تحریر: میر افسر امان، کالمسٹ
ایم کیو ایم ہمیشہ اپنے کارڈ کامیابی سے کھیلتی رہی ہے۔ مگر ہمیشہ کے لئے تواللہ کی ذات ہے باقی سب فانی ہیں یہی معاملہ ایم کیو ایم کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ اب ایک ایک کر کے ایم کیو ایم کے کارڈ ختم ہو گئے ہیں آخری کارڈ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کی طرف سے کراچی میں ہڑتال کا کھیلا گیا جو آج ناکام ہو گیا۔ایم کیو ایم نے اپنے چار مبینہ کارکنوں کے قتل کے سوگ میںکراچی میںبازار اور ٹرانسپورٹ بند کرنے کا کہا تھا۔ رینجرز نے بیان جاری کیا تھا کہ یہ دہشت گرد تھے۔قتل کی وارداتوں میں ملوث تھے۔گم شدہ نہیں تھے ایم کیو ایم کے سیف ہاوس میں چھپے ہوئے تھے۔
ایم کیو ایم کی اپیل پر کسی نے کان نہیں دھرا مارکیٹیں کھلی ہوئی ہیں ٹرانسپورٹ چل رہی ہے۔کہیں کہیں ایم کیو ایم کے دہشت گردوں نے ذبردستی مارکیٹیں بند کرانے کی کوشش کی تو رینجرز نے ایم کیو ایم کے ٨ دہشت گرد رنگے ہاتھوں گرفتار کئے اور انہیں قانون کے مطابق دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرنے کاکہا ہے۔اس دفعہ تو صرف ٨ دہشت گرد ہڑتال کرانے کے لیے باہر نکلے ہیںورنہ اس سے پہلے کی ہڑتالوں کے لیے ٹڈی دل کی طرح ایم کیو ایم کے دہشت گردفائرنگ کرتے باہر نکلتے تھے اور آناًفاناً شہر بند ہو جاتا تھا۔ ان ہی دہشت گردوں کی رپورٹ ایک زمانے میں انگریزی کے ڈان اخبار اور دوسرے دن اردو کے شام کے اخبار عوام نے خبر دی تھی۔
اخبارنے یہ خبر وکی لیک کے حوالے سے چھاپی تھی کہ ایم کیو ایم نے برطانیہ کے سفارت خانے کو خط کے ذریعے اطلاع دی تھی کہ ان کے ٣٥٠٠٠ مسلح کارکن ان کی حفاظت کے لیے موجود ہیں شاید یہ لندن میں الطاف حسین کی حفاظت کے بدلے میں کہا گیا ہوگا لیکن حال ہی میں بھارت کی خفیہ تنظیم را کے سربراہ توکہتے ہیں کہ الطاف حسین ایم آئی سیکس کے مہمان ہیں۔ ذرائع سوچتے ہیں کہ کیا کراچی میں ہمیشہ سے جاری دہشت گردی میں یہ مسلح لوگ ملوث نہیں رہے ہونگے ؟کیا اس خبر کے پبلک ہونے کے بعد اس وقت کی حکومت نے ایم کیو ایم سے اس معاملے میں باز پرس کی تھی نہیں ہر گز نہیں کی تھی اگر کی ہوتی تو خبر اخبارات میں نہ آتی؟۔ کیا رینجرز نے ان تمام مسلح دہشت گردوں کو گرفتار کر لیا ہے ؟ یاوہ ہمیشہ کی طرح چھپ گئے ہیں اور کسی وقت پھر باہر آ جائیں گے کراچی میں ایم کیو ایم نے ١٠٠ سے زائد ناجائز ہڑتالیں کروائی تھیں۔ ہرہڑتال کے اعلان کے بعد ایم کیو ایم کے دہشت گرد سڑکوں پر فائرنگ کرتے ہوئے دندا ناتے پھرتے تھے کئی گاڑیاںجلا دی جاتی تھیںکئی بے گناہ لوگوں کو قتل کر دیا جاتا تھا۔
