لاہور(ویب ڈیسک) بھائی آپ ہماری فکر نہ کریں، وقت بدلتے دیر نہیں لگتی یہ مشکل وقت بھی گزر ہی جائے گا۔‘‘ یہ الفاظ ایک ایسی خاتون کی زبان سے ادا ہو رہے تھے جس کا خاوند جیل میں ہے، داماد چند گھنٹے قبل رہا ہو کر آیا تھا اور کہہ رہا تھا کہ اُسے کسی نہ کسی نامور کالم نگار حامد میر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ طرح دوبارہ گرفتار کر لیا جائے گا۔ یہ خاتون اپنے داماد کو بھی تسلیاں دے رہی تھی۔ ابھی کچھ دن پہلے اس خاتون کے والد انتقال کر گئے تھے اور میں تعزیت کے لئے اُن کے پاس گیا تھا۔ مشکل وقت میں والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا اور خاوند جیل میں بند ہے لیکن یہ خاتون تو میرا بھی حوصلہ بڑھا رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ کہیں آپ پر بھی کوئی نہ کوئی الزام لگا کر مقدمہ نہ بنا دیا جائے لیکن آپ نے گھبرانا نہیں۔ یہ خاتون رانا ثناء اللہ کی اہلیہ نبیلہ تھیں جو بتا رہی تھیں کہ اُن کے خاوند کو جیل کے اندر ایک اور جیل میں رکھا گیا ہے جہاں اُن کے پاس سونے کے لئے بستر تک نہیں۔ رانا ثناء اللہ کو کیمپ جیل لاہور میں رکھا گیا ہے جہاں مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق، خواجہ سلمان رفیق اور نیب کے دیگر قیدی بھی پابند سلاسل ہیں۔ رانا ثناء اللہ قید تنہائی میں ہیں۔ اُن کے خلاف منشیات کی اسمگلنگ کا مقدمہ اتنا کمزور ہے کہ خود حکومت کے کئی وزراء بھی نجی گفتگو میں اس پر ندامت اور افسوس کا اظہار کر چکے ہیں۔ مقدمے کا مقصد نہ قانون کی بالادستی ہے نہ منشیات کا پھیلائو روکنا بلکہ اس مقدمے کے ذریعہ ایک سیاسی مخالف کو سبق سکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک کوٹ لکھپت جیل میں قید نواز شریف اور کیمپ جیل لاہور میں قید خواجہ سعد رفیق وغیرہ کے ساتھ دوستوں اور رشتہ داروں کو ملاقات کی اجازت تھی لیکن اب صرف اہل خانہ کو ملاقات کی اجازت ہے۔ جب رانا ثناء اللہ کی اہلیہ مجھے بتا رہی تھیں کہ وہ اپنے خاوند کے لئے کھانے پینے کی اشیاء تو دور کی بات ادویات بھی نہیں لے جا سکتیں تو مجھے پروفیسر شہرت بخاری کی اہلیہ فرخندہ بخاری کی کتاب ’’یہ بازی عشق کی بازی ہے‘‘ یاد آنے لگی۔ فرخندہ بخاری کو جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء میں گرفتار کر کے لاہور کے شاہی قلعے میں رکھا گیا تھا جہاں اُن کا جسم سگریٹوں سے داغا جاتا تھا اور کسی کو اُن سے ملاقات کی اجازت نہیں تھی۔ وہ مارشل لاء دور تھا، آج جمہوری دور ہے۔ فرخندہ بخاری پر حکومت کے خلاف بغاوت اور سازش کا الزام تھا۔ منشیات کی اسمگلنگ کا الزام نہیں لگایا گیا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی کئی سیاستدان گرفتار کئے گئے تھے لیکن ہم اُن سے جیل میں ملاقات کر لیا کرتے تھے۔ اس جمہوری دور میں بہت کوشش کی کہ خواجہ سلمان رفیق سے ملاقات ہو جائے کیونکہ وہ خاصے بیمار ہیں لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ بتایا گیا کہ ملاقات کی اجازت وزیر اعلیٰ ہی دے سکتا ہے، اب وزیر اعلیٰ کی منتیں کون کرے لہٰذا نامراد ہو کر لاہور سے واپس آ گیا۔مجھے یاد ہے کہ جب بہت سال پہلے آج کے وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کو ناجائز اسلحے کے ایک جھوٹے کیس میں سات سال قید سنانے کا فیصلہ کر لیا گیا تو میں اور عامر متین بھاگے بھاگے اڈیالہ جیل پہنچے اور ہم نے شیخ صاحب کو بتایا کہ آپ کو سات سال قید ہونے والی ہے کیونکہ جس جج نے سزا سنانی تھی وہ اپنا فیصلہ لکھ کر گورنر الطاف حسین کو دکھانے کے لئے لایا تھا اور ہم بھی وہاں موجود تھے۔ گورنر صاحب ہمارے ساتھ بڑی شفقت کرتے تھے لیکن شیخ رشید احمد کے ساتھ نا انصافی ہو رہی تھی۔ ہم خبر شائع نہیں کر سکتے تھے کیونکہ توہین عدالت لگ جاتی اس لئے شیخ صاحب کو جا کر سب بتا دیا۔ اسی جیل میں شہباز شریف، چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی کے ساتھ رانا ثناء اللہ نے میرے ہمراہ کئی ملاقاتیں کیں۔ پھر نواز شریف حکومت میں آئے تو اس جیل میں آصف زرداری سے ملاقات ہوتی تھی۔ پرویز مشرف کے دور میں یہاں جاوید ہاشمی اور یوسف رضا گیلانی سے ملاقات ہوتی تھی لیکن اب آصف زرداری اور نواز شریف سمیت تمام سیاستدانوں کو صرف اہل خانہ مل سکتے ہیں باقی لوگ نہیں مل سکتے۔ شاید آج کے حکمران بھول گئے ہیں کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا اور اقتدار ہمیشہ قائم نہیں رہتا۔ سیاستدانوں کا احتساب ضرور ہونا چاہئے۔ صحافیوں کا بھی احتساب کریں لیکن احتساب سے انتقام کی بو نہیں آنی چاہئے۔ جھوٹے مقدمات سے ریاست مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہوتی ہے۔ جھوٹے مقدمات کا انجام وہی ہوتا ہے جو ایک زمانے میں شیخ رشید احمد پر قائم کئے گئے جھوٹے مقدمے کا ہوا تھا۔ اب تو شیخ صاحب سے زیادہ ملاقات نہیں ہوتی لیکن جب انہیں سات سال قید سنا کر بہاولپور جیل بھیجا گیا تو میں وہاں بھی اُن کے ساتھ ملاقات کے لئے جایا کرتا تھا اور شیخ صاحب ہر ملاقات میں اپنی کتاب کے بارے میں صلاح مشورہ کرتے۔ جیل میں لکھی جانے والی اُن کی کتاب ’’فرزند پاکستان‘‘ 1995ء میں جنگ پبلشرز نے شائع کی تھی اور اس کتاب نے اُنہیں سزا سنانے والے جج لطف علی ملک کو ایک گالی بنا دیا۔ اس ملک میں سیاست کو گالی بنا دیا گیا ہے اگر جھوٹے مقدمات کے ذریعہ قانون کو بھی گالی بنا دیا گیا تو وقت بدلنے کے بعد آج کے حکمران بھی اس گالی سے بچ نہ سکیں گے۔