تحریر : سید انور محمود
یہ جو سیاسی بحران اسوقت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے قومی اسمبلی، سندھ اسمبلی اور سینٹ سے اپنے ارکان کومستعفی کراکر کیا ہے اُسکے سو فیصد ذمہ دار وزیراعظم نواز شریف اور وزیر داخلہ چوہدری نثار ہیں۔ آج شہری سندھ کی کوئی نمایندگی نہیں ہے، قومی اور سندھ اسمبلی میں 4 کڑور لوگوں کے نمایندوں کے بغیر اجلاس ہورہے ہیں، سینٹ کا بھی یہ ہی حال ہے۔ 4ستمبر 2013ء کو وزیر اعظم نواز شریف نے کراچی میں وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بدامنی سے نمٹنے کے لیے رینجرز کو مرکزی کردار دینے کی تجویز پیش کی۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کراچی میں کابینہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ کراچی میں رینجرز کی سربراہی میں فوری طور پر ٹارگٹڈ آپریشن کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ سندھ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گی جو اس آپریشن کی نگرانی کرتی ہے۔ وزیراعظم نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس آپریشن کی مانیٹرنگ کرنے کےلیے ایک مانیٹرنگ کمیٹی بناینگے لیکن وعدے کے باوجود مانیٹرنگ کمیٹی نہیں بنائی گئی۔ ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کی آڑ میں ایم کیو ایم کو نشانہ بنایا جارہا ہے، ہمارے کارکنوں کوتشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، پارلیمنٹ کی چوتھی بڑی جماعت کو دیوار سے لگایا جار ہاہے، ہمارے اقدامات کا جائزہ لیں، جوڈیشل کمیشن بنا دیں تو ہم اس میں پیش ہوکر انصاف کے متقاضی ہیں، جرائم پیشہ افراد کو فرار کا راستہ دیا گیا ہے۔
استعفے دینے سے دو دن پہلے تک ایم کیو ایم کا انداز سیاست دفاعی تھا، لیکن پھر اچانک ایم کیو ایم کے استعفوں کی خبر نے پاکستانی سیاست میں ہلچل مچادی۔ منگل اور بدھ کی شب ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی پاکستان اور لندن کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں کراچی میں رینجرز کی جانب سے جاری آپریشن پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا گیا۔ الطاف حسین نے بھی رابطہ کمیٹیوں کے فیصلے کی توثیق کی۔ قومی اسمبلی کے چوبیس ارکان نے ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی اور اپنے استعفے ان کے حوالے کیے۔ جبکہ اکیاون ارکان سندھ اسمبلی نے اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن کی قیادت میں اپنے استعفے اسپیکر آغا سراج درانی کے پاس جمع کرادیئے، سینٹ کے آٹھ ارکان نےبھی اپنے استعفے سینٹ سیکرٹریٹ میں جمع کرادیے۔
اپنے استعفے دینے سے پہلے ایم کیو ایم کےقومی اسمبلی کے ارکان نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی جہاں فاروق ستار ایک طویل اورمدلل تقریر کی، فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ہم نے وزیراعظم نوازشریف، وزیر داخلہ چوہدری نثار، وزیر اعلیٰ سندھ کے سامنے یہ مسلہ اٹھایا کہ اگر الطاف حسین آرٹیکل 19 کے تحت اظہار خیال کا حق استعمال کرتے ہیں تو کیا گناہ ہے ۔ وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ جبری گرفتار یوں اور ماورائے عدالت قتل ہماری ڈکشنریوں میں نہیں ہیں، جبکہ میں نے گرفتاریوں کی مکمل تفصیل دی ہے جو دہشت گردوں اور کریمنلز کے خلاف کارروائی ہونا تھی وہ سب بیرون ملک بھاگ گئے۔ ہم نے انصاف کیلئے کونسا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا ۔ میں نے جی ایچ کیو اور کور کمانڈر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر کسی نے ملاقات کا وقت نہیں دیا۔ ہم نے درست مقدمات کی مخالفت نہیں کی عدالت پر چھوڑ دیا، ہم نےجبری گرفتاریوں اور ماورائے عدالت قتل پرآواز اٹھائی۔ اگر میرے سارے حقائق درست ہیں اگر آئین کی پاسداری کرتے ہیں تو170 کارکنوں کے بارے میں بتا دیں وہ زندہ ہیں یا نہیں، میرے کارکنوں کے کتنے قاتل گرفتار ہوئے۔ مساوات، برابری نہیں ہو رہی۔ ایک طبقے کے ساتھ انتقامی کارروائی ہو رہی ہے
