تحریر: عاقب شفیق
”یا اللہ ۔۔۔ میری بیٹی۔۔۔! ” مجھے صرف اتنا سنائی دیا۔ ماں مسلسل میری نبض اور دھڑکن کا مشاہدہ کر رہی تھی۔ ماں کی آنکھوں سے بہتے آنسو گالوں سے ہوتے ہوئے کانپتے ہونٹوں پہ ایک لمحے کو ٹھہر کر ٹپک رہے تھے۔تسبیح تو جیسے ماں کے ہاتھ کے ساتھ کا کوئی عضو ہو۔ وہ بے چینی سے میرے پاؤں کی تلیاں ملتی، میرے ہاتھ ملتی، مجھے سینے سے لگاتی اور پھر آسمان کی جانب دیکھتی۔ وہ بار بار میرے بیڈ کے گرد چکر لگا رہی تھی۔
مجھے اپنے یونیورسٹی کے ایام یاد آئے جب میں تاریخ اور فقہ میں ماسٹرز کر رہی تھی۔ ایک رات میں اپنی سہیلی کے ہمراہ بیٹھے اموات کے عالم سے متعلق احادیث پڑھ رہی تھی ۔ روح قبض ہو نے کا عالم پڑھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میں نے اپنی دوست سے پوچھا کہ کیا اتنا ہی دشوار ہوتا ہے روح کا قبض ہونا؟۔ وہ کہنے لگی کہ ” جب موت برحق ہے تو ہمیں زندگی میں ایسے اعمال کرنے چاہئیں کہ جو نزع کے وقت ہمارے لئے تکلیف دہ ثابت نہ ہوں”۔ اس کے الفاظ میرے ذہن میں گھونج رہے تھے۔ میں اپنے اعمال پر نظر ثانی کرنے لگی۔ میری یاد کھوتی جا رہی تھی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ بس، روح قبض ہونے کو ہے۔ میں فانی دنیا کو خیرباد کہنے کیلئے بالکل تیار موت کا انتظار کر رہی تھی۔
اسی اثنا میں ابا بھی کمرے میں داخل ہوئے۔ وہ کسی سے فون پہ بات کر رہے تھے۔” نہیں یار میں تیری طرف نہیں آسکتا، جب سے میری بیٹی کو فالج ہوا ہے میں اپنا دھیان کسی چیز پر مرکوز نہیں کر سکتا۔” مجھے عمر بھر یوں لگا کہ ابا مجھ سے بالکل بھی پیار نہیں کرتے۔ وہ سخت طبیعت کے مالک تھے ہم ان سے زیادہ وقت نہ لے پاتے۔ اکیس برس کی عمر میں مفلوج ہو کر میں نے ابا کا پیار دیکھا جب وہ میری زندہ لاش پر بیٹھ کر ضبط نہ کر پاتے اور انکے آنسو انکی سخت گیر آنکھوں سے موم بن کر ٹپکتے۔
میں ماضی کی ان تمام محافل کو یاد کر رہی تھی کہ جن میں نزع کے عالم کا ذکر ہوا ہو۔ میں وہ تمام آیات، دعائیں ہونٹ نہ ہلا سکنے کے سبب دل ہی دل میں دھرا رہی تھی۔ کلمہ اور درود پاک تو جیسے مجھ ڈوبتی کا آخری سہارا تھا۔مجھے نہیں یاد کہ میری پلکیں جھپکتی تھیں یا نہیں، ایک پنکھا ہر وقت میرے ساتھ رہتا تھا۔ صرف وہ پنکھا تھا جو ہر وقت میری آنکھوں کے سامنے رہتا تھا۔ میری علالت میں ہمہ وقت مجھے اپنے دیدار سے نوازے رکھا۔ اورعلالت کے روز اول سے آخری شب تک میری آنکھوں کے سامنے رہا۔ اور اپنے مسلسل وجود سے اپنے باوفا ہونے کی نوید سناتا رہا۔ آخری وقت میں ماں کے سینے میں دھڑکتے دل کی بے ترتیب دھڑکنیں اپنے سینے میں محسوس کررہی تھی۔ اچانک دروازہ کھلنے کی آواز آئی ”ماں! سحر کی طبیعت کیسی ہے؟ ” ۔ بھائی بے چینی سے میرے سرہانے بیٹھتے ہی میرے ساکن جسم کو شفقت سے چھو نے لگا۔
