تحریر: عبدالرزاق چودھری لاہور
ایم کیو ایم صوبہ سندھ میں بالعموم اور کراچی میں بالخصوص بڑی اہمیت کی حامل جماعت ہے۔ اگر ایم کیو ایم کے سیاسی پس منظر کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ایم کیو ایم 1978ء میں ایک لسانی تنظیم کے طور پر ابھری جس کے روح رواں جناب الطاف حسین تھے اور اس تنظیم کا مقصد جامعہ کراچی میں زیر تعلیم طلباء کے مفادات کی نگہبانی تھا۔ بعدازاں یہ تنطیم درجہ بدرجہ ترقی کے مراحل طے کرتے ہوے صوبہ سندھ کی ایک اہم ترین سیاسی جماعت کے روپ میں ڈھل گئی۔
ابتدا ہی سے ایم کیو ایم کو ایک پر تشدد جماعت کے طور پر متعارف کروایا جاتا رہا اور کونسا ایسا گھناونا الزام ہے جو اس جماعت پر نہیں لگا جبکہ دوسری جانب ایم کیو ایم نے بھی ان الزامات سے بری الذمہ ہونے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی البتہ مشرف دور میں پہلی مرتبہ ایم کیو ایم نے اپنی شبیہہ درست کرنے کی طرف توجہ دی ملک گیر سیاسی جماعت بننے کا عندیہ دیا لیکن ایم کیوایم کواس ضمن میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی کیونکہ 2007ء میں کراچی میں فسادات بھڑک اٹھے اور ان فسادات کے حوالے سے ایم کیو ایم کو شک بھری نظروں سے دیکھا گیااور یوں ایم کیو ایم کا قومی سیاسی جماعت بننے کا خواب چکنا چور ہو گیا۔
اگرچہ ایم کیو ایم قومی سطح پر توکوئی خاص مقام بنانے میں کامیاب نہ ہو سکی لیکن سندھ کے کچھ شہروں میں اپنی جڑیں کافی حد تک مضبوط کرنے میں کامیاب ہو گئی اور بلدیاتی انتخابات سے لے کر صوبائی و قومی اسمبلی کے انتخابات میں کامیا بی کے جھنڈے گاڑتی نظرآئی اور بالخصوص کراچی اور حیدرآباد میں عوامی پذیرائی کے لحاظ سے تمام سیاسی جماعتوں پر بازی لے گئی۔
ایم کیو ایم مشرف دور میں جنرل کی آنکھوں کا تارا تھی پانچ سال تک مرکزی حکومت کے شانہ بشانہ مشرف کے گیت گانے میں مگن رہی اور نتیجے میں اقتدار کا مزہ لوٹنے میں حکومت کے شانہ بشانہ کھڑی رہی۔ مگر توجہ طلب بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ تحریک کے بانی الطاف حسین کی غیر موجودگی میں ہوتا رہا کیونکہ الطاف حسین 1992 کے فوجی آپریشن سے قبل ہی خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر کے عازم لنڈن ہو گئے وہاں انہوں نے برطانوی شہریت حاصل کر لی اور وہاں سے پاکستان میں کارکنوں سے رابطہ میں رہنے کے لیے ٹیلی فونک خطاب کا سلسلہ شروع کر دیا اورعرصہ دراز تک بلا شرکت غیرے اپنی جماعت کے کارکنوں کو گرفت میں لیے رکھا لیکن پھرحالات نے اچانک پلٹا کھایا اور ان پر عمران فاروق کے قتل اور منی لانڈرنگ کے الزامات لگ گئے جو کیس تاحال جاری ہے۔
شنید ہے کہ سکاٹ لینڈیارڈ تفتیش کار اس ضمن میں کافی ثبوت اکٹھے کر چکےہیں اور آنے والے دنوں میں ان کیسز کے حوالے سے حیرت انگیز پیش رفت کی توقع کی جا رہی ہے اور نتیجے میں الطاف حسین کی گرفتاری بھی عمل میں آ سکتی ہے۔الطاف حسین ان دنوں شدید ترین ذہنی دباو کا شکار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی صحت کے بارے رپورٹس بھی حوصلہ افزا نہیں ہیں اور ذمہ دار ذرائع بتا رہے ہیں کہ وہ کافی علیل ہیں اور خطرناک بیماری کی زد میں ہیں اور کچھ تجزیہ نگار تو یہاں تک کہہ رہےہیں کہ ان کی بیماری کے اثرات ان کے سیاسی افکار پر بھی دکھائی دیتے ہیں اور دلیل کے طور پر وہ ان کی حالیہ تقریروں کا حوالہ دیتے ہیں جس میں انہوں نے قومی اداروں کو بے توقیر کرنے کی کوشش کی۔
ایم کیو ایم ان دنوں اپنی سیاسی تاریخ کے اعتبار سے بڑے نازک دور سے گزر رہی ہے۔خاص طور پر جب سے رینجرز نے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر چھاپہ مارا ہے اور کچھ جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری عمل میں آئی ہے ایم کیوایم کےلیےمشکلات کے پہاڑ کھڑے ہو گئے ہیں اپنے اسی دباو کو کم کرنے کے لیے ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی جو 2013 کے الیکشن کے نتیجے میں منتخب ہو کر آئے تھے مستعفی ہو چکے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ آپریشن کی آڑ میں ایم کیو ایم کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ایم کیو ایم کے مینڈیٹ کی توہین کی جا رہی ہے۔اگرچہ حکومت نے مولانا فضل الرحمٰن کی وساطت سے ایم کیو ایم کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود باہمی اعتماد کی فضا قائم نہ ہو سکی اور نتیجتا” حکومت اور ایم کیو ایم کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور استعفوں کا معاملہ بھی تاحال لٹکا ہوا ہے۔
جیسے جیسے ایم کیوایم کے قائد کے گرد گھیرا تنگ ہونے کی خبریں میڈیا میں آ رہی ہیں ایم کیو ایم کے ذمہ داران اور کارکنان کی تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔کچھ کارکنان بیرون ملک سدھار گئے ہیں۔کچھ روپوش ہو چکے ہیں اور کچھ غائب ہونے کے درپے ہیں اور کچھ اپنا سیاسی قبلہ تبدیل کرنے کے بارے سوچ رہے ہیں اور باقی دن بدن بگڑتی صورتحال پر متفکر دکھائی دیتے ہیں۔ان حالات میں سیاسی مفکرین کا خیال ہے کہ اگر ایم کیو ایم کا بطور سیاسی جماعت شیرازہ بکھر گیا تو سب سے زیادہ فائدہ تحریک انصاف کو ہو گاکیونکہ کراچی میں ایم کیو ایم کے بعد تحریک انصاف دوسری بڑی مقبول جماعت ہے.
تحریر: عبدالرزاق چودھری لاہور