آج اگــــر کســـی بیـــــٹی کی عزت تمہارے لئــــــے ٹائـــــم پاس ہــــــے تو کل تمہاری بـــــیٹی خود کـــــسی کــــے لئــــے ٹائم پاس ہوگی
تم سوچتے ہو کہ میں صرف تمہاری ماں ہوں مگر اس سے بھی پہلے میں ایک عورت ہوں اورکوئی مرد کسی بھی عورت کو اپنے برابر سمجھنے کو تیار نہیں۔ چاہے وہ اس کی سگی ماں ہی کیوں نہ ہو۔ ہم عورتیں بھی پتا نہیں کس خمیر سے بنی ہوئی ہیں کہ کبھی بیٹی کی پیدائش کی دعا ہی نہیں کرتیں۔ ہاتھ جب بھی اٹھتے ہیں ایک ہی دعا ہوتی ہے, خدا بیٹا دے۔ وہ بیٹا جس نے بڑے ہو کر اپنی من مانی ہی کرنی ہوتی ہے۔ جس نے کبھی بھی عورت کو احترام کی نظر سے نہیں دیکھنا ہوتا۔
جس نے بڑے ہوتے ہی ماں باپ کو بھول کر دوستوں کی محفلوں میں گم جانا ہوتا ہے۔ جس نے تعلیم حاصل کر کے اپنی روزی روٹی میں لگ جانا ہوتا ہے۔ جس نے بڑے ہو کراپنے باپ کے کاروبارکو سنبھالنا ہوتا ہے۔ زندگی خوشیاں بھی دیتی ہے مگر ایسی خوشی جس میں کوئی بیٹا اپنے ماں باپ کو شریک نہ کرے, وہ خوشی تو نہ ہوئی نا۔ کاش کوئی بیٹا یہ بھی سوچے۔
تمہاری طرح میں نے بھی سوشل میڈیا پر ایک اکاؤنٹ بنایا ہے جس پر میں نے تمہیں فالو بھی کر رکھا ہے۔ ظاہر وہ اکاؤنٹ میں اپنے نام سے تو نہیں بنا سکتی نا۔ میرا اکاؤنٹ میرے بھائی کے نام سے ہے۔ کیا کریں ہم عورتیں مجبور بھی تو کتنی ہوتی ہیں۔ شادی سے پہلے باپ اوربھائی کے نام سے جانی جاتی ہیں اور شادی کے بعد اپنے شوہر اور بیٹے کے نام سے۔ یہی زمانوں سے عورت کا مقدر ہے لیکن میں چاہتی ہوں تم اپنی بیوی کا نام تبدیل نہ کرو۔
بے راہ روی معاشرے میں عام ہے۔ ایسے مرد کو عیاش کہتے ہیں اور عورت کو بدچلن لیکن مرد کی عزت عزت رہتی ہے اورعورت بدنام ہو جاتی ہے۔ یہ سوچ غلط ہے۔ میں چاہوں گی کہ تم جس سے بھی ملو اس کی عزت کرو۔ میں تمہیں کسی غلط کام میں دیکھنا نہیں چاہتی۔ وجہ تم خود سوچو کہ جب بھی کوئی لڑکا کوئی غلط کام کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں اس کی اپنی ماں بہن نہیں جو اوروں پر غلط نظر ڈالتا ہے۔ یہ جو بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات پیش آتے ہیں ان کے پیچھے بھی ماں باپ کی تربیت ہی ہوتی ہے. کوئی ماں اپنے بچوں کی تربیت ہی جب ٹھیک سے نہ کرے تو وہ بڑاہو کر خراب ہی ہوگا نا۔
تم سب کی عزت کرو۔ کسی لڑکی کو دیکھو تو سوچو تمہاری بہن بھی تو ہے جس پر لوگوں کی نظر پڑتی ہوگی۔ میں نے دیکھا تم سوشل میڈیا پر کسی سیاسی جماعت کے کارکن بن گئے ہو۔ میں سمجھتی ہوں ایسے میں تمہیں کچھ نصیحت بھی کروں۔ تم اپنی جماعت کی لڑکیوں کی عزت کرو جیسے اپنی بہن کی عزت کرتے ہو۔ آخروہ تمہاری جماعت کیلئے سوشل میڈیا پر اپنا قیمتی وقت جودے رہی ہے۔
