تحریر: عبدالباسط معصومی
ایک غریب کنبہ پانچ افراد پر مشتمل تھا ،میاں بیوی اور تین بچے ۔سب سے بڑا بیٹا اور پھر دو بیٹاں۔۔ ۔باپ غریب تھا مگر اس نے اپنے بچوں کو بڑے نازونعم سے پالا تھا ۔زندگی مفلسی اور اطمینان کے ملے جلے دھوپ چھائوں کے موسم میں گزر رہی تھی کہ اچانک ایک دن بچوں کے باپ کو بیماری نے آلیا ۔علاج معالجہ اور تعویذ دھاگے۔۔۔ جس قدر استطاعت تھی ؛کیا ۔مگر طبیعت تھی کہ سنبھلنے پر آمادہ نہ تھی ۔تھوڑی بہت جمع پونجی علاج پر چڑھا دی اور اب گھر کا راستہ فاقوں نے دیکھ لیا۔ چند دن اور گزرے کہ خاندان کا واحد کفیل بیماری کے ہاتھوں شکست کھا گیا۔ محلے والوں اور رشتہ داروں کو خبر ہوئی۔۔۔ لوگ جمع ہوئے۔۔۔ غم زدہ بیوی اور بچوں کے ساتھ ہمدردی کی گئی ،مرحوم کی تجہیر و تکفین کے بعد دیگیں پکیں ۔۔۔ گردو نواح میں تقسیم ہوئیں ۔۔۔
مرحوم کی چھوٹی بیٹی جو دو دن سے بھوک سے لڑ رہی تھی اُس نے بھی آج پیٹ بھرکے کھانا کھایا ۔اُس معصوم بچی کو یہ ادراک کہاں تھا کہ میرے والد کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا ہے ،آج سب ہمارے گھرکیوں جمع ہیں اور یہ آج اتنی دیگیں کیوں پکائی جا رہی ہیں۔ بس اس کے ذہن میں کسی کے منہ سے سُنے ہوئے یہ الفاظ اُتر گئے تھے کہ” تمہارے ابو مر گئے ہیں” ۔تدفین مکمل ہوئی تو کچھ دوست احباب اور دور کے رشتے دار اُسی وقت واپس ہو لیے اور کچھ جو قریبی ہونے کے دعویدار تھے انہوں نے جانے کا پروگرام اگلے روز تک کے لیے موخر کر دیا ۔دو چار روز میں سب اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے۔۔۔اب پھر وہی گھر، وہی ماں اور بچے۔۔۔اداسی اور فاقوں کا ڈیرہ۔ ماں نے جیسے تیسے ہفتہ بھر بچوں کا پیٹ پالامگر کہاں اور کب تک ۔۔۔آخر پھر نوبت بھوک اور فاقوں تک آگئی۔ بچیوں نے بھی کئی دنوں سے خوراک کا ایک لقمہ تک حلق سے نہ اُتارا تھا۔
بھوک کے باعث بڑا بیٹا بیمار ہو گیا ،ڈاکٹر سے اُدھار دوا دارو تو کیا مگر ڈاکٹر نے کہا ”اسے خوراک کی کمی کا سامنا ہے اس کے کھانے پینے پر توجہ دیں”۔ایسا نہ ہو سکا اور بیٹے کی حالت بدستور ابتر ہوتی گئی ۔ایک رات ماں اپنے شوہر کی موت کے غم کو سینے سے لگائے بیمار بیٹے کو دوا دینے کے بعد بھوک کی ماری بچیوں کو بہلا پھسلا کر سلانے کی کوشش کر رہی تھی کہ چھوٹی والی نے کہا ”اماں !تم سے ایک بات پوچھو ں؟۔۔۔ماں نے کہا ہاں بیٹا پوچھو۔۔کیا بات ہے؟تو بیٹی بولی ”اماں!۔۔۔ بھائی کب مرے گا؟” ننھی زبان سے یہ الفاظ نکلنے تھے کہ ماں کا کلیجہ منہ میں آگیا۔ جگر چھلنی اور دل ودماغ مائوف ہو گئے کہ یہ بچی نے کیا کہہ دیا ۔۔۔چند لمحوں کے بعد دکھ سے رِندھی ہوئی آواز میں ماں نے کہا۔۔۔بیٹا تم ایسا کیوں کہہ رہی ہو۔ ۔۔ایسا نہیں بولتے۔۔۔ دعا کرو تمہارا بھائی جلدی ٹھیک ہو جائے ۔تو بیٹی طوطلی زبان میں لفظوں کو مسلتی ہوئی بولی” ماں۔۔بھائی مرے گا تو بہت سے لوگ آئیں گے اور بہت سا کھانا بنائیں گے پھر میں اتنا۔۔۔۔۔سارا کھانا کھائوں گی” ۔ماں جو گہرے رنج میں ڈوبی ہوئی تھی اور بیٹی کی زبان سے نکلتے ٹوٹے لفظوں کی کرچیاں سینے میں چبھتی محسوس کر رہی تھی بولی” بیٹا۔۔
