لاہور (ویب ڈیسک) وہ جس کی جستجو میں برس ہا برس مشعلیں اٹھا کر چلے یہ وہ منزل تو نہیں۔ وہ جس کے لئے ایک سو چھبیس دن ڈی چوک آباد رکھا یہ وہ نیا پاکستان تو نہیں۔وہ جو ’’تبدیلی آ چکی تھی‘‘ یہ وہ تبدیلی تو نہیں۔ وہ جو حسن نثار نے ’’دو نہیں ایک پاکستاننامور کالم نگار منصور آفاق اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔کا نعرہ دیا تھا، وہ کیا ہوا۔وہ جو خلقِ خدا نے راج کرنا تھا۔ وہ جو پچاس لاکھ مکان تعمیر ہونا تھے۔ وہ جو ایک کروڑ بے روزگاروں کو روزگار فراہم کیا جانا تھا۔ اُن کا کیا ہوا۔ امید بھری آنکھوں کو کس کی نظرِ بد کھا گئی ہے۔یہ کس نے ہمارے خوابوں کی کرچیاں، گلی کوچوں میں بکھیر دی ہیں۔ ہم تو خوش تھے کہ لوٹنے والے سلاخوں کے پیچھے پہنچ چکے ہیں مگر افسوس اُن کے ہاتھ ابھی تک اقتدار کے ایوانوں میں موجود ہیں۔ہمارا لیڈر انہی ہاتھوں کی قید میں ہے۔ ’’بیورو کریسی‘‘ اور ’’برا کریسی‘‘ سے اُسے کون رہائی دلائے گا۔ کون اُس دروازے کو کھولے گا جس میں پروفیسر احمد رفیق اختر کی پُرتقدس آواز گونج رہی ہے۔جہاں ہارون الرشید کی دلنواز یادیں پڑی ہیں۔ جہاں ڈاکٹر شعیب سڈل کا چہرہ نمایاں ہے۔ جہاں ڈاکٹر امجد ثاقب دکھائی دے رہے ہیں۔ جہاں انوار حسین حقی موجود ہیں۔جہاں پی ٹی آئی کے حوصلوں اور ارادوں سے بھرے ہوئے کارکن دوڑتے پھرتے ہیں (جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے)۔وہ جو تم نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں دریائے آکس کے کنارے چلتے ہوئے کہا تھا ’’نئے پاکستان میں جو بھی بچہ پیدا ہوگا اس کی ذمہ دار ریاست ہوگی۔ ان کے والدین کو ہر ہفتےان کے اخراجات کے لئے ایک معقول رقم ملا کرے گی۔ ان کی تعلیم اس کی صحت کی ذمہ داری حکومت پر ہو گی۔امجد علی خان!(ایم این اے ) کیا یہ کسی اور سیارے کے بچے ہیں جنہیں قصور میں کئی برسوں سے مسلسل زیادتی کے بعد قتل کیا جا رہا ہے۔
کیا تم بھول گئے ہو کہ۔۔۔اپنے نزدیک انسانی اعمال میں۔۔۔جرم کی آخری انتہا قتل ہے۔۔۔۔۔تم تو کہتے تھے ’’ہر بے روزگار کو بے روزگاری کے دنوں میں الائونس ملے گا‘‘۔ یہ جو سرکاری لنگر خانے میں کھانے کی تقسیم جاری ہے یہ شاید وہی بے روزگاری الاونس ہے۔وہ جو تم نےکہا تھا اور میں نے لکھا تھا کہ (جب آئے گا عمران خان)۔ وہ تمام عورتیں اور مرد جن کی عمر 65سال سے زیادہ ہو جائے گی انہیں پنشن ملے گی۔ چاہے کبھی انہوں نے نوکری کی ہو یا نہ کی ہو۔بڑے بوڑھے اور بڑی بوڑھیاں اُس کے متعلق پوچھتی پھرتی ہیں۔ بولو نا یار۔ میں کیا جواب دوں؟۔چاروں طرف اٹھی ہوئیں چشمِ سوالیہ۔۔۔۔سینے کو چیرتی چلی جاتی ہیں، کیا کروں۔۔۔کچھ یاد آیا تم نے کہا تھا اور میں نے لکھا تھا کہ ’’ہر وہ آدمی جس کے پاس گھر نہیں ہوگا حکومت اسے کرائے پر گھر فراہم کرے گی اور اس وقت تک اس کا کرایہ خود ادا کرے گی جب تک وہ کرایہ ادا کرنے کے قابل نہیں ہو جاتا‘‘۔