میں ان بچیوں کو کام کرتا دیکھتی ہوں تو خوشی ہوتی ہے کہ وہ ہماری نسل کی طرح ڈرپوک نہیں بلکہ وہ کھل کر بات کرتی ہیں۔ یہ اعتماد جو ان میں ہے اسے کبھی تم اپنی ٹیم کی لڑکیوں میں کم نہ ہونے دینا۔ میں نے دیکھا دوبہنیں عنبرین ماریہ چودھری اورانیحہ انعم چودھری بھی ایکٹیو ہیں۔ عنبرین ماریہ نے اپنی ایک ٹوئٹ کو پِن کیا ہے جس میں لکھا ہے ”آج اگرکسی بیٹی کی عزت تمہارے لئے ٹائم پاس ہے تو کل تمہاری بیٹی خود کسی کے لئے ٹائم پاس ہوگی”۔
یہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو سمجھانے کیلئے ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر عالیہ کریم نے اپنی ایک ٹوئٹ کو پِن کیا ہے جس میں لکھا ہے ” یہ جو کہتے ہیں لڑکیاں پڑھ کر کیا کریں گی۔ وہ اپنی عورتوں کےآپریشن کے وقت لیڈی ڈاکٹر نہ ڈھونڈا کریں ”۔
کاش مرد حضرات اس بات کو سمجھیں اور اپنی بیٹیوں کو تعلیم دیں بلکہ دوسروں کی تعلیم یافتہ بیٹیوں کی بھی عزت کرنا شروع کر دیں۔ صحافی تحریم عظیم نے ٹوئٹ میں سوالیہ انداز میں لکھا ہے”حوا کی بیٹی پر ہمیشہ ظلم ہی ہوتا آیا ہے۔ آ خر یہ آدم کے بیٹے انسان سے جانور کیسے بنے؟”
جانور سے انسان بنانے کیلئے ہی تو میں تمہیں یعنی اپنے بیٹے کو یہ نصیحت کررہی ہوں۔
سوشل میڈیا پرمختلف سیاسی جماعتوں کی خواتین میں عابدہ منیر اور روحیدہ ملک، گل بخاری، سیدہ شہلا، سلک لودھی، مسزانجم آراء، مس فائزہ (لیگی نوابزادی)، ڈاکٹر ہما سیف، صفینہ شیخ اورملیحہ منظور، مدیحہ نقوی، جہاں آراء وٹو، صبا حیدر اور روما وٹو فعال ہیں۔ غیر سیاسی خواتین میں روبینہ، ثروت علی اور شینا کے علاوہ بھی ہیں جن کے نام بھی یاد نہیں۔ اب تم سوچو گے مریم نواز کا نام تو لکھا ہی نہیں۔ وہ تو سوشل میڈیا کی پہلی فعال خاتون رہنما ہیں۔ ان کی ٹیم کی صائمہ فاروق بھی بہت کام کرتی ہے۔ اسی طرح نفیسہ شاہ بھی اپنی جماعت کو سوشل میڈیا پر فعال کر رہی ہیں۔ اتنی خواتین کے نام اس لئے لکھے تاکہ تمہیں اندازہ ہو کہ اب لڑکیاں تم لڑکوں سے کسی طرح کم نہیں ہیں بلکہ اب تو وہ رہنمائی بھی کر رہی ہیں ان سے سیکھو نا کہ انہیں اپنا حریف سمجھو۔
تم کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے کام کرومگر دوسری جماعت کی لڑکیاں ہوں یا لڑکے ان کی عزت کرنا نہ بھولنا۔ جو لوگوں کوصرف کڑوا پن دیتا ہے اسے سوشل میڈیا پر وہی ملتا ہے جو وہ دوسروں کو دیتا ہے۔ اپنے دل میں تنگی اور نفرت کی جگہ کشادگی اورمحبت رکھو۔ رویے میں سختی کی جگہ نرمی اور الفاظ میں تلخی کی جگہ مٹھاس رکھو گے توسوشل میڈیا کی دنیا میں مخالف جماعت کے کارکن تم سے نظریاتی اختلاف تو رکھیں گے مگر دل سے تمہاری عزت کریں گے۔