لیڈر آتے‘ دوچار امیدیں ظاہر کرتے اور پھر مایوسی کے اندھیروں میں دھکے دے کر عوام کو مایوس کر دیتے۔مقابلہ نہ عوام کی خدمت کا تھا ‘ نہ ملک کوترقی و شادمانی کے راستے پر گامزن کرنا تھا۔مقابلہ صرف زر اندوزی کا تھا۔جس قبیل کے لیڈر بازار میں رہ گئے
ان کی منزل صرف اور صرف زر اندوزی تھی؛ اگر کوئی خدا کا بندہ عوام کی خدمت گزاری میں نمودار بھی ہوا تو یہ لیڈر امیدوں کے روشن چراغوں کوبجھاتے ہوئے عوام کو مایوس کر کے چلتے بنتے۔ آج لیڈروں کے بازار میں مایوس کن چہرے ہی دکھائی دے رہے ہیں؛ البتہ زر اندوزی میں ایک سے بڑھ کر ایک ‘دوسرے کو دھکے دیتے ہوئے آگے بڑھتے نظر آتے ہیں۔ فی الحال عمران خان کی صورت میں ایک چراغ روشن ہوتا نظر آتا ہے‘ مگر اتنی جلدی امیدیں باندھنا بھی اچھا نہیں ہوتا۔ میں نے بے شمار لیڈر دیکھے ہیں ۔ا ن سے امیدیں باندھی ہیں۔ دو چار قدم ان کے پیچھے چلا ہوں اور پھر اس چراغ سے روشنی کی کوئی کرن نکلتی دکھائی نہ دیتی۔ عمران خان لیڈروں کے جس اجتماع کو ساتھ لے کر آگے بڑھ رہے ہیں ‘اس بازار کی منڈی میں عوامی خواہشات کو پورا کرنے کی ہمت اور حوصلہ شاید ہی کسی میں نظر آتا ہو۔میں نے عمران خان سے بھی کوئی خاص امیدیں نہیں باندھی تھیں۔ امیدیں باندھنے کا کوئی خاص منظر بھی سامنے نہیں تھا۔ابھی تک بھی امیدوں میں روشنی کی لویں نظر نہیں آرہیں‘
جس لیڈر شپ کے گندے بازار سے میں اور میری طرح کے دیگر لوگ اپنی قسمت سے فیض یاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ‘ ان کی امیدوں کا برآنا بھی آسان کام نہیں ۔جب عام انتخابات کا منظر جما اور عام سے لوگ سیاست میں قسمت آزمائی کرتے دکھائی دئیے۔ ان سے کوئی خاص امیدیں وابستہ کرنا مشکل تھا‘ لیکن ایک بات حیرت انگیز تھی کہ عمران خان جو انتخابات سے قبل قدو قامت کے لیڈر نظر نہیں آرہے تھے‘ وہ انتہائی پرُ امید دکھائی دئیے اور پھر وہ لوگ جو کبھی سیاسی منظر میں دکھائی نہیں دئیے تھے‘ وہ عمران خان کی قیادت میں سرگرم ہونے کو بے تاب تھے۔ عمران کی پارٹی خاص جوش و خروش کا مظاہرہ نہیں کر رہی تھی اور جو روایتی سیاسی کارکن یا لیڈر دکھائی دیتے تھے‘ ان سے بھی کوئی پر ُجوش امیدیں وابستہ نہیں تھیں۔سچی بات تو یہ ہے کہ جو انتخابات کی منڈی میں اترے تھے‘ وہ زیادہ پرُجوش نہیں تھے ‘لیکن عام آدمی کا رخ عمران خان کی طرف تھا۔ انتخابات میں کوئی روایتی جوش و خروش بھی نہیں تھا ‘ جو آئے وہ نیم دلی سے آئے ‘ پھر انتخابات کا ہلہ گلہ شروع ہو گیا۔ جوامیدوار‘ میدان میں اترے‘ ان میں اکثریت عام آدمیوں کی تھی۔انہی لوگوں کو لے کر عمران خان میدان میں اترے ۔سچی بات ہے ‘جس طرح بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی دھڑام سے میدان میں اتری تھی‘اسی طرح عمران اپنے کارکنوں کو لے کرنہ اتر سکے۔ انتخابی نتائج بھی کچھ ایسے ہی تھے۔بڑی مشکل سے عمران خان کی پارٹی میدان میں اتری۔ کارکنوں کے عزم و ہمت کا تو اس وقت بھی منظر نہیں تھا‘ جو پیپلز پارٹی کے پہلے انتخابات کے وقت تھا۔ عمران خان کی پارٹی انتخابات میں برائے نام اکثریت کے ساتھ سامنے آئی اور اب کیا ہے؟ اس پر میں فی الحال میں کچھ نہیں کہوں گا۔میں نے بھٹو صاحب کے پر ہجوم جلسے اور جلوس دیکھے ہیں۔ وہ بھاری اکثریت سے کامیاب بھی ہوئے‘ لیکن پھر کیا ہوا…؟