لاہور (ویب ڈیسک) حیرت کی موت ہو چکی، اسٹیٹ بینک بتائے، گزرے 6ماہ، سرمایہ کاری میں 77فیصد کمی، اسٹاک ایکسچینج سے 42کروڑ ڈالر کا انخلا، ایکسپورٹ بڑھی نہ امپورٹ گھٹی، مہنگائی بے قابو، بے روزگاروں کی تعداد میں ایک لاکھ کا اضافہ، امیروں سے ٹیکس لینے کی ہمت نہیں، غریبوں پر پھر سے ٹیکس لگنے والے،
نامور کالم نگار ارشاد بھٹی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ کرپشن کا ریٹ بڑھ گیا، بجلی، گیس چوری پھل پھول رہی، انڈسٹری بے یقینی کا شکار، کسان رُل گیا، ڈالر نئی اڑان بھرنے کو تیار، یہ ہے اس معاشی ٹیم کی کارکردگی، جس نے 22سالہ اپوزیشن کاٹی۔ 22سالوں بعد بھی ہوم ورک صفر، کنفیوژن الگ، اوپر سے ڈائریکشن لیس صورتحال، حیرت کی موت ہو چکی، پولیس ریفارمز، کچھ پتا نہیں، ادارہ جاتی اصلاحات کوئی اتا پتا نہیں، سادگی مہم، کچھ معلوم نہیں، غربت مٹاؤ پلان آنا تھا، 50لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریاں منصوبہ بھی تھا، نیا صوبہ بننا تھا، کسی شے کا کوئی سر نہ پیر، حیرت کی موت ہو چکی، دو چار وزیروں کو چھوڑ کر وفاق، پنجاب، خیبر پختونخوا کے سینکڑوں وزیر مشیر کیا کر رہے، کچھ پتا نہیں، آدھا پاکستان عثمان بزدار کے رحم و کرم پر، اوپر والا پورشن خالی، چہرے پر دانائی کے علاوہ سب کچھ، ممنائی ممنائی باتیں، سنو تو سر پیٹنے کو دل چاہے، سر سے پاؤں تک وٹا، روڑا، پتھر مبارک، لیکن تبدیلی چاند کے نخرے ایسے کہ ہیلی کاپٹروں میں لاہور سے گوجرانوالہ تشریف لائیں، اٹھارہ سے 28اٹھائیس گاڑیوں کے کارواں میں پھریں، حلوائی کی دکان نانا جی کی فاتحہ۔حیرت کی موت ہو چکی، پنجاب کا کلچر فیاض الحسن چوہان کے حوالے، یوں لگے زبان موصوف کو نہیں موصوف زبان کو لگے ہوئے، مجسم زبان بلکہ بدزبان، حالت یہ جس دن کوئی نہ ملے، اس دن خود سے لڑیں، 5ماہ میں ایک ڈھنگ کی بات نہ کی، اپنے اتحادی تک تنگ، حیرت کی موت ہو چکی، ایجنڈا عمران خان کا، بیورو کریسی ہاؤس آف شریفس کی، سیاسی ٹیم پی پی، لیگیوں کا داغی مال، ایجنڈے پر فوکس کے بجائے چومکھی لڑائیاں، سب کے سب ملکہ جذبات، سارے کے سارے مولا جٹ اور نوری نت، حیرت کی موت ہو چکی، اسحاق ڈار، حسن، حسین کو واپس لانا تھا، ابھی تک باتیں ہی باتیں، شہباز شریف سے کرپشن کا حساب لینا تھا، انہیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنا کر کہہ دیا گیا، چھوڑو اپنے گھپلے، ہمارا آڈٹ کرو، نواز شریف سے لٹی دولت نکلوانا تھی، انہیں غالبؔ، اقبالؔ کے دیوان پکڑا کر کوٹ لکھپت جیل میں من چاہی سہولتیں دے کر کہہ دیا، اب یہاں آرام سے پارٹی صدارتیں کرو، گھر کے کھانے کھاؤ، زرداری صاحب اینڈ کمپنی کا احتساب کرنا تھا، چڑھائی سندھ پر کر دی، منہ کی کھائی، اب کھسیانی بلی کھمبا نوچے والا ماحول۔حیرت کی موت ہو چکی، بھٹو کا نواسہ، بے نظیر بھٹو کا لخت جگر،پیپلز پارٹی کا مستقبل بلاول دفاع کر رہا، ڈاکٹر عاصموں، شرجیل میمنوں، انور مجیدوں کا، سندھ نعروں، وعدوں، دعوئوں کا قبرستان بن چکا، سندھ کرپشن کا گڑھ ہوا، سندھ بیڈ گورننس کا شہکار ٹھہرا، حتیٰ کہ لاڑکانہ ابلتا گٹر مگر بیک وقت بھٹو، زرداری، بلاول کو تقریروں سے فرصت نہیں، گلابی اردو، شتابی لہجہ، گلا پھاڑ دھمکیاں، ہنس ہنس کر پیٹ درد ہو جائے، پچھلے دس سالوں سے ارب پتی بلاول تقریریں ٹھوکی جا رہا، سندھ اور سندھیوں کیلئے ایک کام بھی نہ کیا، حیرت کی موت ہو چکی۔ نواز شریف نے جن اداروں پر چڑھائی کی، ٹکے ٹکے کی باتیں سنائیں، انہی اداروں سے انہیں ریلیف مل رہا، زرداری صاحب جنہیں روز تڑیاں لگا رہے، انہی سے مستفید بھی ہو رہے، مطلب یہی کہ قانون کا احترام غریب کرے اور قانون کی ماریں بھی غریب کھائے، حیرت کی موت ہو چکی، کل پاناما، جے آئی ٹی ارکان نے سپریم کورٹ میں درخواست دی، جانوں کو خطرہ، تحفظ فراہم کیا جائے، آج منی لانڈرنگ جے آئی ٹی اور گواہوں سمیت 54لوگ سپریم کورٹ سے درخواست کر چکے کہ ہماری، ہمارے خاندانوں کی جانیں خطرے میں، تحفظ فراہم کیا جائے، یعنی ڈرانے والے ڈرے ہوئے، ثابت ہوا، پاکستان گاڈ فادرز، سسلین مافیاز کا، حیرت کی موت ہو چکی۔پی پی، لیگی مطلب بھٹو، ضیاء کا پھر سے اتحاد ہو چکا، قاتل اعلیٰ، علی بابا جپھی مار چکے، شہباز شریف، بلاول ساتھ ساتھ بیٹھ چکے، زرداری صاحب کا وہ کہنا ’’نواز شریف درندہ، دھرتی کا ناسور، اب اسے نہیں معاف کرنا، معاف کیا تو اللہ ہمیں معاف نہیں کرے گا‘‘ وہ شہباز شریف کا کہنا ’’زرداری تجھے لٹکاؤں گا، پیٹ چیروں گا، سڑکوں پر گھسیٹوں گا‘‘ وہ بلاول کا کہنا ’’شہباز شریف قاتلِ اعلیٰ‘‘، وہ سعد رفیق سے، خواجہ آصف تک سب کا زرداری صاحب کا نام آنے پر کانوں کو ہاتھ لگانا، چونکہ دونوں دھڑوں کی جان شکنجے اندر، دونوں کی بقا کا مسئلہ، دونوں کا مشن کھال بچاؤ، آل بچاؤ اور مال بچاؤ، لہٰذا دونوں نے مل کر سیاسی دو نمبری کی نئی تاریخ رقم کر دی۔ حیرت کی موت ہو چکی، خود زرداری صاحب اور شریف برادران کے پاس تو اپنے دفاع کیلئے ایک ثبوت نہ گواہ مگر رضا ربانی سے اعتزاز احسن اور احسن اقبال سے مریم اورنگزیب تک سب ابھی بھی زرداری صاحب اینڈ کمپنی اور شریفس کا دفاع فرما رہے، حیرت کی موت ہو چکی، جنہیں کالے کرتوتوں کی وجہ سے منہ چھپانا تھا، ان سے سب منہ چھپانے پر مجبور، جنہیں پاکستان اور 22کروڑ کا مقدمہ لڑنا تھا، وہ اپنے خاندانوں کے وکیل نکلے،جنہیں اگلی نسل کا سوچنا تھا وہ اپنے بچوں کا مستقبل سنوارنے میں لگے رہے، حیرت کی موت ہو چکی، کل تک نواز شریف، مریم نواز کو انقلابی مان کر جو انقلاب کی خبریں سنایا کرتے تھے، آج وہ نواز شریف، مریم کی چپ سے حکمتیں نکال رہے، کل تک جو زرداری صاحب کو مفاہمت کا گرو مان کر تعریفیں کر کر نہ تھکتے تھے، آج وہ ان کے انقلابی ہونے پر پھولے نہیں سما رہے، حیرت کی مو ت ہو چکی، قوم کا احساسِ زیاں جاتا رہا، ان کے ہاں کرپشن، منی لانڈرنگ، لٹ مار، جھوٹ، دو نمبریوں کی کوئی وقعت ہی نہ رہی، کل بھی میاں دے نعرے وج رہے تھے، آج بھی میاں دے نعرے وج رہے، کل بھی ہر گھر سے بھٹو نکل رہا تھا، آج بھی ہر گھر سے بھٹو نکل رہا، سب کو معلوم، بھٹو کو مارا ضیاء نے، بھٹو ازم مار چکے زرداری صاحب، پھر بھی ’کل بھی بھٹو زندہ تھا، آج بھی بھٹو زندہ ہے‘، یاد آیا! ابھی پچھلے کالم میں جاوید ہاشمی کی کہانی سنائی، سدا بہار غلامی کا یہ واقعہ سنانا بھول گیا، سن لیں، تحریک انصاف کا بڑا رہنما بتائے۔ ہم ہاشمی صاحب کے ساتھ کوئٹہ میں، رات کا دوسرا پہر، باتیں کرتے کرتے اچانک ہاشمی صاحب ہچکیوں سے رونے لگے، یوں اچانک ان کے رو پڑنے پر ہم پریشان، سب ان کے اِردگرد جمع ہوئے، دلاسے، تسلیاں دے کر وجہ پوچھی تو آنسو بہاتے ہاشمی صاحب بولے ’’یار میں نے نواز شریف کا ساتھ دے کر زندگی کا بڑا حصہ تباہ کر لیا، جھوٹ بولے، منافقت کی، یہ سوچ کر رو رہا، پتا نہیں معافی ملے گی یا نہیں، میں اس کا مداوا کر پاؤں گا یا نہیں‘‘ یہ کہہ کر ہاشمی صاحب پھر رونے لگے۔دوستو! آج وہی جاوید ہاشمی پھر سے تن، من سے نواز شریف کے ساتھ کھڑے بلکہ شریفس کی طرف سے No liftکے باوجود یکطرفہ محبتیں جھاڑ رہے، ون وے عشق فرما رہے، کیوں کیسا ہے، ایسے تو نہیں کہہ رہا کہ اب یہاں کسی قول، فعل پر کوئی حیرت نہ ہو، حیرت کی موت ہو چکی۔