فاروق ستار نے مزید کہا کہ الطاف حسین کی گفتگو کو قابل اعتراض قابل گرفت قرار دیا جارہا ہے۔ الطاف حسین سے بھی زیادہ سخت تقاریر کی گئی ہیں۔آصف زرداری، خواجہ آصف، محمود خان اچکزئی، منور حسن نے فوج کے خلاف شدید الفاظ کے ساتھ تقاریر کیں۔ منور حسن نے فوج کے مرنے والوں کو شہید ماننے سے انکار کردیا ۔ خواجہ آصف نے فوج کے خلاف شرمناک تقاریر کی اور آصف زرداری نے بھی انتہائی سخت الفاط استعمال کئے اور پنڈورا باکس کھولنے اور اینٹ سے اینٹ بجادونگا اور انہوں نے اپنے الفاظ واپس بھی نہیں لئے۔ محمود اچکزئی کے خلاف 50غداری کے مقدمے بنائے گئے۔ پاکستان رینجرز کا رویہ مکمل جانبدارانہ ہے ۔ پی ٹی آئی کے لوگوں کیلئے راستہ بنایا جارہا ہے، الیکشن کے دوران پولنگ اسٹیشنوں کی تصاویر میرے پاس ہیں، جوڈیشل کمیشن بنایا جائے تو سارے ثبوت پیش کردونگا۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے خلاف میڈیا ٹرائل کا موقع فراہم کیا جارہاہے، جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کون میڈیا کوفراہم کررہا ہے، انہوں نے سوال کیا کہ اگر رینجرز مسلم لیگ (ن)یا پیپلز پارٹی کے کارکنان کو گرفتار کرتی تو پھر بھی ریاست کا یہی رویہ ہوتا۔ رہا ہونے والا ایک کارکن بھی ایسا نہیں جس پر تشدد نہ کیا گیا ہو۔ ہمارے ساتھ تیسرے درجے کے پاکستانی شہری جیسا سلوک کیا جارہاہے۔ ہم نے انصاف کیلئے ہر دروازہ کھٹکھٹایا لیکن کہیں بھی ہماری شنوائی نہیں ہوئی۔
کچھ دن سے یہ خبریں گردش میں ہیں کہ ایم کیو ایم میں کوئی نیا گروپ تشکیل دیا جارہا ہے، اگر کو ئی گروپ بن بھی رہا تھا تو شاید ان استعفوں کے بعد کوئی بھی یہ کوشش نہیں کرئے گا۔ ایم کیو ایم کےارکان کے استعفی دینے کے بعد نواز شریف حکومت کافی کمزور ہوئی ہے، پی ٹی آئی کے استعفوں کے بعد ایم کیو ایم نواز شریف کے ساتھ کھڑی تھی جبکہ عمران خان کسی بھی صورت میں نواز شریف کی حکومت کو سپورٹ نہیں کرینگے، بلکہ عمران خان کی کوشش ہوگی کہ نواز شریف حکومت ختم ہوجائے، اس کے لیے شاید وہ اسمبلی چھوڑ جایں لیکن شاید وہ اور اُنکے ساتھی اتنی ہمت نہ کر پایں۔ نواز شریف کے اوپر یہ تلوار اُس وقت تک لٹکی رہے گی جبتک یہ معامعلہ سلجھ نہیں جاتا۔ اگر نواز شریف نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تو کوئی بھی بڑا سیاسی بحران کھڑا ہوسکتا ہے،
ویسے تو گذشتہ چند مہینوں میں نواز شریف نے اپنے رویہ سے یہ تو بتادیا کہ اُنکو کراچی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کراچی میں بم دھماکے ہوئے تو نواز شریف اسلام آباد میں بیٹھکر شاندار لنچ کررہے تھے، کراچی میں گرمی کی شدت سے ہزاروں لوگ مرگئے، وزیراعظم صاحب پانچ دن گزرنے کے بعد صرف چار گھنٹے کےلیے کراچی آئے تھے، اس مختصر دورہ کراچی کے موقعے پر اُن کی شکل سےصاف بیزاری نظر آرہی تھی۔ لیکن اب چونکہ اُنکی حکومت ختم ہوسکتی ہے لہذا وہ ایم کیو ایم کے سامنے گھٹنے ٹیکنے میں دیر نہیں کرینگے۔ سندھ میں بھی حیران کن صورتحال ہے لیکن سندھ اسمبلی کے اسپیکر نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کی طرح عجلت کا مظاہرہ نہیں کیا اور یہ کہکر معاملے کو طول دے دیا کہ ابھی ان استعفوں کو چیک کیا جائے گا جس میں کچھ ٹایم لگے گا۔ ایم کیو ایم نے اپنے ایک کارکن محمد ہاشم کے ماورائے عدالت قتل کا الزام رینجرز پر لگایا، گرفتاری کے بعد گھروالوں کو وہ ایدھی کے ایک قبرستان میں ملا، معلوم ہوا کہ محمد ہاشم کو گرفتار کیا گیا اورچھ جولائی کو مار دیا گیا۔
