تحریر : ایم سرور صدیقی
جلیل القدر پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام اکثر اللہ تبارک تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کے لئے کوہ ِ طور جایا کرتے تھے وہیں سے انہیں ہدیات اور احکام ملتے تھے اسی دوران حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا انتقال ہوگیا وہ کئی دن مغموم رہے آخرکار ایک دن موسیٰ علیہ السلام جب کوہ ِ طورپر پہنچے تو ندا آئی موسیٰ! جوتے اتار کر اوپر آنا موسیٰ علیہ السلام نے حیرانگی سے کہا اے باری تعالیٰ میں تو روزانہ جوتوں سمیت یہاںآتا رہتاہوں پھر آواز آئی موسیٰ! جوتے اتار کر اوپر آنا اب تمہارے لئے دعا کرنے والی ماں زندہ نہیں ہے ۔۔۔یہ ہے ماں کا رتبہ ۔۔ہم دنیا داروں کو اس ہستی کی فضیلت بتانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی کو ماںکی شان سے آگاہ کردیا۔۔۔ میاں محمد بخش نے کیا خوب کہا ہے
بھراں بھائیاں دے دردی ہندے
بھراں بھائیاں دیاں بھاواں
پیو سردا تاج ۔۔۔۔۔ محمد
ماواں ٹھنڈیاں ۔۔۔۔۔چھاواں
۔دنیا میں چند رشتے ماں ،باپ ،بہن ،بھائی ایسے ہیںجن کا کوئی نعم البدل نہیں ہے ان رشتوںکی قدر کرنی چاہیے ۔۔۔ہمارے ایک بہت پیارے دوست رضوان اللہ پشاوری بڑے اچھے لکھاری ہیں گذشتہ دنوں ان کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا انا للہ وانا الیہ ِ راجعون ہم سب ان کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں ۔۔۔انہوں نے اپنے تاثرات کااظہار اس انداز سے کیا ہے۔۔۔۔مرنے والے مرتے ہیں لیکن فناہوتے نہیں وہ حقیقت میں کبھی ہم سے جداہوتے نہیں دنیا فانی ہے ،اس میں کوئی آدمی بھی ہمیشہ کے لیے نہیں رہتا،ہر آدمی پر موت طاری ہوجاتی ہے،کسی نہ کسی دن روح اپنے جسم عنصری سے پرواز کر جائیگی،اسی طرح میں بھی منگل کے دن رات گیارہ بجے اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا کہ اچانک میرے موبائل فون پر میرے چھوٹے بھائی سبحان اللہ کے نمبر سے کال موصول ہوئی،جب میں نے کال اٹینڈ کر لیا تو وہ میرا دوسرابھائی فہیم اللہ تھے،خوب ہچکیاں لے رہے تھے میں نے کہا کہ کیا ہوا ہے مجھے بھی بتاوں نا؟تو فہیم اللہ نے کہا کہ امی جان میرے سے باتیں نہیں کر رہی ہے تو اتنے میں سبحان اللہ نے کہا کہ بھائی جان اماں جان فوت ہوگئی ہے اور جلد گھر پہنچنے کی کوشش کریں۔
میں چونکہ مدرسہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا،اور ہمارا مدرسہ بھی پشاور کے ایک طرف رنگ روڈ حیات آباد پشاور پر واقع ہے،تو مجھ سے گھر پہنچنے میں قدرے تاخیر ہوئی،جب میں نے گھر جانے کا ارداہ کیا تو اس وقت رات کے بارہ بجھ رہے تھے،رات اپنی تاریکی میںخوب کھو گئی تھی،اتنی سخت تاریک رات تھی کہ راستہ جاننا بھی مشکل تھا،مگر اللہ تعالیٰ نے بھی صبر کی اتنی توفیق عطاء فرمائی اور مخلص دوستوں نے بھی بہت دلاسا دیا ،خیر میں ادھر اُدھر ٹیلیفونک رابطوں میں مصروف ہوگیا،بالآخر استاد محترم حضرت مولانا مفتی محمد طیب صاحب اور مخلص دوستوں نے مجھے گاڑی میں بٹانے کے لیے مدرسے سے باہرروڈ پرلے آئیں تو رنگ روڈ پر اتنی خاموشی چھائی ہوئی تھی کہ چیونٹی کی رینگنے کی آواز بھی سُنائی دے رہی تھی،بالآخر اللہ تعالیٰ کی فضل وکرم سے مجھے گاڑی مل گئی کیونکہ رات اپنی آدھی سفر طے کر چکی تھی تو اکھیلے جانا مناسب نہیں تھا،اساتذہ کی مشورے سے میرے ساتھ دو دوستوں کا انتخاب کیا گیا کہ یہ دو ساتھی (مولانا مسعود جان اور مولانا حامد حسن)ان کے ساتھ چلے جائیے گیں،رات گئے میں گھر پہنچا تو والدہ ماجدہ اپنی ابدی نیند سوگئی تھی میں نے بہت آوازیں دی مگر والدہ ماجدہ نے کچھ بھی نہیں کہا ،جب میرا نظر اپنی دو چھوٹی بہنوں پر پڑا تو اور بھی حالت ابترہوگئی۔