ایسا خوف کا سما ء پیدا کر دیا جاتا تھا کراچی شہر والے چاہے کاروباری ہوں،ایجوکیشنسٹ ہوں،ٹرانسپورٹرز ہوں، میڈیا والے ہوں یا عام آدمی ہوں سب دبک کے بیٹھ جاتے تھے اور ملک کالاکھوں کا نقصان ہوتا تھا۔ دوسرے دن اخبارات ایم کیوایم کی بنائی ہوئی سرخیاں لگاتے تھے الیکٹرونک میڈیا والے ناظرین کو بتاتے تھے کہ نامعلوم افراد نے اتنے لوگوں کو شہید کر دیا، اتنی بسوں کو جلا دیا، مارکیٹوں میں فا ئرنگ کر کے کاروبار بند کروا دیا اور اتنے پٹرول پمپ کو آگ لگا دی۔ اللہ کا شکر ہے اب وہ خوف کی فضا بہت کم ہوئی ہے اب اخبارات بھی صحیح صحیح خبریں لگاتے ہیں ایم کیو ایم والے سرخیاں بنا کر نہیں دے سکتے۔ الیکٹرونک میڈیا والے بھی آزادی سے ناظرین کو جرم کرنے والوں کی شناخت بتاتے ہیں اب نامعلوم افراد کی گھڑی گئی کہانی ختم ہو گئی ہے ہاں اب بھی کہیں کہیں چھپ چھپاکر دہشت گرد صحافیوں پر حملے کر رہے ہیں جیسے پچھلے دو دنوں میں دو صحافیوں کو بے دردگی سے شہید کر دیا گیا ہے۔ ڈکٹیٹرجنرل ضیاء نے اپنی ضرورت کے لیے ایم کیو ایم بنائی تھی وہ ضرورت سب جانتے ہیں کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے ممکنہ احتجاج کو روکنا تھا جس میں کچھ حد تک وہ کامیاب بھی ہوئے تھے۔ پاکستان سے لازوال محبت کرنے والے (مرحوم) پیر پگارا صاحب بر ملا اپنے آپ کو جی ایچ کیو کا بندہ کہا کرتے تھے۔
ایم کیو ایم کے بنانے میں ڈکٹیٹر ضیاء کو ان کی آشیر باد حاصل تھی۔ انہی دنوں میں پگارا صاحب کہا کرتے تھے کہ ایم کیو ایم والے مسلم لیگیوں کی اولادیں ہیں ہمارے اپنے ہیں انہیں مسلم لیگ میں شامل ہو جانا چاہیے مگر ایم کیو ایم نے وہ کر دیکھایا جو پیر پگارا توکیا پورے پاکستان کے لیے عبرت کا مقام ہے۔فوج نے جب دیکھا کہ ایم کیو ایم کی کاروائیاں ملک کے لیے نقصان دہ ہو رہیں تو اُس نے ان کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا تھا۔ اُس وقت نواز شریف صاحب کی حکومت تھی۔ صاحبو! اگر آپ کو یاد ہو، ہمیں تو اچھی طرح یاد ہے کہ اُس فوجی آپریشن کے دوران الطاف حسین صاحب نواز شریف کو کہا کرتے تھے کہ ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن سے پاکستان کی ایجنسیوں کو روکو۔ ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن نواز حکومت نے نہیں فوج نے شروع کیا تھا۔کیا کیا جائے پاکستان کی سیاست کا کہ وہ ملک دشمنی میں ملوث پارٹیوں سے بھی ووٹ کی ضرورت کے لیے اتحاد کر لیتی ہے۔یہی ہوا(ن) لیگ نے ایم کیو ایم کو ٧٥ کروڑ روپے کپنسیشن کے طورپر دیے تھے اور اِس کے بدلے ان کی حمایت حاصل کی تھی۔ اسی طرح پیپلزپارٹی نے بھی ایم کیو ایم کی ہمیشہ مدد کی ۔ آپس میں نورا کشتی کرتے رہتے تھے متعدد بار ایم کیویم پیپلز پارٹی کی حکومت سے علیحدہ ہوئی ہر بار مشہور معروف پیپلز پارٹی اندرونی سفیر جسے پیپلز پارٹی کے منحرف لیڈررحمان ملک صاحب کہتے تھے کہ یہ جھوٹا ہے اگر کیلا کھارہا ہو گاتو کہے گا میں سیب کھا رہا ہوں۔