”بس، زندہ ہے”مجھے یوں لگا کہ جیسے ماں کے منہ سے نکلتے یہ الفاظ درحقیقت اس کے سینے میں دھڑکتے دل کی چیخ ہوں۔ یہ کہتے ہی وہ گھٹنوں کے بل گر کر رونے لگی۔ ماں کے آنسو جیسے مجھے کاٹ رہے تھے۔ میں سوچ رہی تھی کہ جلدی سے مر جاؤں ۔۔ پر ماں کے آنسو میری وجہ سے نہ بہیں۔میری وجہ سے وہ نہ تڑپے۔
مجھے کچھ یاد آ رہا تھا کہ چند ماہ قبل اماں کو کچھ ہو گیا تھا۔ وہ ٹھیک ٹھاک تھیں کہ اچانگ میری گود میں ہی بے ہوش ہو گئیں اور منہ سے جھاگ نکلنے لگی۔ مجھے یوں لگا کہ ماں اب نہیں رہی۔ یہ سب دیکھ کر جیسے مجھے کوئی ہتھوڑے مارنے لگا۔ میرے دل پہ ہتھوڑے پڑے۔ میرے دماغ پہ کوڑے پڑنے لگے۔ میں اپنا استحکام کھونے لگی۔ میں دنیا کی دیگر لڑکیوں کی نسبت خود کو معذور سمجھنے لگی، میرا سانس تک لینا مجھے کرخت محسوس ہو نے لگا تھا۔ مجھے بڑے بھائی نے اٹھایا اور اوپر کمرے میں لے گیا۔ وہ مجھے سہارا دے رہا تھا ۔ مجھ سے کہہ رہا تھا کہ سب بہتر ہو جائے گا میں اپنی بہن کو کچھ نہیں ہونے دوں گا۔ وہ میری وجہ سے بہت پریشان لگ رہا تھا۔ لیکن اندر ہی اندر میرے ذھن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ ماں اب نہیں رہی۔ مجھے ڈاکٹر نے کہا تھا کہ مجھے ہوا میں نہیں رہنا۔ گھومنے پھرنے سے اجتناب کر نا ہے اور سفر سے بھی گریزاں رہنا ہے۔ اس سے آگے مجھے کچھ یاد نہیں آ رہا تھا۔
ماں تلاوت کر کر کے مجھ پہ پھونکے جا رہی تھی۔ لیکن میرا بدن بالکل ساکت تھا۔ ایک لمحے کو میں نے سوچا کہ ماں کی دعاؤں کا اثر ہو گا ۔ کچھ نہ کچھ بہتر ہوا ہو گا۔ میں نے پاؤں کی انگلیاں ہلانے کی کاوش کی لیکن نے سود۔ پھر میں نے بستر سے ٹکراتی ایڑیوں کو متحرک کرکے ان میں جان کے وجود کو محسوس کرنا چاہا تو مایوس ہوئی۔ ٹانگوں کو ہلانے کی ازحد کوشش کی مگر یک فیصد بھی کامیاب نہ ہو پائی۔ میں نے ہاتھوں کی انگلیوں کو ہلانا چاہااس سے مجھے ہلکا سا کہنیوں میں زیست کا احساس ہوا۔ مجھے لگا کہ کہنیاں محسوس کر سکتی ہیں۔ کیوں کہ میری انگلیوں کو ہلانے کی کوشش نے کہنیوں میں روانی لہو کا احساس دیا۔ میں نے زبان ہلانا چاہی تو مجھے یہ تک نہ پتہ چل پایا کہ زبان میرے جسم کے ساتھ موجود بھی ہے یا نہیں۔ منہ کو تحرک دینے سے میں قاصر تھی۔ خدا کی شان تھی کہ اس بے جان جسم میں دل دھڑک رہا تھا اور لہو رواں رکھے ہوئے تھا۔
