تحریر:محمد قاسم حمدان
سمجھوتہ ایکسپریس کا قیامت خیز سانحہ ہویا انڈین پارلیمنٹ پر حملہ کا ڈرامہ یا پھر بمبئی حملہ کا شوروغوغا بھارت کے میڈیا نے ہرجگہ ہمیشہ اپنی فطرت کے مطابق جلتی پر تیل ڈالنے کاکردار اداکیاہے۔ بھارتی میڈیا کی شرانگیزیوں کا ہی یہ کیا دھراتھاجب واجپائی نے اپنی افواج پاکستان کی سرحد پرلاکھڑی کیں۔جنگ کے ماحول کو گرمانے بلکہ دونوں ملکوں کوایٹمی جنگ کی بھٹی میں جھونکنے کے لیے بھارت کے میڈیا نے ایڑی چوٹی کازور لگادیا۔ بھارتی میڈیا نے نفرت کاالاؤ پاکستان بھارت سرحد پرتودہکاہی رکھاہے لیکن اس کی شرانگیزی سے کھیل کے میدان تک محفوظ نہیں ہیں۔آزاد پاکستان میں رہتے ہوئے بھارت کے میڈیا کی لگائی ہوئی آگ کی تپش ہمیں اس قدر محسوس نہیں ہوتی جتنی ہندوستان میں بسنے والی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو برداشت کرنی پڑتی ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کے خون سے جو ہولی کھیلی گئی’ اس کاراستہ جنونی ہندؤوں کو وہاں کے میڈیانے ہی دکھایا تھا۔ آج وہاں مسلمانوں کو شدھی بنانے کی تحریک بھی وہاں کے میڈیا نے ہی گرما رکھی ہے۔بھارتی میڈیاکا یہ بھیانک کردار کوئی نئی بات نہیں بلکہ جب ہندوستان کے مسلمانوں نے ہندؤوں کے خطرناک ارادوں کو بھانپ کر علیحدہ ملک کی راہ کاچناؤ کیا توان کی راہ میں کانٹے بونے میں بھارتی میڈیا نے کلیدی کرداراداکیا۔
شاعرمشرق علامہ محمداقبال نے ہندؤوں کے روئیے کو دیکھ کر 29دسمبر1930ء کومسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں تصورِپاکستان پیش کیا۔ علامہ محمد اقبال کا خطبہ ہندؤوں کے تصور قومیت یاہندوستان میں ہندوراج کے قیام پر سب سے پہلی فاتحانہ ترکتاز تھی۔ خطبہ الہ آباد کے بارے مولاناغلام رسول مہر نے لکھا’ ہندو اپنی سلطنت کے جس خواب کو عملی صورت میں تعبیر کے قریب پہنچا ہوا سمجھتے ہیں، اقبال نے اس کا تاروپود بکھیردیاہے۔ گاندھیوں اورنہرؤوں نے قومیت وجمہوریت کی صدہافریب کاریوں اور فریب آرائیوں کے ساتھ ہندوستان کی تمام غیرہندو اقوام کے گلے میں پھانسی کا پھندہ ڈال کر یہاں ایک خالص ہندو سلطنت کی جو عمارت کھڑی کرنا چاہی تھی حضرت اقبال نے اس سلطنت کے قیام کی تمام خفیہ سازشوں کے مکروہ اور بھیانک چہرے کو عالم آشکار کر دیا۔ (انقلاب جنوری 1931ئ) علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد کے بعد ہندو میڈیا نے اپناپھن پھیلاکر ان کے خلاف زہراگلنا شروع کردیا۔ روزنامہ ٹریبیون نے لکھاکہ چونکہ اقبال کو پہلی گول میز کانفرنس میں مدعونہیں کیاگیاتھا’لہٰذا انہوں نے انتقامی کارروائی کے طورپرکانفرنس کوتباہ کرنے کے لیے یہ خطبہ دیا۔ لاہور سے شائع ہونے والے ایک مشہور متعصب اخبار پرتاپ نے خطبہ الٰہ آباد پرجواداریہ لکھا ‘اس کا عنوان تھا’ شمال مغربی ہندوستان کاایک خطرناک مسلمان ۔اس میں علامہ اقبال کوجنونی’شرارتی’متعصب’ زہریلا’تنگ نظر اور کمینے کے القاب تک سے نوازا گیا۔
