تحریر: ڈاکٹر بی اے خرم
ابھی پاکستان تھریک انصاف کے استعفوں کی دھول بیٹھی نہ تھی کہ ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی، سندھ اسمبلی اور سینیٹ سے مستعفی ہو کر پاکستانی سیاست میں ہل چل مچا دی یوم قائد سے دوروز قبل اچانک متحدہ قومی موومنٹ کا اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ نہایت عجلت میں کیا گیا۔
متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی ،سندھ اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان نے اپنے استعفے جمع کرادیئے ہیں ۔ سینیٹ کے آٹھ، قومی اسمبلی کے 24 اور سندھ اسمبلی کے 51 ارکان مستعفی ہو رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے 23 ارکان قومی اسمبلی نے ایوان زیریں کی رکنیت سے مستفی ہونے کیلئے اپنے استعفے سپیکر سردار ایاز صادق کے حوالے کر دئیے۔ بدھ کو ایم کیو ایم کے ارکان قومی اسمبلی نے اجلاس میں شرکت کی اور بعد ازاں رکن قومی اسمبلی ثمر سلطانہ جعفری کے علاوہ 23 ارکان نے ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی اور اپنے استعفے ان کے حوالے کیے۔ ایم کیو ایم کے ارکان نے اس موقع پر فرداً فرداً اپنے استعفوں کی تصدیق بھی کروائی۔
متحدہ قومی موومنٹ کراچی آپریشن پرشدیدتحفظات کے باعث سینیٹ اورقومی و صوبائی اسمبلیوں سے احتجاجاًمستعفی ہوئی ،سپیکرقومی اسمبلی سردارایازصادق نے22 اراکین سے فرداً فردا ًتصدیق کرنے کے بعد استعفے الیکشن کمیشن کو بھیجنے کا اعلان کردیا ، ثمن جعفری کے بیرون ملک ہونے کے باعث استعفے کی تصدیق ہونا باقی ہے ۔بدھ کوایم کیوایم کے اراکین قومی اسمبلی نے سپیکرسردارایازصادق کی زیرصدارت ایوان کے اجلاس میں شرکت کی۔اجلاس میں شرکت کے بعدایم کیوایم کے اراکین استعفے پیش کرنے سپیکرکے چیمبر میں پہنچے اورسب سے پہلااستعفیٰ ڈپٹی پارلیمانی لیڈرفاروق ستارنے پیش کیا ۔ایازصادق نے استعفیٰ لیتے وقت فاروق ستارسے سوال کیاکہ کیاآپ اپنی مرضی سے مستعفی ہورہے ہیں جس پرانہوں نے جواب دیاکہ جی ہاں میں اپنی مرضی سے استعفیٰ پیش کررہاہوں۔سپیکرنے دوسراسوال کیاکہ کیاآپ پرکسی نے دباؤڈالاہے جس پرفاروق ستارنے نفی میں جواب دیا۔ ایم کیو ایم کی رکن ثمن جعفری کا استعفیٰ فاروق ستار سپیکر کے پاس جمع کرایا تاہم وہ ملک سے باہر ہیں اس لئے ان کے استعفے کی تصدیق باقی ہے۔
سپیکر نے دیگر تمام اراکین سے فردا فردا تصدیق کرنے کے بعد استعفے الیکشن کمیشن کو بھیجنے کا اعلان کردیا۔اس سے قبل قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے کہا کہ اان کی جماعت کے 40 سے زیادہ کارکنوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا جبکہ گذشتہ 8 ماہ کے دوران 200 کارکنان کو رینجرز اور پولیس نے گرفتار کیا ہے لیکن آج تک انھیں عدالتوں میں پیش نہیں کیا گیا۔ کراچی آپریشن کے بارے میں وزیر اعظم نے ایک کمیٹی بنانے کا اعلان کیا تھا جو اس ماورائے عدالت اقدام اور اس آپریشن کے بارے میں سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور کرے گی لیکن آج تک اس کمیٹی کی تشکیل عمل میں نہیں لائی گئی انھیں عدالتوں سے بھی انصاف نہیں ملا اور فوج کے سربراہ اور کراچی کے کورکمانڈر نے بھی انھیں ملاقات کے لیے وقت نہیں دیا اور ایسے حالات میں ان کی جماعت کے پاس مستعفی ہونے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ڈاکٹر فاروق ستار نے یہ بھی کہا کہ فوج سے متعلق بیان دینے پر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی