرک وکافر ہے تو بھی صلہ رحمی کا آپ ۖنے حکم دیا ، حضرت اسماء نے اپنی غیر مسلم ماں کے بارے میں سوال کیا۔ کیا میں اپنی ماں سے صلہ رحمی کروں، فرمایا اپنی ماں سے صلہ رحمی کرو۔
اس قسم کی اور بھی حدیثیں ہیں جن کو حدیث وفقہ کی کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ میں نے اپنی ماما کے لیے لکھا تھا۔۔۔پتہ نہیں مجھے اتنے بڑے شعرائ کرام کے کلام کے ساتھ اسے لکھنا چاہییے تھا یا نہیں۔۔۔لیکن بات ہورہی تھی ماں کی۔۔۔ اور ماں کے لیے جس نے جو بھی لکھا ہے۔۔میرے خیال سے اس کا ایک ایک حرف قیمتی اور انمول ہوتا ہے۔اس لیے یہاں لکھنے کی ہمت کررہی ہوں۔
پہلی بار میں کب تکیے پر
سر کو رکھ کر سوئی تھی
اْن کے بدن کو ڈھونڈا تھا، اور روئی تھی
دو ہاتھوں نے بھینچ لیا تھا
گرم آغوش کی راحت میں
کیسی گہری نیند مجھے تب آئی تھی
کب دْور ہوئی تھی پہلی بار
اپنے پیروں پر چل کر
بستر سے الگ ، پھر گھر سے الگ
اک لمبے سفر پر نکلی تھی
اپنی اْنگلی کو تھامے
دھیرے دھیرے دْور ہوئی کب
نرم بدن کی گرمی سے
اْس میٹھی نیند کی راحت سے
اب سوچتی ہوں اور روتی ہوں
میں اپنے موضو کو اس طرح الودا کہوں گی
‘ سْکھ دیتی ہوئی ماؤں کو گنتی نہیں آتی
پیپل کی گھنی چھاؤں کو گنتی نہیں ‘
تحریر : مریم چوہدری