روزنامہ انقلاب نے 15جنوری1931ء کو لاہور کے ایک ہندو اخبار کا بیان نقل کیا کہ اقبال ہندؤوں کا ملک ان سے چھین کر مسلمانوں کے حوالے کرناچاہتا ہے۔ الٰہ آباد کے انگریزی اخبارلیڈر نے لکھاکہ اقبال نے وفاقی حکومت کے تصور پرحملہ کیاہے۔ بنگالی سیاستدان پین چندر پال نے اپنے مضمون میں زہرافشانی کرتے ہوئے لکھا کہ اقبال اوران کے ساتھی عالم خواب میں پھراس زمانے کا مزہ لیتے ہیںجب ہندوستان مسلمانوں کے قبضے میں تھا۔ اب حالات بدل چکے ہیں اوروہ لوگ بھی اس قابل نہیں رہے کہ اب ہندوستان میں مغل یاپٹھان راجیہ قائم کرنے میں مدد دے سکیں۔ آج ہندوستان کا میڈیا آر ایس ایس اورجنونی ہندؤوں کی طرف سے اقلیتوں کوجبر اً ہندو بنانے کی مہم کو خوب اچھال رہاہے۔ بڑے بڑے مضامین ‘تجزیے اور خبریں مسلمانوں کو ہندومت اختیار کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔”لوجہاد”اور ”لوڈرگز” کے ذریعے خوف وہراس پھیلاکر ہندومت کو جبراً مسلط کر رہے ہیں۔اس مہم کا نام انہوں نے گھرواپسی رکھاہواہے۔ جب ہندو کو یہ یقین ہوگیا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد ہندوستان پکے ہوئے پھل کی طرح ان کی جھولی میں آگرے گاتوانہوں نے اس وقت بھی سنگھٹن اور شدھی کی تحریکیں شروع کیں۔ ہندو اخبارات نے اسے مقدس فریضہ سمجھ کر شدھی اور سنگھٹن تحریکوں کا خوب پراپیگنڈا کیا۔تمام ہندو اخبارات میں یہ اشعار تواتر سے چھپتے رہے۔
کام شدھی کا کبھی بند نہ ہونے پائے
بھاگ سے وقت یہ قوموں کو ملا کرتے ہیں
ہندؤو! تم میں ہے گر جذبہ ایمان باقی
رہ نہ جائے کوئی دنیا میں مسلمان باقی
ہندؤوں کے عزائم دیکھ کر مسلم رہنماؤں کو فکر دامنگیر ہوئی کہ مسلم تشخص کوبچاناہے توپھرمسلمانوں کا الگ وطن ناگزیرہے۔ اسی مقصد کے حصول کی خاطر پورے برصغیر سے مسلمان21مارچ کولاہور میں جمع ہوئے۔
23 مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس قرارداد سے مسلمانوں کو ایک سمت ملی جس نے جنوبی ایشیاء کے نقشے کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔ قراردادِ لاہور کا منظور ہوناتھاکہ ہندو اخبارات نے چیخ وپکار سے آسمان سر پر اٹھالیا۔پرتاب’ ملاپ’ ٹریبیون وغیرہ نے اس قرارداد کو اگلے روز کی اشاعت میں قراردادِپاکستان کانام دے دیا۔ حالانکہ قرارداد میں کسی بھی جگہ پاکستان کالفظ استعمال نہیں ہوا تھا۔ روزنامہ ٹریبیون نے 21اگست 1940ء کو پاکستان سکیم کو ناقابل عمل اور گھناؤنی سکیم کہا۔ اس نے لکھا کہ یہ ہندوستان کے فرقہ وارانہ مسئلے کاکوئی حل نہیں ہے۔ ہندوستان ٹائمز نے لکھاکہ تاریخ نے ہندؤوں اور مسلمانوں کو ایک قوم بنایاتھااور اب کسی بھی قوم کو مطمئن کرنے کی خاطر ہندوستان کی وحدت کوتوڑنا یہاں کے لوگوں کی ترقی اور امن وسکون کوبرباد کرنے کے مترادف ہو گا۔ روزنامہ امرت بازار پتر یکا(کلکتہ) نے پاکستان سکیم کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے لکھااگر مسلمان ایک آل انڈیا گورنمنٹ کے تحت بحیثیت اقلیتی قوم کے نہیں رہ سکتے تو وہ کس طرح سے توقع کرتے ہیں کہ ہندومسلمانوں کی اکثریت کے تحت رہیں گے۔
گاندھی نے 6اپریل1940ء کو اپنے اخبار ہریجن میں لکھا کہ میراخیال ہے کہ مسلمان تقسیم کو قبول نہیں کریں گے۔ ان کامذہب انہیں اس قسم کی واضح خودکشی کی اجازت نہیں دے گا۔گاندھی نے باربار لکھا کہ دوقومی نظریہ ایک جھوٹ ہے۔ میری روح اس نقطۂ نظر کے خلاف بغاوت کرتی ہے کہ ہندومت اور اسلام دو مختلف عقیدوں اورمتضاد تہذیبوں کانام ہے۔ رام گوپال اچاریہ کے ہندو توا کی فکرسے لتھڑے ہوئے مضامین تمام ہندو اخبارات میں شائع ہوئے جس میں اچاریہ نے کہاکہ تقسیم ہند سے متعلق مسٹرجناح کایہ اقدام اس طرح کا ہے جیسے دوبھائیوں کے درمیان ایک گائے کی ملکیت پرجھگڑا ہو اور وہ دوٹکڑوں میں کاٹ کربانٹ لیں۔ ہندوپریس کی شعلہ بیانیوں سے متاثرہوکر برطانوی پریس نے قرارداد لاہور کو کوئی خاص اہمیت نہ دی’ بلکہ ٹائمزمانچسٹر گارڈین’ ڈیلی ہیرلڈ اور اکانومسٹ وغیرہ نے قرارداد لاہورکی مخالفت کرتے ہوئے لکھا کہ قائداعظم نے قراردادلاہور منظور کرواکرہندوستانی ریاست میں دوبارہ انتشار پیداکردیاہے۔انہوں نے یہ بھی لکھا کہ قرارداد ہندوستانی نیشنل ازم کے قلب پرکاری ضرب ہے۔
1945-46 ء کے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کی 492 میں سے 428 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ انتخابات کے نتائج کے پیش نظر برطانوی حکومت ہندومسلم تنازع کے حل کی ازسرنو کوشش کرنے پر مجبور ہوئی۔ چنانچہ 19 فروری 1942ء کو لارڈ پیتھک لارنس نے برطانوی پارلیمنٹ میں کابینہ مشن کی تشکیل کااعلان کیا۔ یہ مشن اے وی الیگزینڈر پیتھک لارنس اور سٹیفورڈ کرپس پر مشتمل تھا۔ کمیشن کی تشکیل کے ساتھ برطانوی وزیراعظم کلیمنٹ اٹیلی نے 15مارچ1946ء کومشن کے تقرر کے وقت دارالعلوم میںیہ اعلان کیاکہ ہمیں اقلیتوں کے حقوق کاپورا خیال ہے مگر ہم کسی اقلیت کویہ اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ اکثریت کی ترقی کی راہ میں ویٹو کاروڑااٹکائے۔ اٹیلی کے اس بیان سے یہ بات واضح ہورہی تھی کہ وہ ابھی تک ہندوستان میں مسلمانوں کو ایک قوم ماننے پرآمادہ نہیں تھا۔ قائداعظم نے اس کی غلط فہمی کی تردید کرتے ہوئے کہاکہ ہم ایک اقلیت نہیں بلکہ ایک قوم ہیں اور حق خودارادیت ہماراپیدائشی حق ہے۔