مجھے ماں نے ہمیشہ سہارا دیئے رکھا ۔ایک رات ماں میرے ہاتھوں کو پکڑے تلاوت کر رہی تھیں۔ اور میرے بیڈ کے ساتھ ہی نیچے فرش پہ بیٹھے بیٹھے سو گئیں۔رات کا پچھلا پہر تھا۔ مجھ پہ عجیب سی کیفیت طاری ہوئی۔ کچھ بے ذائقہ اور بے رنگ سی۔ مجھے لگا کہ یہ موت کی ابتدائی کیفیت ہے۔ میں نے باقاعدہ اپنے پیروں کو حرکت دینا چاہی لیکن وہ حرکت نہیں کر رہے تھے۔ صرف پاؤں کا انگوٹھا ہلکی سی حرکت کرتا تھا۔ میں مسلسل اسے ہلا ہلا کر دیکھ رہی تھی کہ میری روح قبض ہونا شروع ہوئی یا نہیں ۔ کیونکہ مجھے یاد پڑ رہا تھا کہ کسی حدیث میں لکھا تھا کہ روح قبض ہونے کی شروعات پیروں سے ہوتی ہے۔ میں نے پیروں کو ہلانے کے ساتھ ساتھ کلمہ اولیٰ وردِ زباں کیئے ہوئے تھا اور درود پاک بھی میری زبان پہ تھا۔
میں سوچ رہی تھی کہ آخر دم زبان پہ اللہ کا نام ہونے سے شائد میری بخشش ہو جائے۔ میں نے پھر سے پاؤں پہ پوری توجہ مرکوز کی اور انگوٹھے کو حرکت دینے لگی۔ میں مرنے کے لیئے بالکل تیار ہو چکی تھی ۔ میری آنکھوں سے آنسو نکل کر کانوں میں جا رہے تھے گرم آنسوؤں کی مکمل حرکت کا مجھے احساس ہو رہا تھا۔ مجھے آنکھ سے نکلنے سے لے کر کان تک جلاتے جاتے ہوئے آنسوؤں نے جھنجوڑا۔ میں ایک لمحے کو مرنے سے پہلے رکی کہ کیا کوئی ایسا کام تو نہیں رہ گیا کہ جس کی وجہ سے مرنے کے بعد بچھتاوا ہو کہ کاش زندگی میں یوں کیا ہوتا۔ مجھے ہلکا سا یاد آیا کہ میں ان دنوں جس مدرسے میں پڑھاتی تھی اس میں مجھے دو ماہ اور بیس دن ہوئے ہیں۔ دو ماہ کی تنخواہ میں لے چکی تھی۔ بیس روز کی تنخواہ ابھی باقی تھی۔ سو، اسے میں نے صدقہ کہہ کر مدرسے کی نذر کر دیا۔ میرے آنسوؤں کی روانی میں شدت آ رہی تھی۔ میری آنکھیں تر تھیں۔ میں نے ایک مرتبہ پھر پاؤں کو حرکت دی ۔ اس کی حرکت نے مجھے چند مزید لمحوں کی زندگی کی خوشخبری سنائی۔ میں بے چین ہو رہی تھی۔
کہ صرف چند لمحے۔ میں نے سوچا کہ کیا میرے اعمال میرے لیئے کافی ہیں؟۔ اس سوال کے جواب میں چند لمحوں کے لئے میں ماضی میں ادا کردہ عبادات تک جا پہنچی جن کے بارے مجھے بڑا رشک تھا۔ عمر بھر میں مطمئن رہی کہ عبادات کی ہیں۔ یہ کیا؟ آج میں بے چین ہوں۔ مجھے جواب ملا کہ نہیں، اعمال بالکل بھی کافی نہیں کہ جن کا رب نے تقاضا کیا ہے۔ میں جیسے کسی دریا میں گر گئی ہوں۔ اور دریا گہرے سمندر کو جا رہا ہے۔ دریا کی طغیانی بھری موجیں مجھے پٹخ پٹخ کر دائیں بائیں مار رہی ہیں۔ اسی اثنا میں کنارے پہ ایک پتھر پہ میرے ہاتھوں کی گرفت پڑ گئی ۔ پانی کا بہاؤ مجھے اپنے ساتھ بہا لے جانا چاہ رہا ہے اور میں ہاتھوں کی گرفت مضبوط کیئے جا رہی ہوں۔ ہاتھ چھوٹتے جا رہے ہیں۔ میں ہاتھوں کی گرفت مضبوط کیئے جا رہی تھی لیکن ہاتھوں کی انگلیوں سے پتھر نکلے جا رہا تھا۔