مرحومہ کو اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء کریں،مرحومہ کی نماز جنازہ استاذالعلماء شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی غلام الرحمٰن حفظہ اللہ نے بانڈہ نبّی پبّی میں پڑھائی،اور مرحومہ کو ہمارے قومی قبرستان میں دفن کردیا گیا،مرحومہ کو قبر میںتین عظیم انسانوں نے قبر میں اتار دتا ان میں دو مرحومہ کے سگے بھائی تھے اور ایک مرحومہ کا بیٹا تھا،دوبھائیوں(حضرت مولانا عبدالطیف سکندر اور حضرت مولانایوسف سکندر)اور بیٹا(رضوان اللہ پشاوری)،وہاں پر قبرستان میں حضرت مولانا محمد بلال عابد نے چند گزارشات بیان کئے اور لوگوں کو خوب موت کی تلقین کی۔ لیکن ماں ماں ہوتی ہے اسی کے پائوں تلے جنت ہے۔حضرت لقمان حکیم نے ایک مرتبہ اپنے بیٹے سے کہامیرے بیٹے جائو دنیاسے جنت کی مٹی لے کر آجائو،وہ گیاتھوڑی دیربعد مٹی لے کر آگیا، کمال کردیاحضرت لقمان حکیم نے اوربیٹابھی تولقمان حکیم کاتھااس نے بھی کمال کردیا۔سچی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ برتن میں دیکھ کر مکھن ڈالتاہے لقمان حکیم نے اپنے بیٹے سے کہامیرے بیٹے !دنیامیں کہاں سے جنت کی مٹی لے کر آیاہے؟بیٹے نے کہاابوجان ! میں نے اپنی ماں کے قدموں کے نیچے سے مٹی اٹھائی ہے یہ حقیقت ہے کہ یہ مٹی جنت کی ہے،لقمان حکیم نے بیٹے کوشاباش دی۔ حضرت مولاناقاضی محمدزاہدالحسینی بہت بڑے عالم اور سچے عاشق رسول تھے ،یہ وہ عالم دین ہے جب دنیاسے وصال فرماگئے قبر میں اتاراگیاچند لمحات کے بعد ان کی قبر پر خود بخود سبزہ پیداہوگیانبی کریم سے سچی محبت کی دلیل ہے ۔وہ جب کسی کی ماں کی فوتگی پر تعزیت کے لیے تشریف لے جاتے تویہ جملہ کہتے ”بھلیاماواں ختم نیہ ہوندیاں ”ایک جہاں سے دوسرے جہاں منتقل ہوجاتی ہیں ان کی دعائیں اولاد کے لیے جاری رہتی ہیں۔
خوش نصیب وہ ہیں جونیک لوگوں کے نمازجنازہ میں شریک ہوتے ہیں کبھی یوں بھی ہوتاہے کہ جنازہ میں شرکت کی وجہ سے معافی مل جاتی ہے اور جنازہ پڑھنے والوں کی بخشش کر دی جاتی ہے۔نمازجنازہ میں کتناپیاراجملہ ہے اللھم اغفر لحینا:اے اللہ ہمارے زندوں کی بخشش فرما۔مرحومہ ایک نیک اورزندہ دل خاتون تھیں۔مرحومہ کے شوہر ایک جامع الصفات انسان تھے ۔مرحومہ کے لیے ان کی نیک اولاد بھی صدقہ جاریہ ہے ۔میں تمام حضرات سے اپیل کرتاہوں کہ جن کے ماں فوت ہوچکی ہیں ہر وقت ان کے لیے دعاکیاکریں ۔جن کے ماں باپ زندہ ہیں وہ ان کی خوب خدمت کریں ہم نے جوکچھ پایاہے وہ ماں باپ کے جوتوں کے صدقے پایاہے ،انسان کے لیے موجودہ دور میں ماں وباپ کی عظمت کوسامنے رکھ کرزندگی بسر کرناعبادت کااعلیٰ مقام ہے ۔اللہ تعالیٰ کاحکم ہے کی میری عبادت کی جائے اورماں باپ کی اطاعت کی جائے ۔ آج مرحومہ کی جدائی ہم سب کودعوت فکر دے رہی ہے کہ”توبہ کرو”رب کی عبادت کرواور نبی کریم کی اطاعت کرواسی میں دونوں جہانوں کی کامیابی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہماری والدہ ماجدہ کی مغفرت کرکے ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقامات عطاء فرمائے،اور ان کوآقائے نامدار کی شفاعت نصیب فرمائے۔(آمین)۔ایک مفکرنے کہاہے ماں کے بغیر گھر قبرستان کی مانند لگتاہے۔۔دنیا میں چند رشتے ماں ،باپ ،بہن ،بھائی ایسے ہیںجن کا کوئی نعم البدل نہیں ہے ان رشتوںکی قدر کرنی چاہیے قارئین سے التماس ہے کہ وہ رضوان اللہ پشاوری کی والدہ محترمہ کے درجات کی بلندی کے لئے اللہ کے حضور خصوصی دعا کریں یقینا ہر زندہ نے موت کا مزا چکھناہے زندگی کی سب سے بڑی سچائی موت ہے اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہیے اور جو اس بات کو فراموش نہیں کرتے وہی دین و دنیا میں سرخرو ہوتے ہیں۔
تحریر : ایم سرور صدیقی