برطانوی وزیراعظم کے اس بیان سے کانگریس بہت خوش ہوئی’اس نے یہ باور کرلیا کہ برطانیہ مسلمانوں کے علیحدہ وطن کے مطالبے کو کسی صورت نہیں مانے گا۔ کابینہ مشن نے مسلم لیگ اورکانگریس سے ہندوستان کے آئینی مسئلے کے حل کے لیے تجاویز لیں لیکن شدید اختلافات کے پیش نظر16مئی کومشن نے اپنی طرف سے ایک منصوبے کااعلان کیا۔ مشن کی تجاویز کے مطابق برطانوی ہند اور دیسی ریاستوں پر مشتمل ایک یونین آف انڈیا ہوگی جس کی تحویل میں امورخارجہ’دفاع اور مواصلات ہوں گے۔ ہندوستان کے تمام صوبوں کے تین گروپ بنا دئیے جائیں گے’گروپ اے ہندواکثریت کے چھ صوبوں پر مشتمل ہوگا جبکہ گروپ بی میں پنجاب’سرحد’ سندھ اور بلوچستان اورگروپ سی میں بنگال اور آسام ہوں گے۔ کوئی بھی صوبہ اپنی اسمبلی کے اکثریتی ووٹ کے ذریعے دس سال بعد یاہردس سال کے بعدآئین کی شرائط پر ازسر نو غورکرنے کی فرمائش کرسکے گا۔ایک آئین سازاسمبلی کے انتخابات کے لیے ہرصوبے کواس کی آبادی کے تناسب سے نشستیں مخصوص کی جائیں گی۔ آئین ساز اسمبلی کے تینوں حصوں میں سے ہرایک اپنے گروپ میں شامل صوبوں کے لیے آئین بنائے گااور ساتھ ہی یہ بھی فیصلہ کرے گا کہ آیابحیثیت مجموعی گروپ کے لیے آئین بننا چاہیے۔نئے آئین کے تحت پہلے عام انتخابات کے بعد کسی بھی صوبے کی نئی مجلس قانون ساز کو اپنے گروپ سے نکلنے کااختیارہوگا۔کابینہ مشن کی آخری شِق یہ تھی کہ ایک عبوری حکومت قائم کی جائے گی جس میں دفاع سمیت تمام محکمے عوام کے قابل اعتماد لیڈروں کو سونپ دیئے جائیں گے۔
کابینہ مشن نے چونکہ اپنے پلان میں مسلمانوں کے علیحدہ ملک پاکستان کے مطالبے کو رد کردیاتھا۔ ان تجاویز کے اعلان پرکانگریس اور ہندؤوں میں جشن کا سماں پیداہوگیا۔ اس موقع پر پنڈت نہروکے روزنامے نیشنل ہیرالڈنے لکھا کہ جناح کے نظریۂ پاکستان کوکابینہ مشن پلان میں سرکاری طورپردفن کردیاگیا ہے۔ نیشنل ہیرالڈ کی اس رائے سے تمام ہندواخبارات نے اتفاق کیا۔ انہوں نے بھرپور اندازمیں اس پراداریے اور مضامین لکھ کر قیام پاکستان کاخوب مذاق اڑایا۔ کانگرس سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ مسلم لیگ اپنے علیحدہ وطن کے مطالبے سے دستبردار ہوجائے گی اور اگر وہ اس کابینہ مشن کو تسلیم کرتی ہے توپھر اسے متحدہ ہندوستان میں ہی رہنا ہوگا جس کی باگ ڈورہندؤوں کے ہاتھ ہو گی۔ کانگریس کی سوچ کے برعکس مسلم لیگ نے باہمی مشاورت کے بعدکانگریس کو سرپرائز دیتے ہوئے کابینہ مشن کے دونوں حصوں کو تسلیم کر لیا۔اس کے ساتھ ساتھ قائداعظم نے اس یقین محکم کا بھی اظہار کیاکہ جب تک ایک جامع مکمل اور خودمختار پاکستان معرض وجود میں نہیں آجاتا’ مسلمانانِ ہند چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ دراصل مسلم لیگ نے کابینہ مشن کو تسلیم کرتے ہوئے یہ بات مدنظر رکھی تھی کہ چھ مسلم صوبوں کی بی اور سی گروپنگ کی شکل میں پاکستان کی بنیادمشن پلان میں موجود ہے۔