میری آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کی مقدار میں یکلخت اضافہ ہو گیا ۔ میں بیڈ پہ پڑے پڑے اپنے پاؤں پیچھے کھینچنے کی کوشش کیئے جا رہی تھی۔ کہ جیسے خود کو موت کے منہ میں جانے سے روک رہی ہوں۔ لیکن میرے پاؤں کا انگوٹھا ہلنے کے سوا کچھ نہیں ہو پا رہا تھا۔ میں بے چینی سے مری جا رہی تھی۔ ماں اٹھی تو میری حالت اور آنسو دیکھ کر دھنگ رہ گئی کیونکہ اماں کو لگ رہا تھا کہ میرے احساس کی حس بھی میرے ساتھ ہی مفلوج ہو چکی ہے۔ میرے آنسو انہیں بتا گئے کہ میرا احساس ابھی تک زندہ ہے اور میں محسوس کر سکتی ہوں۔ وہ زاروقطار رونے لگیں کہ مجھے بھی اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ باقی سار ے گھوم پھر رہے ہیں اور میں بیڈ پہ بے جان پڑی ہوں۔ میرے ساتھ ہمدردی میں ماں بے چینی سے رو رہی تھیں۔ لیکن میرے آنسو کسی اور تناظر میں بہے تھے۔ ماں نے فورا میری ناک کے سامنے ہاتھ رکھ کر میری سانس کی روانی چیک کی اور میری دھڑکن چیک کرنے لگی۔ ماں کی بے چینی میں محسوس کر رہی تھی۔ بے چینی ہی کیا؟ میں تو ان کے سینے کی دھڑکن اپنے سینے میں محسوس کر پا رہی تھی۔ میں انکی آنکھوں سے نکلتے آنسوؤں کی حدت بالکل واضح اپنی آنکھوں میں محسوس کر رہی تھی۔ دعاؤں میں انکے ہونٹوں کی لرزش اپنے لبوں پہ محسوس کر رہی تھی۔ میری علالت کی نوعیت کے ساتھ انکے جسم کی کیفیات، ہو بہ ہو میں بالکل محسوس کر رہی تھی۔مجھے ماں کے دکھ کا اندازہ تھا ۔
مجھے اس بات کا بھی احساس تھا کہ میری وجہ سے ان کے لئے کتنی پریشانی بنی ہوئی ہے۔ وہ تمام مصروفیات ترک کر کے دن رات میرے ساتھ رہتیں ہیں۔ مجھے سہارا دیتی ہیں ۔ میری صحت یابی کے لئے ہر وقت دعا گو رہتی ہیں۔ اپنی جوان بیٹی کو دیکھ کر ان کے دل سے نکلنے والی ایک ایک آہ مجھے واضح سنائی دے رہی تھی۔ میں ماں کی ایک ایک سانس کو اپنی سانس میں محسوس کر رہی تھی۔ انکے ہاتھوں کی حرکت کو اپنے بے جان ہاتھوں میں محسوس کر رہی تھی۔ میں ان کے ان کہے لفظ او ر بن کہی باتیں بھی سن رہی تھی۔ حتیٰ کہ انکی روح کو اپنے تن میں محسوس کر رہی تھی، انکی جان کو اپنے مَن میں محسوس کر رہی تھی۔
مجھے یہ دکھ مارے جا رہا تھا کہ بپچن میںماں نے اپنی بچی کو کیا اس لیئے سہارا دے کر بڑا کیا کہ بڑی ہو کر پھر ان کے لئے تکلیف کا باعث بنے گی اور پھر سے سہارا طلب ہو گی۔ یہ تمام احساسات میرے اندر حشر بپا کیئے ہوئے تھے۔ساتھ ہی ٹیبل پہ پڑا گلاس ٹیبل ہلنے کی وجہ سے گرا اور ٹوٹ گیا۔ ماں کانچ کے ٹوٹے گلاس کی کرچیاں اٹھانے لگیں۔ مجھ میں پھر سے ایک کیفیت طاری ہوئی ۔ یہ کیفیت ٹوٹے گلاس کی کرچیو ں جیسی تھی۔ جو مجھے بتا رہی تھی کہ یہ عارضی زندگی بالکل ایسے ہی ہے۔ کچھ پتا نہیں کہ کسی کا ہاتھ لگنے سے ٹوٹ جائے یا بے وجہ ٹیبل ہلنے سے گر کر ٹوٹ جائے۔ بہر کیف ہے تو عارضی ہی۔ مجھے یہ ساری باتیں کچھ تخیلاتی پردے پہ نظر آ رہی تھیں۔ اچھانک سے پردے آتے ۔ تخیل بھری افلام چلاتے۔ مجھے تڑپاتے ۔ اور یوں پردے گر جاتے۔