یہ ہی ایم کیو ایم سے ہمیشہ صلح کروا دیتا تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس وقت بھی فوج نے صحیح کام کیا تھا جو آج پھر کر رہی ہے مگر اُس وقت فوجی آپریشن سیاست کی نظر ہو گیا تھا۔
اِس وقت فوج کو اکیسویں ترمیم میں آئینی طور پر اجازت مل گئی ہے کہ وہ ملک دشمنوں کا پاکستان سے صفایا کرے۔اس کے ساتھ ساتھ ان کو فنڈنگ کرنے والوں اور سہولت کاروں کے ساتھ بھی قانون کے مطابق کاروائی کرے اور ملکِ پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ کرے۔ آج ایک نجی ٹی وی پروگرام میں اینکر کی طرف سے سوال کیا گیاکہ ایپکس کمیٹی میں وہی لوگ شامل ہوتے ہیں جو ملک میں کرپشن اور دہشت گردی میں ملوث ہوتے ہیں تو یہ آپریشن کامیاب کیسے ہو گا۔ تو ایک تجزیہ کار نے کہا کہ فوج کے سربراہ کی طرف سے اسی ایپکس کمیٹی میں وراننگ دی جاتی ہے کہ مجرموں کا کسی سے بھی تعلق ہو کسی حالت میں بھی نہیں چھوڑا جائے گا چاہے وہ کتنا ہی اہم آدمی ہو۔ اینکر نے دوسرے تجزیہ کار سے سوال کیا کہ لوگ نواز شریف کی بجائے جنرل راحیل شریف کی طرف دیکھ رہے ہیں وہ فوج کے سربراہ کو نجات دہندہ سمجھنے لگے ہیں اور اس کے جواب میں تجزیہ کا نے کہا یہ صحیح ہے۔
قارئین! واقعی یہ صحیح ہے پاکستان کے عوام راحیل شریف کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ راحیل شریف نے عہد کر رکھا ہے کہ ملک کو دہشت گردی اور کرپشن سے باہر نکال کر ہی دم لوں گا مگر سارا بوجھ فوج پر ہی نہیں ڈالنا چاہیے ملک کو دہشت گردی اور کرپشن سے نکالنے کے لیے فوج، عدلیہ اورسیاسی قوت کو ایک صفحہ پر ہونا چاہیے۔ یہ صحیح تجزیے ہیں کہ مجرموں کو عدالتوں سے بھی قرار واقعی سازائیں ملنی چاہئیں ۔جہاں تک عوام کا تعلق ہے وہ تو فوج کو صبح شام دعائیں دے رہے ہیں۔ شام کے وقت یہ کالم تحریر کر رہاہوں اور دیکھ رہا ہوں کہ روشنیوں کے شہرکراچی میںامن و امان ہے کاروبار کھلا ہوا ہے ٹرانسپورٹ چل رہی ہے پٹرول پمپ کھلے ہوئے ہیں۔ کوئی خوف نہیں ہے سارے کے سارے لوگ رینجرز کو دعائیں دے رہے ہیں۔ رینجرز نے کاروبار کھلا رکھنے پر کراچی کے عوام کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔کراچی شہر کے لوگ تبصرے کر رہے ہیں ایم کیو ایم کا آخری کارڈ بھی فیل ہو گیاہے اور لگتا ہے ایم کیو ایم آیندہ ہڑتال والا کارڈ نہیں کھیل سکے گی۔
تحریر: میر افسر امان، کالمسٹ
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان اسلام آباد(سی سی پی)