آل انڈیامسلم لیگ کی جانب سے کابینہ مشن کی منظوری نے ایک دلچسپ صورتحال پیدا کردی۔ کانگریسی لیڈر جنہیں پلان میں پہلے پاکستان کی تدفین نظر آرہی تھی ‘ اب وہ اس میں پاکستان کی روح دیکھنے لگے۔اب ہندو اخبارات نے پلٹاکھایااور چیخ چیخ کر کانگریس سے پلان کو مسترد کرنے کی دہائیاں دینے لگے۔ مدراس کے مشہور اخبار”ہندو” نے تووہ طوفان اٹھایا کہ جیسے پاکستان بننے کااعلان ہوچکاہو۔اس کی ایک ہی رٹ تھی کہ کانگریس اس پلان کو مسترد کردے۔ روزنامہ امرت بازار پتریکا کلکتہ نے جوپہلے پلان کو امرت دھارا کہہ رہاتھا ‘اب اس نے اسے زہر قرار دیتے ہوئے کانگریس کو تنبیہ کی کہ وہ اس زہر کو اپنے حلق میں نہ اتارے۔ہندوستان ٹائمز نے کابینہ سکیم کی مذمت میں صفحات سیاہ کرنے شروع کردئیے۔ روزنامہ ٹریبیون نے لکھاکہ مسٹرجناح نے پاکستان کی روح حاصل کرلی ہے۔ لاہور کے روزنامہ پرتاپ نے کانگرس کو اس پلان کوٹھکرادینے کوکہا اورلکھاکہ لیگ ان تجاویز کو کبھی منظورنہ کرتی اگرانہیں اس میں پاکستان کی جھلک نظرنہ آتی۔
اخبارویر بھارت نے لکھا کہ اس حقیقت سے آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں کہ وزارتی سکیم میں ہندوستان کے ساتھ انصاف کرنے کی بجائے مسلم لیگ کو خوش کیا گیاہے۔ ہندو بنیاہونے کے ناطے کسی بھی کاروبار میں اپنے نفع ونقصان کے بارے میں مسلمانوں سے کہیں زیادہ محتاط اور دوراندیش واقع ہواہے۔ کانگریسی بنیوں کو یہ خوف لاحق ہوگیا تھاکہ دس سال بعد کہیں مکمل پاکستان معرض وجود میں نہ آجائے اور انہیں پوراآسام’ بنگال اور پنجاب نہ دینا پڑ جائے۔لہٰذا انہوں نے پلان کی دھجیاں اڑانا شروع کردیں۔ کابینہ پلان توناکا م ہوگیا لیکن بھارت کے مسلم دشمنی میں غرق میڈیا کے تمام ترہتھکنڈوں کے باوجود قائداعظم کی قیادت میں مسلمانوں نے پاکستان لے لیا۔اب انہوں نے پھرپینترا بدلہ اور لاکھوں مسلمانوں کو پاکستان کے حصول کی قیمت پرخون میں نہلادیا۔آج ہندوستان کامیڈیا جس میڈیا وارکے بخارمیں مبتلاہے ‘ قیام پاکستان کے وقت اس سے کہیں زیادہ مبتلا تھا۔اسے نہرو’ پٹیل اور گاندھی جیسے رہنمامیسر تھے اور سلطنت برطانیہ ان کی دست وبازو تھی مگروہ پاکستان کے قیام کی راہ نہ روک سکے۔آج کے ہندوستانی میڈیا کی مہار”را”کے ہاتھ میں ہے۔دنیا کے طاقتور ملک اس کے ساتھ ہیںمگر اسے یاد رکھناچاہیے کہ وہ پاکستان کے حجم میں اضافے کو کبھی نہ روک سکیں گے۔ان شاء اللہ
تحریر: محمد قاسم حمدان