تقاریر پر پابندی عائد کر دی گئی جو کہ اظہار رائے کی خلاف ورزی ہے جبکہ اس سے سخت الفاظ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن نے ادا کیے تھے لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہاکہ دعا ہے کہ کراچی میں امن دیر پا قائم ہو، ہم سمجھتے تھے کہ کراچی آپریشن غیرجانبدار اور شفاف ہوگا، رینجرز کا کراچی میں رویہ جانب دارانہ ہے، کراچی میں تحریک انصاف کی مدد کی جارہی ہے، ہمارے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک پوشی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے خلاف میڈیا ٹرائل کا موقع فراہم کیا جارہاہے، جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کون میڈیا کوفراہم کررہا ہے وہ پوچھتے ہیں کہ اگر رینجرز مسلم لیگ (ن)یا پیپلز پارٹی کے کارکنان کو گرفتار کرتی تو پھر بھی ریاست کا یہی رویہ ہوتا۔ رہا ہونے والا ایک کارکن بھی ایسا نہیں جس پر تشدد نہ کیا گیا ہو۔ ہمارے ساتھ تیسرے درجے کے پاکستانی شہری جیسا سلوک کیا جارہاہے۔ ہم نے انصاف کیلئے ہر دروازہ کھٹکھٹایا لیکن ہمیں کہیں بھی ہماری شنوائی نہیں ہوئی۔
وزیراعظم نواز شریف نے آپریشن کے جائزے کیلئے کمیٹی کی تشکیل کا وعدہ کیا تھا وہ بھی پورا نہیں ہوا اس لئے ایم کیو ایم کے ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹ نے استعفے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم آج پاکستان کے تین منتخب ایوانوں سے مستعفی ہو رہے ہیں۔ سندھ اسمبلی میں خواجہ اظہارالحسن نے ایم کیو ایم کے 51 اراکین کے استعفے سپیکرآغاسراج درانی کے پاس جمع کرائے، تمام اراکین کے استعفے ہاتھ سے لکھے ہوئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے ذرائع کے مطابق ان کے دس ارکانِ صوبائی اسمبلی ملک سے باہر ہیں اور اسی ہی وجہ سے استعفے پیش کرتے وقت وہ موجود نہیں تھے۔
سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان کو قومی اسمبلی ،صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کی رکنیت سے استعفے دینے پر مجبور کیا ہے کیونکہ الطاف حسین کو مسلسل ایسی اطلاعات مل رہی تھیں کہ پارٹی میں ”مائنس الطاف” پالیسی پر تیزی سے کام ہورہا ہے اور بعض ارکان اسمبلی و سینیٹ کسی بھی وقت نئی قیادت کا اعلان کرنے کے علاوہ نئے گروپ کی تشکیل کا بھی اعلان کرسکتے ہیں ۔تجزیہ نگاروں کے خیال میں الطاف حسین چاہتے تھے کہ اگر ارکان اسمبلی و سینیٹ کو ‘مائنس الطاف’ پالیسی اپنانے یا نئے گروپ کی تشکیل پر آمادہ کر بھی لیا جائے تو انہیں پہلے ہی قومی اسمبلی ،صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کی نمائندگی سے علیحدہ کردیا جائے۔
ایم کیوایم کراچی آپریشن بند کرنے کیلئے حکومت پر پریشر ڈالنا چاہتی ہے متحدہ قومی موومنٹ کو سینیٹ، قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی سے استعفیٰ دینے کا نقصان ہوگا، فیصلے کی قوت کراچی نہیں لندن کو حاصل ہے، کراچی کے حالات خراب ہونے جارہے ہیں قانون نافذ کرنے والوں کی مداخلت زیادہ ہوگئی ہے، آنے والے 90 دن انتہائی اہم ہیں اگست میں بھی حالات خراب ہوسکتے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کا استعفوں کا معاملہ درست نہیں، وہ پارلیمنٹ میں رہ کر سیاست میں اپنا مثبت کردار ادا کرے کیونکہ اس وات ملک اتنے بڑے پیمانے پہ ضمنی انتخابات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
تحریر: ڈاکٹر بی اے خرم