تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے تعلُقات میں ان کے بغل بچوں ں کا خاص طور پر کرداررہاہے جو انہیں جوڑنے کی اپنی حدود میں بھر پور کوششیں کرتے رہے ہیں۔ جب ہی تو فاروق ستار یہ کہتے ہوے سُنے گئے کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پار ٹی میں ساس بہو کا رشتہ ہے بالکل اسی طر ح جیسے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں ساس بہو کا رشتہ موجود ہے۔ ہم نے دیکھا کہ گذشتہ ساڑھے 7 میں سالوں سندھ کی ساس بہو کی چپقلش میں بے چاری ایم کیو ایم کے بچوں کی نفسیاتی کیفیت اس قدر خراب ہو چکی تھی کہ ہر بچے کے ہاتھ میں ہتھیار آگئے جن کے تائے چاچے پہلے ہی بگڑے ہوے تھے۔ اس کیفیت نے ساڑھے بائیس سال کا ریکارڈ توڑ کر رکھ دیا۔اورخاص طورکراچی کوان دونوں ساس بہونے کرائمز کی صورتِ حال سے دنیا کا خطر ناک ترین شہر بنا کو ساس بہو دونوں ہی عیاشیاں کرتی رہیں۔اور دونوں کے بچے ایک سے بڑھ ایک کرائم کا بادشاہ دکھائی دیتا تھا۔
اس سے قبل کے ملک سے غداری، منی لانڈرنگ قتل اور اقدامِ قتل کے تمام گناہ ایک این آراو کے ذریعے معاف کر کے تمام ملک دشمنوں قاتلوں لُٹیروں کو بیک قلم پوتر کر کے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کی ناکام کوشش کی۔ 22نومبر 2009 کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے این آر او کے تحت ایک لیسٹ کااجر کیاگیا،جس میں بتایا گیا کہ بیورو کریٹ، سیاست دانوں، اور سیاسی کارکنوں کے تمام جرائم کی معافی دیدی گیئ ہے اور ان سب کو کرپشن اور دیگر مقدمات سےکسی حد تک آزاد کردیا گیا۔اس وقت ان کے درمیان ساس بہو کا نہیں بلکہ ماں بیٹی کا رشتہ ہموار ہوچکا تھا۔
ایم کیو ایم کی اُوپر کی قادت کے لوگوں میں الطاف حسین فاروق ستار اور دگر رہنمائوں اور متحدہ کے 1986 تا12 اکتو بر 2009 تک کے تمام مقدمات کو الطاف زرداری فرینڈ شپ نےختم کرا کے ان لوگوں کو مکمل آزادی دیدی گئی اس وقت الطاف حسین پر جومقد مات تھے اُن میں ملک سے غداری جس کو پرویز مشرف نے خود دھو دیا تھا کے علاوہ 31 قتل اور 11 اقدامِ قتل کے مقدمات شامل تھے۔۔فاروق ستار پر 23 مقدمات تھے۔ جن میں 5 قتل کے مقدمات تھے۔ جن میں حکیم سعید قتل کیس بھی شامل تھا۔اس این آر او نے ایم کیو ایم کی کایہ ہی پلٹ کر اسے مزید کئے جانے والے معاملات کا کھلا سرٹیفیکیٹ دیدیا۔جس کے بعد انہوں نے ہر پچ اور ہر میدان میں سیاست سمیت کھل کرکھیلا جس سے کراچی کا ہر شہری، ہر کارخانہ دار، ہر تاجر، ہر دوکاندار انتہائی پریشانی کا شکار دکھائی دیا ۔
نہ تو کسی کی زندگی محفوظ تھی اور نہ ہی کسی کا کاروبار و سرمایہ۔ 2005 اکتوبر17 تا 19 نومبر 2010 تک مُصطفیٰ کمال جو ویلز یونیورسٹی کے ایم بی اے ہیں کو ایم کیو ایم کی جانب سے میئر مقرر کیا گیا اس دوران ایم کیو ایم کے اس رکن نے کراچی کے لئے کچھ خدمات تو انجام دیں مگر ان کی مئیر شپ کے دوران جو کچھ کراچی کے شہریوں کے ساتھ ہوا اُس سے یہ بھی مستثنیٰ قرار نہیں دیئے جا سکتے ہیں۔ایم کیو ایم کی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کی ہی وجہ سے ۔12 مارچ 2013 کو سینٹ کا ایم کیو ایم کی جانب سے رکن بھی بنوایا گیا۔جس کے تحت وہ 21 اپریل 2014 تک سینیٹر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ پھر شاید ایمکیو ایم کی طویلالمدت پالیسی تحت اُن کو خاموشی کے ساتھ ان کو پاکستان سے باہر جانے اور مستقبل کا ٹاسک دیا گیا۔تاکہ ایم کیو ایم کےملزمان کو کسی طرح بچایا جا سکے۔