مجھے جینے کی طلب ہونے لگی تھی۔ میں جینا چاہ رہی تھی۔ مجھے مفلوج نہیں رہنا تھا ۔ مجھ میں جینے کی امید جاگ اٹھی تھی۔ میں اس ماں کی خدمت کے لئے تھوڑا سا جینا چاہ رہی تھی جو مجھے مفلوج دیکھ کر لمحہ بہ لمحہ گھٹ گھٹ کر مر رہی تھی ۔ وہ میرے لئے دل میں اتنا درد لئے تھی کہ اگر دل کھول دیا جاتا تو دنیا رنج و الم کی اس عظیم داستان سے دھنگ رہ جاتی اور اس روز کو سالانہ یوم رنج و الم کے نام سے منانے کا اعلان کرتی۔ میری ماں کے سینے میں دھڑکتا دل ، حقیقت میں درد ہی درد تھا، رنج ہی رنج تھا، کرب ہی کرب تھا۔ او خدایا۔۔۔۔! میرے آنکھوں سے پھر سے آنسو بہنے لگے اور مجھے ان کی حدت باقاعدہ کانوں تک محسوس ہوئی۔
بھائی بھی کیا رشتہ ہوتا ہے ناں؟ میرا پیارا بھائی۔۔ خدا دائمی خوشیاں دے اس کو۔ ۔ بچپن سے اکٹھے کھیلتے آئے۔ ہم بہترین دوست بھی ہیں۔ خاندان کا ہنس مکھ لڑکا تھا۔ میرے مفلوج ہوتے ہی جیسے اس کی شرارتوں کو بھی فالج ہو گیا ہو۔ جیسے اس کی تمام سرگرمیوں، تمام کھیلوں اور دیگر مصروفیات کو بھی فالج ہو گیا ہو ۔ میری وجہ سے اس پر بیتنے والی اذیت کا مجھے احساس تھا۔ میری علالت کے دورا ن وہ کبھی نہیں سویا۔ دعائیں مانگ مانگ کر اور آنسو بہا بہا کر اپنی آنکھوں کی حالت غیر کی ہوئی تھی۔ جب بھائی میرے سرہانے روتا تھا تو ان کی ہمدردی اور رنج بھری کیفیت مجھ پہ طاری ہوتی تھی۔ میں بھی ان کے گلے لگ کے رونا چاہتی تھی لیکن میں تو اپنا ہاتھ ہلانے تک سے قاصر تھی۔ بھلا ان سے ہمدردی کا اظہار کیسے کرتی؟۔
میں ان کے رنج کو ہلکا کرنے کے لئے انکے ساتھ کہیں تفریح پہ جانا چاہتی تھی۔ لیکن شان خدا کہ میں بالکل حرکت کرنے سے قاصر تھی۔ میں بھی کتنا بوجھ بن چکی تھی ان سب پر۔ کاش کہ فالج کا حملہ اتنا شدید ہوتا کہ میں سہہ نہ پاتی اور پہلے ہی لمحے جہان فانی سے چل بستی۔ تاکہ ان سب کو ایک ہی مرتبہ دکھ ہوتا۔ دفنا کر رنج کم ہو جاتا۔ یہ کیا کہ گھر میں زندہ لاش پڑی تھی۔ انکی مصروفیات اور کام کاج میں بھی رکاوٹ بنی رہی اور انہیں لمحہ لمحہ تڑپاتی رہی، رنج و الم سے نڈھال کرتی رہی، انہیں دکھ دینے کا سبب رہی۔ ان کے قیمتی آنسو بہانے کی وجہ رہی۔ خدایا۔۔! میرے اندر کا سمندر پھوٹ رہا تھا۔