حکومت اور ایم کیو ایم کے درمیان رابطے ہوئے ہیں، اسلام آباد میں وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار سے ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر فاروق ستار نے ملاقات کی جس میں فاروق ستار نے حالیہ صورتحال میں ایم کیو ایم کے تحفظات سے تفصیلی طور پر آگاہ کیا۔ فاروق ستار کا کہنا تھا کہ کراچی آپریشن میں ایم کیو ایم کو ٹارگٹ کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ آپریشن کے لیے مانیٹرنگ کمیٹی کیوں نہیں بنائی جاتی؟ اسحاق ڈار نے واضح کیا کہ آپریشن جرائم پیشہ افراد کے خلاف ہے، ایم کیو ایم پریشان نہ ہو، متحدہ کا پارلیمانی کردار خود اس کے بہترین مفاد میں ہے، ایوان میں آئیں۔اس پر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ استعفوں کی واپسی کا فیصلہ الطاف حسین کریں گے۔ ایم کیو ایم نے استعفوں کی واپسی کے لیے حکومت کو اپنی شرائط سے آگاہ بھی کر دیا۔ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم نے حکومت کے سامنے فوری منظور کرنے کےلیے پانچ مطالبات کیےجو مندرجہ ذیل ہیں:۔
(1) الطاف حسین کا خطاب ٹی وی پر نشر نہ کرنے کی پابندی ختم کرنا،
(2) کراچی آپریشن کی نگرانی کے لیے فوری طور پر مانیٹرنگ کمیٹی قائم کرنا،
(3) رینجرز آپریشن کو غیر جانبدار بنانا،
(4) حراست میں لیے گئے افراد کو فوری طور پر عدالتوں میں پیش کرنا، اور
(5) لاپتہ کارکنوں کی بازیابی کے لیے فوری اقدامات کرنا ہے۔
کیا امید کی جاسکتی ہے کہ ایم کیو ایم جلدہی واپس اسمبلیوں میں جائے گی، ایسا مشکل ہے ، ایم کیو ایم نے تو اپنے گلے شکوئے کرلیے، اُسکے زیادہ تر شکوئے شکایات کراچی میں ہونے والے آپریشن کے خلاف ہے، لیکن اگر آپ کراچی میں رہنے والے ایک عام آدمی سے پوچھیں تو وہ یہ ہی کہے گا کہ کراچی میں بہتری آئی ہے، اس حوالے سے ایم کیو ایم کی پوزیشن کافی کمزور ہے۔ اب ایم کیو ایم کے مطالبات کو نواز شریف حکومت کو منظور کرنا بہت مشکل ہوگا کیونکہ اس میں ایک فریق فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے جسکی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔ جمرات 30 اپریل سے یکم اگست تک الطاف حسین نے تین ایسی براہ راست فوج کے خلاف تقریریں کیں جس میں الطاف حسین نے ریڈ لاین کو عبور کرتے اپنی تقریروں میں حکومت، آئی ایس آئی، فوج اور بیوروکریٹس کو سخت ترین تنقید کا نشانہ بنایا، بھارت، نیٹو اور اقوام متحدہ کو مدد کےلیے پکارا، جسکے جواب میں پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے پاکستانی فوج اور اُسکی قیادت کے خلاف ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی تقریروں کو بہودہ اور ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے قانونی چارہ جوئی کرنے کا اعلان کیا۔
مندرجہ بالا حالات میں کراچی کے حالات ٹھیک ہونا بہت مشکل ہیں جب تک دونوں فریق لچک کا مظاہرہ نہ کریں ، 12 اگست سے الطاف حسین ہر ٹی وی ٹاک شو میں یہ وعدہ کررہے کہ وہ آیندہ اس قسم کی تقاریر نہیں کرینگے، اگر جنرل راحیل شریف اس معاملے کو دیکھ لیں تو بہتر ہوگا، تاکہ یہ تاثر ختم ہو کہ کراچی آپریشن یک طرفہ ہورہا ہے، اچھا ہوگا الطاف حسین پر آخری بار اعتبار کرلیا جا ئے ، اسکے ساتھ ہی آپریشن کو جاری رکھتے ہوئے ایم کیو ایم کے پانچ مطالبات میں سے جو بھی ممکن ہوں اُنکو تسلیم کرلیا جائے ۔ ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کو چاہیے کہ اپنے اوپر کنڑول کریں اور اپنی غلطیوں کو اب نہ دہرایں۔اگر وہ ایسا کرینگے تو شہری سندھ کے شہری سکون کا سانس لے سکیں گے۔
تحریر : سید انور محمود