کراچی…….دنیا کے ترقی یافتہ براعظم کی حاملہ خواتین جن کے لیے ایسی حالت میں چلنا بھی مشکل ہوتا ہے، ہمسایہ ملک کا سفر کرتی ہیں۔ واپسی پر ان کے بچے نہ تو پیٹ میں ہوتے ہیں اور نہ گود میں۔ البتہ ان کی جیبوں میں 2سے ساڑھے 3ہزار یورو کی رقم ضرور ہوتی ہے۔
جرمن خبررساں ادارے نے لکھاکہ یہ بہت پریشان کن تفصیلات کسی ایک واقعے کی نہیں بلکہ ایک ایسے رجحان سے متعلق حقیقی اعداد و شمار ہیں جس کی تردید ناممکن ہے اور اب تک ایسے کوئی ایک دو نہیں بلکہ درجنوں واقعات دیکھنے میں آ چکے ہیں۔فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق ایسے واقعات کسی بہت ہی غریب افریقی یا ایشیائی ملک میں نہیں بلکہ براعظم یورپ میں دیکھنے میں آ رہے ہیں اور ان کے محور دو ایسے ملک ہیں جو یورپی یونین کے رکن بھی ہیں: بلغاریہ اور یونان!مشرقی یورپی ملک بلغاریہ کے روما نسل کے خانہ بدوشوں کی آبادی والے گاؤں کے کئی والدین اپنے نومولود بچوں کو ہمسایہ ملک یونان میں پیدائش کے فوری بعد فروخت کر چکے ہیں۔اے ایف پی نے لکھا ہے کہ بُرگاس اور اس کے نواحی علاقوں میں رہنے والے غریب خاندانوں نے اپنے نومولود بچوں کی تجارت کا کام قریب 15 برس قبل شروع کیا تھا۔ اب یہ غیر قانونی اور مجرمانہ تجارت بلغاریہ کے کئی دوسرے علاقوں میں بھی پھیل چکی ہے۔2015ء میں بُرگاس میں رہنے والی حاملہ خواتین نے کم از کم 33 واقعات میں یونان جا کر اپنے بچوں کو جنم دیا اور پھر وہیں ان نومولود بچوں کو فروخت کر کے واپس لوٹیں۔عورتوں کو اپنے بچے فروخت کرنے پر ملنے والی رقم ساڑھے تین ہزار لِیوے (بلغاریہ کی کرنسی) سے لے کر سات ہزار لِیوے تک ہوتی ہے، جو 1800 سے لے کر 3500 یورو تک بنتی ہے۔ یہ رقم عام طور پر اس مجموعی رقم کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہوتی ہے، جو ایسی خواتین کے یونانی بے اولاد جوڑوں کے ساتھ رابطے قائم کرانے والے ایجنٹ وصول کرتے ہیں۔پھر بھی دو ہزار سے لے کر تین ہزار یورو تک کی یہ رقم ایک ایسے ملک میں بہت بڑی رقم ثابت ہوتی ہے، جہاں ایک عام مزدور کی ماہانہ آمدنی صرف 400 یورو کے برابر بنتی ہے۔