تحریر : انجینئر افتخار چودھری
آج مدر ڈے تھا سارا دن ماں کی عظمت اور اس کی خدمات پر سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا روشنی ڈالتا رہا۔میں نے بھی اپنی بے جی کو یاد کیا جو بیٹے کے دکھوں کے ہاتھوں اس دنیا سے چلی گئیں۔بہت لکھا اس موضوع پر دکھ کیا تھا ان کا یہ نالائق بیٹا جدہ جیل میں پڑا رہا اس دوران بلند فشار خون انہیں مارتا رہا جنرل مشرف کے گھٹیا دور مین کنٹینروں میں بند افغانوں کو مارے جانے ڈاکتر عافیہ جیسی بیٹیوں کو ڈالروں کے عوج امریکی مارکیٹ میں بیچے جانے کے علاوہ ہمیں بھی جدہ میں ترحیل میں بند کروایا گیا وجوہات کیا تھیں؟ آپ کو ہمت کیسے ہوئی جرنیل کے سامنے بولنے کی ؟یہ جرنیل بڑی ڈھاڈی چیز ہوتے ہیں جئے تو لاکھ کا ریٹائرمینٹ کے بعد سوا لاکھ کا۔ سچ پوچھیں جب وہ دن یاد آتے ہیں تو مجھے ہزار پانامہ لیکس والے ان سے بہتر دکھائی دیتے ہیں۔
ان لیکس سے مجھے پورا یقین ہے دھرنے کی طرح ہر کوئی اپنا ریٹ چڑھائے گا۔ ملا ایک اور وزارت داڑھی منے کوئی اور سہولت اور وردی والے چوکھا حصہ ۔کچھ ایسے ہوں گے کہ ونڈی دی شیرینی میں اپنے بھرا کا حصہ بھی مانگے گا نائی کی چادر چرانے والے بھی اور عدل لہو لہو کا نعرہ لگانے والے بھی۔ان ظالموں کے سینے کے اندر دل نہیں پتھر ہوتا ہے۔
اس موضوع پر لکھنا شروع کروں تو کتابیں لکھ ڈالوں۔سیاست دان کو تو آپ ماں بہن کی گالی بھی دے لو تو برداشت کر لیتا ہے وردی والوں کے خلاف بول کے تو دیکھو۔اس ساری کتھا کہانی کے پیچھے مدر ڈے ہے مائوں کا عالمی دن۔یہ کس نے کہاں کب منایا مجھے علم نہیں لیکن ماں کے دن پر جتنا پیار جتنی محبت دیکھنے سننے میں آئی اس کا عشر عشیر اس معاشرے میں نظر نہیں آتا۔کاش بازاروں گلیوں میں بوڑھی عورتیں نہ ہوتیں۔یقینا ان کے بھی بیٹے ہوں گے۔ انہوں نے بھی لوریاں دی ہوں گی منتیں مانی ہوں گی صدقے دیے ہوں گے۔
ہاتھ پھیلاتی یہ مائیں اس معاشرے کے منہ پر تھپڑ ہیں میرا دل کرتا ہے الفاظ میں اتنی گالیاں بکوں کے لوگ مجھے حسن نثار سمجھیں۔ہے بھی سچ اور ہے بھی صیح۔اس مدر ڈے پر بھی کئی مائوں کی آنکھوں مین آنسو اترے ہیں کئی مائیں معاشرے کی بے حسی پر ماتم کرتی ان بازاروں اور گلیوں میں نظر آتی ہیں۔لعنت اس اولاد پر جو ان عورتوں کو بازاروں تک لے آئی۔یہ تو وہ عورتیں ہیں جو اس چنگل کو توڑ کر نکلیں اور ہاتھ پھیلا دیا میں آج ان بزدل مائوں کا بھی ذکر کروں گا جو گھروں میں مقید اپنے خاوندوں اور اولاد کی عزت بچانے کے چکر میں خاموشی سے کڑھ کر جی رہی ہیں۔
مجھے وہ دن یاد آتے ہیں جب بے جی بیمار ہوا کرتیں اور انہیں کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی بات کی جاتی تو کہتیں نہیں میں بلکل ٹھیک ہوں سبز چائے کا قہوہ بنا دیں میں ٹھیک ہو جائوں گی اور سبز چائے کے قہوے پر زندہ رہنے والی مائیں مر نہیں گئیں آج بھی ہیں فرق صرف یہ ہے کہ میری ماں مر گئی میں اس کی عظمت کے گن گانے لگا دراصل ان سے محبت کا اظہار کر کے مین اپنے آپ کو عظیم دکھا رہا ہوں۔
بہوئوں کے ہاتھوں زلیل ہوتی ان مائوں کا ذکر کیوں کیا جاتا جو پس کے رہ گئیں۔عورت عجیب چیز ہے ساری زندگی گھر کی تلاش میں رہتی ہے ایک مشہور کہانی ہے کہ جب وہ جنم لیتی ہے تو باپ کے گھر میں جوان ہوئی بیاہی گئی خاوند کے گھر میں خاوند مرا تو بیٹے کے گھر میں۔ہان اس کا اپنا گھر قبر ہے۔
ہم نے اس عورت کے ساتھ ہر موڑ پر زیادتی کی۔پاکستان کے ان کووں کے نام صرف یہی پیغام ہے کہ زندہ مائوں کو قبر میں اتارتے ہو ان کے آنسوئوں کا خیال نہیں رکھتے ہو۔والدین جنہوں نے آپ کے کل کے لئے سب کچھ دان دیا ہو وہ آپ سے دوائیوں کا بل مانگتے ہوں۔
لعنت ہے تمہاری اس سخاوت پر،شرم آنی چاہئے تمہیں اس زندگی کر اپنی اپنی بیویوں کی بغل میں گھس کر زندگی بسر کرنے والے جب مدر ڈے پر مجھے کوئی پیغام دیتے نظر آتے ہیں تو جی چاہتا ہے لا لتر لوں اور سینک کر بندر کی پشت بنا دو آپ کے حصہ ء موئخرہ کو۔ مائیں مرنے کے بعد قابل احترام ہوئیں تو کیا ہوئیں۔
کتنی مائیں ہیں جنہیں ہر روز بیویوں کی شکائت پر الگ کمرے میں بٹھا کر س ج کیا جاتا ہے ماں ساری زندگی بیٹوں کے عیب چھپا کر زندگیاں خرچ کر دیتی ہیں۔کسی نے ماں سے پوچھا کہ آپ کو کھانے میں کیا پسند ہے جواب دیا جو بچ جائے۔ بچا کھچا دینے والوموت کے بعد جو ٹسوے بہائو گے زندگی میں میز پر بٹھا کر کیوں نہیں کھلاتے۔
ماں کے قدموں میں جنت ہے ان ناہنجاروں کا بس چلے تو بنوری تائون سے درخواست کر دیں کہ بیوی کو ماں کا درجہ دیا جا سکتا ہے؟تا کہ جس کے قدموں میں زندگی بسر کی جا رہی ہے اسی کے صدقے جنت لے لیں۔مدر ڈے پر یہ منفرد کالم ہو سکتا ہے کئیوں کی آنکھیں کھول دے کئی ایسے فراڈئیے جو ماں کی موت کے بعد ڈرامے کریں گے۔
تحریر : انجینئر افتخار چودھری