counter easy hit

صدر ٹرمپ اور خارجہ پالیسی

دنیا سے اسلامی دہشتگردی ختم کریں گے،کسی پر اپنا نظریہ مسلط نہیں کرنا چاہتے۔ اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے تمام ممالک سے دوستی کریں گے۔ دوسروں کے دفاع پر امریکا کے اربوں ڈالر خرچ نہیں کر سکتے۔ اسٹیبلشمنٹ نے اپنا تحفظ کیا، امریکیوں کا نہیں۔ امریکا کے 45 ویں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھاتے ہی اپنی پہلی تقریر میں اپنی ڈاکٹرائن بیان کردی۔

تاریخ میں پہلی دفعہ امریکا سمیت کئی یورپی ممالک میں ٹرمپ کے خلاف مظاہرین ایک نئی تاریخ رقم کرگئے۔کینیڈا کے ایک صحافی نے تجزیہ کیا کہ امریکا میں بڑی تیل کمپنیوں کی بالادستی کا دورشروع ہوگیا۔ پاکستان بھی صدرٹرمپ کی نئی ڈاکٹرائن سے متاثرہوسکتا ہے۔کیا امریکا میں آنے والی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے پاکستانی ریاست تیارہے؟ سیاسی رہنما پانامہ لیکس کی جنگ میں مصروف ہیں۔کیا اگلے 90 دن   نئی حکمت عملی تیارکرنے کے ہیں؟ صدر ٹرمپ امریکی تاریخ کے ایک منفرد صدر ہیں۔

جب انھوں  نے ریپبلکن پارٹی کا صدارتی امیدوار بننے کے لیے اپنی خواہش کا اظہارکیا تھا تو امریکا میں کسی نے ٹرمپ کوسنجیدہ امیدوارکے طور پر نہیں لیا تھا۔ٹرمپ کا ذاتی کردار بہت متنازعہ تھا۔ ٹرمپ جوایک ایمپائرکے مالک ہیں مختلف نوعیت کے اسکینڈلز میں گھرے ہوئے تھے۔ ان پر ٹیکس چوری کرنے اورخواتین کو ہراساں کرنے جیسے الزامات تھے۔ انتخابی مہم کے دوران کئی خواتین نے ٹرمپ پر جنسی حملوں کا الزام لگایا تھا۔

ٹرمپ امریکی ذرایع ابلاغ سے پہلے دن سے جھگڑا کررہے تھے، یہ جھگڑا اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا دونوں سے تھا۔ امریکی میڈیا نے ٹرمپ کے بارے میں منفی خبریں شایع کیں۔ابلاغیات کے ماہر ڈاکٹر عرفان عزیز نے امریکی میڈیا کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مین اسٹریم امریکی میڈیا نے ٹرمپ کے منفی کردارکو بہت زیادہ ابھارا، شاید مبالغہ آرائی تک ٹرمپ کی شخصیت کو نشانہ بنایا گیا اور انتخاب کے آخری مرحلے میں توکئی بار ٹرمپ کے انتخابی معرکہ سے دستبردار ہونے کی خبریں تک بریکنگ نیوزکے طور پر نشر کی گئیں۔

ٹرمپ کا دارومدار مقامی اور سوشل میڈیا پر رہا۔ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو یہ نعرہ دیا کہ مین اسٹریم میڈیا اپنے مفادات کے لیے حقائق مسخ کررہا ہے۔اسی بناء پر میڈیا کے پھیلائے ہوئے مواد پر توجہ نہ دی جائے، یوں میڈیا کا پروپیگنڈا بے اثر ہوگیا۔ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں مختلف نوعیت کے نئے اعلانات کیے۔ان اعلانات میں جہاں میکسیکو اور امریکا کے درمیان دیوار اور روس سے اچھے تعلقات کا ذکر ہوا وہاں ڈاکٹر شکیل آفریدی کی فوری رہائی، حقانی گروپ کے خلاف آپریشن،داعش اور طالبان کے خلاف کارروائی اور بھارت سے دوستی جیسے معاملات شامل تھے۔