اسکی موجیں ساحل سے بری طرح ٹکرا رہی تھیں۔ اسکی موجوں کی طغیانی مجھے خوف و ہراس میں مبتلا کیئے ہوئے تھی۔اس بحر کی موجیں اچھل اچھل کر سیلاب و طغیانی پیدا کر رہی تھیں۔ ٹھاٹھیں مارتا سمندر مجھ بے روح کے قلب و روح کو تڑپا رہا تھا۔ میں خود کو اپنے اہل خانہ پہ ایسا عجیب سا بوجھ سمجھ رہی تھی کہ جو خود کشی کی بھی سکت نہیں رکھتا۔میں چاہ کر بھی خود کشی نہیں کر پا رہی تھی ۔ بھلا کیسے کرتی میں تو کروٹ لینے تک کیلئے محتاج تھی۔ آخر تنگ آ کر میں نے فیصلہ کیا کہ اب کے اپنا سانس ہی روک لیتی ہوں۔ ویسے بھی بستر مرگ پہ ہی ہوں ۔ کم از کم مر کر گھر والوں کیلئے مسلسل رنج و کرب کا سبب تو نہیں بنو ں گی ناں؟ ۔ سو، میں نے سانس روکنا چاہا لیکن سانس روکنے تک کی صلاحیت مفلوج ہو چلی تھی۔۔
میری چند سہیلیاں آئیں۔ میرے پاس دائیں بائیں کھڑی ہوئیں۔ وہ مجھ سے باتیں کر رہی تھیں۔ میں ان کی باتیں سن پا رہی تھی۔ جواب دینا چاہ رہی تھی لیکن دے نہیں پا رہی تھی۔ ایک کہنے لگی ”یار کیا پتا اسے سنائی سے رہا ہے یا نہیں؟”دوسری بولی ” نہیں یار ! یہ پیرالائز ہے ۔ سن سکتی ہے۔ پر بول نہیں سکتی” تیسری نے کہا ” اللہ اسے شفا دے بہت ہنس مکھ لڑکی تھی” ان کے جانے کے بعد مجھے دنیا کے فانی ہونے کا احساس ہونے لگا ۔ جو سہیلیاں مجھے اتنا چاہتی تھیں۔ کہ یونیورسٹی کے زمانے میں میری آنکھ میں ایک آنسو نہ دیکھ پاتیں۔ ہر غم بانٹ لیتی تھیں۔ آج وہ ہی میرے پاس بے بس کھڑی رہیں۔ دنیا کی کوئی طاقت مجھے قوت گویائی نہیں دے پا رہی تھی۔ کوئی طاقت میرے اعضا کو جانبر نہیں کر پا رہی تھی۔
میں کتنی بے بس ہوں ناں؟۔ یہ خیال آتے ہی میری آنکھوں سے بے بسی کے آنسو بہہ نکلے۔ آنسوؤں کی حدت ایک بار پھر سے مجھے شدت سے محسوس ہوئی۔ میں بالکل بے بس ہوں۔ میں اپنے ہی جسم کو حرکت نہیں دے سکتی۔ میں اٹھ نہیں سکتی۔ میں بیٹھ نہیں سکتی۔ یہ سب کیا ہے؟ سب کو چلتا پھرتا دیکھ کر میرے مَن میں بھی حسرت جاگی کہ میں بھی اٹھوں۔ چلوں ۔پھروں۔۔ باہر بالکونی میں کھڑی ہو کر شہر کراچی دیکھوں۔لیکن میں بے بس ہوں۔ کیوں؟۔ آخر کیوں؟ بے بسی اور بے چینی سے میں پسینے میں شرابور ہوچلی تھی۔
میری آنکھیں جیسے آنسو بہانے کی مشین بنی ہوئی تھیں۔یہ کیفیات شدید المناک کیفیات تھیں اور وہ لمحات بہت دردناک لمحات تھے۔ پھر وقت کیساتھ ساتھ میں بہتر ہوتی گئی ۔اب فطرت کو عکس بند کرنے کیلئے پینٹنگز بنا تی ہوں۔ اب اپنے قدموں پہ چل لیتی ہوں۔ہنس کھیل لیتی ہوں۔ اب مجھے خدا کی خدائی پر پہلے سے کہیں زیادہ ایمان ہے ۔ خدا کے حکم کے سامنے سب کچھ زیر ہے۔اور بدون حکم خداوندی کچھ بھی ممکن نہیں ۔ خیر یہ انتہائی قریب الموت لمحات مجھے دو احساسات بخش گئے ۔ ٭ پہلا یہ کہ اعمال پہ کبھی رشک نہیں کیا جا سکتا ٭اور دوسرا یہ کہ موت جب لکھی ہے تب ہی آنی ہے اس سے پہلے اس کی آمد ناممکن ہے۔
تحریر: عاقب شفیق