جتنے عرصے مصطفیٰ کمال متحدہ کا حصہ رہے وہ ایم کیو ایم کے معاملات سے ہر گز لا تعلق نہیں سمجھے جا سکتے ہیں۔ساری دنیا اس بات کی گوہی بھی دے رہی ہے۔ یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہان کے لوگوں کے مجرمانہ کارناموںکی وجہ سے کینیڈ ین فیڈرل کورٹ نے ایم کیو ایم کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اس کے لوگوں پر کینیڈا میں داخلے پر پابندی عائدکردی تھی۔ 2009 میں امریکہ کے کونسلیٹ جنرل سسٹفن فیکن نے کراچی میں ایم کیوایم سے متعلق یہ انکشاف کیا کہ ایم کیو کا ایک دہشت گرد ونگ گُڈ فرینڈز کے نا م سے دہشت گردی کے امور میں سرگرم ہے۔
دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کہنا ہے کہ ایم کیوایم کوختم کرنے کی سازشیں ہوتی رہی ہیں۔ تمام تر سازشوں میں ناکامی کے بعداب ایم کیوایم کوٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔حالیہ واقعات اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ رابطہ کمیٹی نے یہ بھی کہاکہ اسٹیبلشمنٹ کے وہ عناصر جو ایم کیوایم کوختم کرنے، قائدِ تحریک الطاف حسین کوراستے سے ہٹانے اورمہاجرعوام کے اتحادکوپارہ پارہ کرنے کی کوششوں میں تین دہائیوں سے کوشاں رہے ہیں۔وہ ہی عناصر لوگوں کو حقیقی کی طرح لے کر آئے ہیں۔مگرعام خیال یہ ہی ہے کہ مصطفیٰ کمال اور ایم کیو ایم کوئی الگ چیز نہیں ہیں یہ ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔الطاف حسین کی صحت کچھ بہتر نہیں ہے۔
ان کی موت کی صورت میں قیادت کا خلع ایم کیو ایم کےاندر پیدا ہونے پرجوتیوں میں دال بٹنے کے اندیشے کے پیشِ نظر بہت سوچ سجھ کر تمام الزمات متحدہ کے قائد کے سر پر دھر کر کنوں کو بچایا جائےتو دوسری جانب قیادت کا خلع پر کرتے ہوے پیش آنے والے مستقبل کےخلع کو پر کیا جائے تاکہ خلفشار کو روکا جائے۔ تیسری جنب ایم کیو ایم کے بد نام زمانہ جرائم سے بھی چھٹکارا حاصل کر کے پرانے کھلاڑی نئے نام سے میدان سیست کی شہسواری کریں گے۔کئی لوگوں کا خیال ہے اور خود ایم کیو ایم بھی یہ الزام لگا رہی ہے کہ ان کھلاڑیوں کے پیچھےاسٹابلشمنٹ ہے۔ جو 1992 کا ڈرامہ دوہرا رہی ہے۔ہم یہ سجھتے ہیں کہ چہرے اور نام بدل کر ہی نئے انداز میں تمام لوگ آگے بڑھنے کا راستہ تلاش رہے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ نئے آنے والوں کا ٹارگیٹ صرف الطاف حسین ہیں ۔باقی سب کا احترام ان کے دلوں میں جوں کا توں موجود ہے۔سیاست کے کھلاڑی تو کہتے بھی یہ ہی ہیں کہ”چت بھی میری پٹ بھی میری انٹا میرے باپ کا” لہٰذا سکے کی چت پٹ پر نہ جائیں حالات پر گہری نظر رکھیں۔
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbirahmedkarachi@gmail.com