دعا کرو تمہارا بھائی جلدی ٹھیک ہو جائے پھر اسے کسی موٹر مکینک کے پاس چھوڑ آئو ںگی کام بھی سیکھے گا اور تمہارے لیے کھانا بھی لائے گا” ۔آپ میں سے ہر کوئی دل رکھنے والے والدین اس ماں کی حالت سمجھ سکتے ہیں کہ جب بیٹی نے یہ الفاظ کہے ہوں گے تو ماں کے دل پر کیا گزری ہو گی۔ زمانے کا ہر دکھ اس دکھ کے سامنے چھوٹا محسوس ہوتا ہے جو اس لمحے بیٹی کے الفاظ سن کر دامن گیر ہوا ہو گا۔میں سوچ رہا تھا کہ ہمارے ملک میں کتنے ہی ایسے غریب ، مفلس، یتیم اور لاچار ہوں گے جن کی درد کہانی کسی نہ کسی طرح اس ماں کے دکھ سے مشابہہ ہو گی۔
کتنے ہی ایسے یتیم بچے ہوں گے جو بھوکے سونے پر مجبور ہوں گے، کتنی ہی مائیں ایسی ہوں گی جو اپنے بچوں کو جھوٹی تسلیاں دے کر سُلا دیتی ہوں گی ۔میرے ذہن کے اُفق پر دورِ عمر فاروق کا ایک واقعہ اُبھر رہا ہے کہ ایک دفعہ جب حضرت عمر فاروق رات کو بھیس بدل کر اپنے معمول کے گشت پر تھے کہ ایک گھر سے بچوں کے رونے کی آواز آ ئی، معلوم کیا تو پتا چلا کہ گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہے، ماں نے پتھر پانی میں ڈال کر چولہے پر چڑھا دیئے ہیں کہ بچے سمجھیں کے کھانا تیار ہو رہا ہے اور پھر ایسے ہی تسلی دے کر بچوں کو سلا دوں گی۔ عمر فاروق وہاں سے فوراًنکلے اور سیدھا بیت المال گئے
، گندم کی بوری اپنے کندھوں پر اُٹھا کر اس غریب کی کُٹیا تک لے کر آئے اور کہا میں تمہارے لیے گندم لایا ہوں اسے پکائو اور بچوں کو اُٹھا کر کھانا کھلائو ۔کیا ہی خوب ہو کہ ہم بھی اپنے رشتہ داروں ،محلے داروں اور عزیزواقارب میں یتیم ونادار بچوں کا خیال رکھیں ،اپنی کمائی میں سے ان کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور الگ کریں، ممکن ہو تو ان کے لیے مستقل ذریعہ آمدن متعین کریں ،ہوسکے تو وقتاً فوقتاً ان کی دلجوئی اور خبر گیری کریں ،فلاحی ادارے اور این جی اوزایسے لوگوں کی فہرست مرتب کریں ،نہ صرف عید تہوار پر ان کی معالی معاونت کریں بلکہ سال کے دیگر ایام میں بھی ان سے روگردانی نہ کریں، ہم اپنی زکوة،صدقات اور فطرات جیسے فرائض سے بڑھ کر قرض ِحسنہ کی طرف جائیں، حکومتیں اپنے نظام کے اندر شفافیت پیدا کریںکہ جو مال غرباکے لیے مخصوص کیا جاتا ہے وہ لٹیرے لے اُڑتے ہیں اورغریبوں تک ان کا حق نہیں پہنچتا ،امدادی پیکجز کی صاف شفاف تقسیم کو یقینی بنائیں بلکہ امداد سے بڑھ کر اُن کے لیے مستقل ذرائع اختیا رکیے جائیں۔
ہمارے ہاں ایسا کوئی نظام وضع نہیں کیا گیا کہ جس میں اگر کسی کنبے کے ذرائع آمدن کسی نا گہانی کی صورت میںاچانک بند ہو جائیں تو وہ اپنی زندگی کا پہیہ کس طرح رواں رکھیں ، بجائے اس کے کہ وہ کلی طور پر لوگوں کے رحم وکرم پرہوں۔ حکومت ایک ایسا طریقہ کار بنائے جس کے ذریعے ان کی مالی مدد ہو،تا وقتیکہ ان کے لیے کوئی دوسرا سبب پیدانہ ہو جائے ۔ہم اگر یہ چھوٹے چھوٹے اقدامات کرنے میںکامیاب ہو گئے تو بہت حد تک ہم اس طرح کی غم اندوہ داستانوں سے اپنے آپ کو محفوظ کر لیںاور اس طرح ہمارے معاشرتی حسن میں بھی اضافہ ہوگا۔
تحریر: عبدالباسط معصومی