یہ میڈیا کی یلغار، متنوع انفارمیشن کے اندھے طوفان اور پروپیگنڈے کی جنگ کا زمانہ ہے۔ پاکستان کی تقریباً نصف سے زیادہ آبادی کے پاس موبائل فون ہیں۔ یہ ناطقی آلہ ایسا جِنّ بن گیا ہے جو ایس ایم ایس، ٹوئٹر اور فیس بک کی شکلوں میں مختلف رُوپ دھار کر انسانوں پر حملہ آور ہو رہا ہے۔ 28 جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ نے جناب نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹایا تو بھی موبائل فونوں پر مخالفین نے میاں صاحب کے خلاف ایک طوفانِ بد تمیزی برپا کیے رکھا۔ کیا ہم اخلاقی طور پر دیوالیہ کے کنارے پہنچ چکے ہیں؟ شنید ہے کہ حکومت سوشل میڈیا کی بے لگامی سے نمٹنے کی تیاریاں مکمل کر چکی ہے۔
انفراسٹرکچر بن چکا ہے اور متعلقہ ٹیکنالوجی پر دسترس رکھنے والے نوجوان ماہرین بھرتی بھی کر لیے گئے ہیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو یہ بڑی قومی خدمت ہو گی کہ چین اور سعودی عرب ایسے کئی ممالک بھی اِسی سرکاری انداز میں سوشل میڈیا کے پسِ پردہ چھپے سماج و ملک دشمن گروہوں کے خلاف کامیابی کے ساتھ نمٹے ہیں۔ جنابِ ممنون حسین صدرِ مملکت بنائے گئے تو بھی ہمارے معاشرے کے کئی مفسد عناصر نے اِسی شریر آلے کو بروئے کار لاتے ہُوئے اُن کے بارے میں کئی نامناسب اور دل آزار باتوںکو اَپ لوڈ کر دیا تھا۔ سابق رکن صوبائی اسمبلی و پارلیمانی سیکریٹری اور ہلالِ احمر پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر سعید الٰہی کے پاس بیٹھے کئی احباب کی موجودگی میں سابق وزیر اعظم جناب نواز شریف اور صدرِ مملکت جناب ممنون حسین کے بارے میں بات چیت کا آغاز ہُوا تو موبائل فون کی شیطانیوں کا ذکر بھی چھِڑ گیا۔
سابق وزیر اعظم کے خلاف سوشل میڈیا پر حالیہ بیہودگیوں پر سعید الٰہی صاحب کو دلگرفتہ پایا۔ اُن کے پاس لندن، مانچسٹر، راچڈیل اور برمنگھم سے آئے احباب کا مجمع بھی رونق لگائے ہُوئے تھا۔ ڈاکٹرسعید الٰہی بتا رہے تھے: ’’مجھے کئی برسوں سے جناب ممنون حسین کی شاندار صحبت میں بیٹھنے کے کئی مواقع میسر آتے رہے ہیں۔ مَیں نے ہمیشہ اُنھیں مہذب اور متین پایا ہے۔ کبھی کوئی بیہودہ اور اخلاق سے فروتر بات اُن کی زبان سے نہیں سُنی۔ وہ چین کے سرکاری دَورے پر تھے تو مَیں بھی اتفاق سے وہیں تھا۔ اُنھوں نے چین میں پاکستان کی جس شاندار اسلوب میں نمایندگی کی، وہ ہمیشہ یاد رہے گی۔
مجلس میں بیٹھے کسی شخص نے ڈاکٹر سعید الٰہی سے پوچھا: ’’مجالس کو کم کم آباد کرنے والا شخص، جیسا کہ ممنون حسین صاحب ہیں، اور میڈیا کی آنکھ سے دُور رہنے والا آدمی صدرِ مملکت کیسے بن گیا؟‘‘ یہ سوال اُس وقت بھی کیا گیا تھا جب میاں نواز شریف اور اُن کے اتحادیوں کی نظرِ انتخاب جناب ممنون حسین پر مرتکز ہو گئی تھی۔ ڈاکٹر سعید الٰہی سوال کا جواب دیتے ہُوئے کہنے لگے: ’’آصف علی زرداری کے رخصت ہونے کے بعد نئے صدر کے انتخاب کا مرحلہ سامنے آیا تو تین نام سامنے لائے گئے تھے۔ تینوں ہی محترم اور معتبر تھے۔
