لاہور (ویب ڈیسک) میرے خیال میں چار اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کی چالیسویں برسی کے نام پر بلاول بھٹو کی زبانی اور اپنی نگرانی میں لکھوائی گئی تحریر کے ذریعے آصف علی زرداری نے گڑھی خدا بخش کے میدان سے ریاست کو کھلی دھمکی دلواتے ہوئے اعلان جنگ کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ نامور کالم نگار منیر احمد بلوچ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔جب بھٹو شہید کی یہ برسی منائی جا رہی تھی اور بلاول سمیت اس کی بہنیں اور آصف زرداری اور فریال تالپور‘ بھٹو شہیدکی قبر پر پھولوں کی چادریں چڑھاتے ہوئے تصویریں بنوا رہے تھے ‘تو میرے ساتھ بیٹھے ہوئے استاد محترم گوگا دانشور کہنے لگا کہ ان کی آنکھیں ‘وہ منظر دیکھنے کونہ جانے کب سے ترس رہی ہیں ‘جب بلاول‘ آصفہ اور بختاور اپنے دادا حاکم علی زرداری اور محترمہ فریال تالپور اور ان کے بھائی آصف علی زرداری اپنے باپ اور ماں کی قبر وںپر اسی طرح پھولوں کی چادریں چڑھاتے ہوئے ان کی برسیاں منااور دعائیں مانگ رہے ہوں گے۔ بلاول بھٹو‘ گڑھی خدا بخش میں للکارتے ہوئے جب جنرل ضیا الحق کی قبر کا بھٹو شہید کی قبر سے موازنہ کر رہے تھے‘ تو میرے سامنے ان کے دادا مرحوم حاکم علی زرداری کی وہ تصویر آ گئی‘ جس میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد نواب شاہ دورے کے دوران وہ جنرل ضیاالحق کو سندھی اجرک پہنا رہے تھے ۔انہی حاکم علی زرداری کے پوتے بلاول بھٹو زرداری کہہ رہے تھے ”اگر کسی نے ان کے نا نا اور ماں بے نظیر بھٹو کے آئین میں ہلکی سی بھی ترمیم کرنے کی کوشش کی‘ تو اس کے ہاتھ توڑ دیںگے‘‘۔بلاول نے ایک جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ” ہم جانتے ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم کی سب سے زیا دہ تکلیف کن کو ہے ‘لیکن اس ترمیم کو چھیڑا گیا تو پھر دما دم مست قلندر ہو گا‘ جو سب کچھ بہا لے جائے گا‘ اس وقت پھر ہمیں کوئی کچھ بھی نہ کہے۔ یہ سمجھنے کے لیے کہ ان کا شارہ کس طرف تھا‘ ذہن پر زیادہ زور دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔قارئین کرام ! ذراآصف زرداری صاحب کا طرز ِ عمل دیکھئے کہ گزشتہ گیارہ برس سے ان کے ہاتھوں لٹے پٹے سندھ اور سندھیوں کی بھوک کا ذمہ دار‘ اس اسلام آباد کو ٹھہرا یا جا رہا ہے‘ جسے اقتدار میں آئے ابھی آٹھ ماہ ہوئے ہیں۔ پی پی پی اور مسلم لیگ نون سمیت مولانا فضل الرحمان کی جانب سے آئین کی حفاظت اور اس سے وفاداری کی باتیں تو بہت کی جاتی ہیں اور ہر کوئی اس آئین کی بے حرمتی کرنے والوں کوغداری کے جرم میں سنگین سزا دینے پر تلا ہوا ہے‘ تو کیوں نہ تاریخ اور حقائق کی روشنی میں دستاویزی ثبوتوں کو سامنے لاتے ہوئے جائزہ لیا جائے کہ 1973ء کے آئین کی چیر پھاڑ کس کس نے اور کس طرح کیا؟1973ء کے آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو ‘جنہیں دنیا کے پہلے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ہونے کا اعزاز حاصل ہے‘ ان کی سربراہی میں اپریل1973ء میں پاکستان کی مجلس قانون ساز کے ارکان نے اتفاق رائے سے ان کے دیئے گئے آئین کو قبول کیا اور یہ متفقہ آئین14اگست1973ء کو نافذ ہو ا‘ جو ایک تاریخی لمحہ تھا‘لیکن ابھی اس تاریخی لمحے کو گزرے صرف چار گھنٹے گزرے تھے‘ ابھی اس آئین کے ہاتھوں میں مہندی لگائی جا رہی تھی کہ شام چار بجے ذوالفقار علی بھٹو نے وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنی ہی حمایت سے نامزد کیے ہوئے پاکستان کے صدر فضل الہٰی چوہدری سے ایک صدارتی فرمان پر دستخط کروالیے‘ جس میں لکھا تھا کہ ”آئین کے حصہ دوم کے باب اوّل میں جوبنیادی حقوق دیئے گئے ہیں اور جن کی اس صدارتی فرمان میں تشریح و توضیح ہو سکتی ہے اور اس کی رو سے عدالتوں میں ہونے والی کوئی بھی ایسی کاروائی جو نافذ ہونے کیلئے یا اس میں کسی ایسے سوال کاتعین کرنا ہو‘ جیسے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ‘تو ایسی صورت میں آئین کے حصہ دوم کے باب اوّل میں بنیادی حقوق کے نفاذ کیلئے کسی بھی عدالت کا کارروائی کرنے کا حق اس عرصے تک معطل رہے گا ‘جب تک آج کا یہ صدارتی فرمان موثر بہ عمل رہے گا‘‘۔ یوںاس صدارتی فرمان کے ذریعے شہریوں کو حاصل دس بڑے بنیادی حقوق سے اس وقت محروم کر دیا گیا‘ جب انہیں یہ حقوق ملے ابھی صرف چار گھنٹے ہی گزرے تھے۔کیا یہ آئین کی چیر پھاڑ نہیں تھی؟ اس صدارتی فرمان کے جاری ہونے کے بعد اگلے ہی دن پیپلز پارٹی نے اپنے متعدد سیا سی مخالفین کو گرفتار کر کے مختلف الزامات کے تحت ملک بھر کی جیلوںکی کال کوٹھریوں میں پھینک دیا اور ان میں سے کئی لوگ اس وقت تک قید میں رہے‘ جب تک جنرل ضیا الحق نے اسی متفقہ آئین کو معطل کرتے ہوئے ملک کی باگ ڈور نہیں سنبھال لی ۔ان میں اوجڑی کیمپ کی جیل اور لاہور کا شاہی قلعہ لوگوں کو ابھی تک یاد ہے۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی 2000دنوں تک بر سر اقتدار رہی۔ ان کی حکومت نے اپنے دیئے گئے متفقہ آئین میں یک طرفہ طور پر سات ترامیم کیں۔ مجلس قانون ساز کے قوانین کے قواعد و ضوابط کو معطل کیا گیا۔ کسی بحث اور سوچ بچار کے بغیر ہی ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے‘ جبکہ بعض اوقات تو چند گھنٹوں کے وقفے سے ترمیمی بل پیش کیے جاتے رہے۔ با وجود اس کے کہ اس وقت پارلیمنٹ کا اجلاس جاری تھا۔ اس بات کی تصدیق اس امر سے کی جا سکتی ہے کہ پیپلز پارٹی نے219 آرڈیننس (اپنے دو ہزار دنوں کے اقتدار میں ہر دس روز میں ایک) نافذ کر نے کے علا وہ100کے قریب صدارتی فرمان جاری کیے۔ بھٹو صاحب کی حکومت ختم ہوئی تو جنرل ضیا الحق کی ڈکٹیٹر شپ آئی تو انہوں نے آئین میں جو آٹھویں ترمیم پیش کی‘ اس پر لگاتار چھ ماہ تک مجلس شوریٰ کے اندر اور باہر بحث ہوتی رہی‘ پھر کہیں جا کر یہ ترمیم پاس ہوئی۔ محمد خان جونیجو وزیر اعظم بنائے گئے ‘تو انہوں نے آئین کی نویں ترمیم پاس کرانے کی سر توڑ کوشش کی‘ لیکن کامیاب نہ ہوسکے‘ لیکن ان کے دور میں آئین میں دسویں ترمیم پاس کی گئی۔ 1988ء میں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو بر سر اقتدار آئیں‘تو وہ صرف ایک گیارہویں ترمیم کا سامنا کرتے ہوئے جو پاس نہیں ہو سکی‘ اپنا اقتدار ختم کر بیٹھیں ۔ان کے بعد نواز شریف بر سر اقتدار آئے‘ جو آئین میں ترمیم کے حوالے سے خاصے کامیاب ثابت ہوئے۔ ان کے دورحکومت1990-93ـء میں تمام قواعد و ضوابط معطل کرتے ہوئے بارہویں ترمیم پیش کی گئی ۔اس ترمیم کا تعلق خصوصی عدالتوں اور ان میں زیر سماعت مقدمات کے فوری فیصلوں سے متعلق تھا۔ ان کے دوسرادور حکومت جو 1997-99ء تک ہے‘ اس میں یکم اپریل1997ء کو ان کی طرف سے آئین میں 13ویں ترمیم پیش کی گئی ‘ جس میں جنرل ضیا الحق کی طرف سے آئین میں کی گئی آٹھویں ترمیم میں مزید ترمیم لائی گئی اور حیران کن حد تک قومی اسمبلی کے تمام ضوابط کو معطل کرتے ہوئے‘ اسے ایک ہی دن قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کرتے ہوئے دونوں ایوانوں نے اِسے اُسی روز پاس بھی کرو الیا گیا۔اب کہا جاتا ہے کہ آمر آئین توڑتے ہیں ‘وہ آئین توڑنے کے جرم میں غدار کہے جا رہے ہیں؛ اگر آمر غدار ہیں ‘تو پھر آپ کیا ہیں؟آپ کے آئین کو مسخ کرنے کے ثبوت عدلیہ سمیت سب کے سامنے ہیں‘ تو کیوں نہ پھر آپ پر بھی آئین کے آرٹیکل6 کے تحت کارروائی کی جائے؟