وہ سارے لوگ انہی گھروں کے انتظار میں تمہاری بنائی ہوئی پناہ گاہوں کی دہلیز پر بیٹھے ہوئے ہیں۔عالمی بینک کے اک وفد کی تجویز پہ لوگ۔۔۔منتظر کس کے ہیں بیٹھے ہوئے دہلیز پہ لوگ۔۔۔۔وہ جو تم نے کہا تھا کہ ’’ہیلتھ کی سہولتیں تمام لوگوں کیلئے مفت ہوں گی‘‘۔ وہ ہیلتھ کارڈز کہاں گئے جو ہر شخص کو ملنا تھے اور یہ جو چند ہزار ہیلتھ کارڈ کچھ لوگوں کو ملے ہیں کچھ پتا ہے کہ کس انشورنس کمپنی کے ہیں۔کیا اسی انشورنس کمپنی کے تو نہیں جس نےپچھلے پانچ سال میں اُن ہیلتھ کارڈوں سے اربوں روپے کمائے جو خیبر پختون خوا میں جاری کئے گئے۔کچھ بتائو نا یار۔ تم نے تو کہا تھا کہ ’’نئے پاکستان میں ہر کمانے والے کو ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ ٹیکس کی شرح آمدنی کے ساتھ بڑھتی جائے گی۔
مثال کے طور پر سال میں دو لاکھ روپے کمانے والے پر بیس فیصد ٹیکس ہو گا۔دو لاکھ سے لے کر پچاس لاکھ کمانے والے پر چالیس فیصد ٹیکس ہوگا اور اس سے زیادہ کمانے والے کو ساٹھ فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ہر شخص کا مکمل ڈیٹا کمپیوٹرائزڈ ہوگا۔ کوئی شخص اپنی آمدنی چھپا نہیں سکے گا اور آمدنی چھپانے پر جرمانے کے ساتھ قید بامشقت کی سزا بھی ملے گی‘‘۔ وہ ٹیکس لگانے اور لینے والے کہاں چلے گئے۔وہ ہمارا اسد عمر کہاں گم ہو گیا ہے۔ کیوں دولت مندوں پر جو ٹیکس لگنا تھے وہ نہیں لگے۔ کیوں تمام ٹیکس عام آدمی پر، متوسط طبقے کے لوگوں پر لگائے گئے ہیں۔ سرکاری ملازموں پر تو اتنا ٹیکس لگا دیا گیا ہے کہ تنخواہوں میں اضافے کے باوجود ہر ملازم کی تنخواہ میں کمی ہوئی ہے۔آخر کیوں ابھی تک وہی لٹیروں سے بھری اشرافیہ ہم پہ مسلط ہے۔ ابھی تک اُسی سسلین مافیا کے ہرکاروں کے ہاتھوں میں ہماری قسمتوں کے گوشوارے کیوں ہیں۔ وہی مسلسل مالداروں کے خزانے بھرتے چلے جارہے ہیں اور غریب، غریب تر ہو رہاہے۔یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر۔۔۔وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں۔۔۔کچھ یاد ہے تم نے کہا تھا ’’کوئی بڑا آدمی ہو یا چھوٹا سب کیلئے انصاف برابر ہوگا۔ عدالتیں ہر شخص کو مکمل انصاف فراہم کریں گی۔ مقدمہ لڑنے کیلئے اگر کسی کے پاس رقم نہیں ہوگی تو اسے وکیل حکومت فراہم کرے گی‘‘۔ کچھ بتائو کہاں گیا وہ انصاف، کہاں ہیں وہ عدالتیں۔اپنے قاسم خان سوری جو ڈپٹی اسپیکر ہیں۔ تمہیں پتا ہے نا تمہاری طرح وہ بھی متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ابھی جو انہیں کیس لڑنا پڑا ہے۔ کچھ پتا ہے کہ انہوں وکیلوں کی فیسیں کیسے ادا کی ہیں۔امجد بھائی! ابھی تک یہاں انصاف اتنا مہنگا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی بھی وکیلوں کی فیسیں ادا نہیں کر سکتے۔ بیچارے عوام کیا کرتے ہونگے۔ اب تو شاعر تک کہنے لگے ہیں ۔۔ انصاف کی تلاش میں نکلا تھا مدعی ۔۔ ساری رقم گرہ کی وکیلوں میں بٹ گئی۔