وزیر اعظم نواز شریف صاحب نے اپنے رفقا اور قریبی ساتھیوں کے مشورے کے بعد ممنون حسین صاحب کا انتخاب کیا کہ پاکستان اور نظریہ پاکستان کے ساتھ اُن کی کمٹمنٹ اور تعلق اٹوٹ ہے، ناقابلِ شکست اور بھرپور۔ اُن کا پورا خاندان ہمیشہ سے مسلم لیگی رہا ہے۔ اُن کے والد گرامی تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکن رہے۔ خود ممنون حسین سندھ کے گورنر بھی رہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کے معتمد علیہ بھی تھے کہ جنرل مشرف نے بندوق کی طاقت سے اُنھیں وزارتِ عظمیٰ سے محروم کیا اور قید میں ڈالا تو بھی ممنون حسین کے قدم ڈولے نہ سیاسی وابستگی متزلزل ہُوئی۔ ایسے میں ممنون حسین سے زیادہ کونسا شخص صدرِ مملکت کے عہدے کے لیے موزوں ہو سکتا تھا؟‘‘ کسی نے ہولے سے استفسار کیا: ’’یہ فیصلہ نواز شریف نے میرٹ پر کیا تھا؟‘‘ تو ڈاکٹر صاحب نے کسی تاخیر کے بغیر جھَٹ سے کہا: ’’بالکل، یہ فیصلہ قطعی طور پر میرٹ پر تھا۔‘‘ گزشتہ چار برسوں کا احاطہ کیا جائے تو یہ خوش کن منظر سامنے آتا ہے کہ صدرِ مملکت جناب ممنون حسین اور جناب نواز شریف کے درمیان ہر نوع کے کار سرکار میں آئیڈیل ہم آہنگی رہی۔
اِس یادگار مجلس میں صدرِ مملکت جناب ممنون حسین کے بارے میں بعض دلچسپ اور نئی باتیں بھی سننے کو ملیں۔ نئی اس لیے کہ جناب صدر ’’میڈیا شائی‘‘ ہیں، اس کارن اُن کی شخصیت کے کئی قابلِ تحسین گوشے عوامی نظروں سے اوجھل ہو کر رہ گئے ہیں۔ ڈاکٹر سعید الٰہی صاحب بتا رہے تھے: ’’صدر ممنون حسین صاحب بچپن میں کراچی کے ایک معروف دینی مدرسے میںدرسِ نظامی کے بھی طالبعلم رہے ہیں۔ تین سال غالباً وہاں زیر تعلیم رہے۔ پھر یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔‘‘ ڈاکٹر صاحب یہ انکشاف کر رہے تھے اور میرے ذہن میں صدرِ پاکستان جناب ممنون حسین کے بارے میں کئی پرتیں کھلتی جا رہی تھیں۔
ایوانِ صدر، اسلام آباد، میں جتنی بار بھی اخبار نویسوں کے ہجوم میں اُنھیں دیکھنے اور اُن کی باتیں سُننے کے مواقع ملے ہیں، ہمیشہ اُنھیں دینِ اسلام کی سر بلندی اور شخصی زندگی میں مذہبِ اسلام کی برکتوں کا ذکر کرتے سُنا۔ مجھے اِس بات کا تجسس تھا کہ جناب ممنون حسین کی زندگی میں مذہبی روایات کا جو اتنا احترام نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ گتھی ڈاکٹر سعید الٰہی صاحب کی گفتگو سے سلجھی۔ جناب ممنون حسین، قائد اعظم علیہ رحمہ کے عاشقِ صادق ہیں۔ پاکستان اور بانیِ پاکستان کی خاطر اُنھوں نے اور اُن کے والدین نے ہجرت کی تھی۔ ماہ اگست کی برکتوں اور عظمتوںکا ذکر کوئی اُن سے سُنے۔ فنانس کی تعلیم حاصل کی اور کاروبار کو ذریعہ روزگار بنایا۔ ڈاکٹر سعید الٰہی بتا رہے تھے: ’’کراچی، لاہور، دبئی، جدہ، لندن میں جناب ممنون حسین سے(اُن کے صدر بننے سے پہلے) کئی ملاقاتیں رہیں۔
ہر ملاقات میں اُنھیں پہلے سے زیادہ شفیق پایا۔ شعر و شاعری سے گہری رغبت رکھنے اور شاعروں و ادیبوں کا بہت احترام کرنے والے صدرِ مملکت جناب ممنون حسین کو خود بھی لا تعداد اشعار یاد ہیں۔ اپنے سرکاری خطابات اور نجی گفتگو میں بر محل اشعار پڑھتے ہیں اور مجلس میں برقی لہر دوڑ جاتی ہے۔ اُن کی اہلیہ، محترمہ محمودہ ممنون حسین، نے بھی ہر قدم پر اپنے شریف النفس شوہر کا خوب ساتھ نبھایا ہے۔‘‘ ہمیں بتایا گیا کہ صدر صاحب اپنے قریبی احباب کی بیٹھک میں بڑی دلچسپ، خوشگوار اور پُر لطف گفتگو کرتے ہیں۔ وہ ’’چین پاکستان اقتصادی راہداری‘‘ (المعروف سی پیک) کے زبردست حامی اور اِسے پاکستانی معیشت کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ جناب ممنون حسین کی نستعلیق، شفاف اور بے داغ شخصیت کا کمال ہے کہ آج کا ایوانِ صدر اُن ’’معمولات‘‘ سے منزّیٰ اور مبرّا ہے جو معمولات گزشتہ دَورِ صدارت میں ایوانِ صدر کا طرۂ امتیاز بن گئے تھے۔
جناب صدر ممنون حسین کے دو صاحبزادے ہیں: زاہد حسین اور شاکر حسین۔ دونوں اپنے نیک نفس والد ِگرامی کے حکم پر ایسی خاموش زندگی گزار رہے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہو رہی۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کے صاحبزادگان (اشرف علی خان، ولائت علی خان، اکبر علی خان) نے بھی اسی طرح خاموش زندگی گزاری۔ کوئی ہنگامہ برپا کیا نہ کسی کرپشن کے مرتکب ہُوئے۔ ابھی تین دن پہلے جناب صدر نے (مبینہ عبوری وزیر اعظم) شاہد خاقان عباسی صاحب سے حلف لیا ہے۔
اعلانات کے مطابق اگر یہی حالات جاری رہے تو چند ہفتوں بعد شہباز شریف بھی جناب ممنون حسین کے سامنے وزیر اعظم کا حلف اٹھائیں گے۔ گویا نواز شریف صاحب کہیں نہیں گئے۔ ہمارے محترم صدر صاحب ستمبر 2018ء تک اپنے عہدے پر فائز رہیں گے۔ قومی انتخابات اگر وقت اور شیڈول کے مطابق ہُوئے تو جون 2018ء میں بننے والی نئی حکومت کے نئے منتخب وزیر اعظم بھی جناب ممنون حسین کی موجودگی میں حلفِ وفاداری اٹھائیں گے۔ عین ممکن ہے یہ نئے وزیر اعظم بھی شریف برادران میں سے کوئی ایک ہو۔ جناب نواز شریف مبینہ طور پر مری سے براستہ راولپنڈی، لاہور جانے کا جو بھرپور اہتمامی پروگرام بنا رہے ہیں، اِس نے نون لیگ کو ایک نئی توانائی دے دی ہے۔ دیکھئے ، اَنت کیا ہوتا ہے!!