صدر ٹرمپ نے میکسیکو سے تارکینِ وطن کی آمد کو روکنے کے لیے دیوار تعمیرکرنے کا اعلان کیا، اسی طرح وہ غیر ملکی تارکینِ وطن خاص طور پر مسلمان تارکینِ وطن کو امریکا سے بے دخل کرنے کے حامی ہیں۔ امریکی معاملات پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ غیر ملکی تارکینِ وطن امریکی معیشت کا حصہ ہیں۔ یہ تارکینِ وطن بعض اوقات کم اجرت پر محنت کرتے ہیں، یوں آزاد معیشت میں کمپنیوں کا منافع بڑھتا ہے۔  کروڑوں افرادگزشتہ 50 برسوں کے دوران امریکی شہریت حاصل کرچکے ہیں۔ ان لوگوں کو امریکی آئین کے تحت قانونی تحفظ حاصل ہے۔ ان میں سے بیشتر پروفیشنل ڈاکٹر، انجنیئر، بینکرز، وکلاء، صحافی اور دیگر شعبوں سے وابستہ ہیں۔

ان غیر ملکیوں میں سے خاصی تعداد ری پبلک اور ڈیموکریٹ پارٹیوں سے منسلک ہیں۔ اس صورتحال میں ان لوگوں کے مستقبل کوکوئی خطرہ نہیں ہے مگر جو غیر ملکی غیر قانونی طور پر امریکا میں رہ رہے ہیں اور ان کے پاس امریکی امیگریشن کے قوانین کے مطابق دستاویزات نہیں ہیں، ٹرمپ ایڈمنسٹریشن ان کے لیے نئے مسائل پیدا کرے گی اور اس بات کا امکان ہے کہ اگر امریکا اور پاکستان کے تعلقات بہتر نہیں ہوئے تو امریکی ویزا پالیسی سخت ہوجائے گی، مگر اصل مسئلہ دہشتگردی کے خاتمے سے منسلک ہے۔ افغان حکام کا کہنا ہے کہ سابق صدر اوباما نے افغانستان کو دہشتگردی سے بچانے کے لیے کئی وعدے کیے تھے۔

ان وعدوں میں پاکستان کو دباؤ ڈال کر مجبورکرنا تھا کہ شمالی وزیرستان میں متحرک حقانی نیٹ ورک کاخاتمہ کیا جائے۔ا سی طرح طالبان کی  عسکری مدد کو روکنا بھی تھا۔اوباما انتظامیہ نے حکومت پاکستان پر دباؤ ڈالا مگر افغان حکومت کی منشاء کے مطابق نتائج حاصل نہیں ہوئے، یوں اب ٹرمپ انتظامیہ نئے سرے سے اس ایجنڈے کو آگے بڑھائے گی۔

ٹرمپ کی بھارتی شہریوں نے مکمل حمایت کی۔ ٹرمپ نے انتخابی مہم میںبھارت کے لیے کئی بار نیک خواہشات کا اظہارکیا۔امریکا اور بھارت کے تعلقات گزشتہ 70 برسوں کے دوران خوشگوار رہے ہیں۔ بھارت کے خارجہ پالیسی کے معمار پنڈت جواہر لعل نہرو اور پھر اندرا گاندھی نے سوویت یونین سے اچھے تعلقات کی بنیاد رکھی تھی مگر برطانیہ اور امریکا سے بھی ان کے قریبی تعلقات تھے۔کارگل کی جنگ کے بعد بھارتی پالیسی میں نمایاں تبدیلی رونما ہوئی۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ایٹمی شعبے میں امریکا سے تعاون شروع کیا، یوں دونوں ممالک کے درمیان سول ملٹری ایٹمی معاہدہ ہوا۔ بھارت نے اپنے ایٹمی ری ایکٹر بین الاقوامی معائنے کے لیے کھول دیے۔ بھارت کی کمیونسٹ پارٹی نے اس معاہدے کو قومی مفاد کے خلاف قرار دیا اور حکومت سے علیحدہ ہوگئی مگر اس معاہدے کے ساتھ بھارت کی مارکیٹ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے کھول دی گئی۔

بھارتی نوجوانوں کو امریکا کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مارکیٹ میں ملازمتیں ملنے لگیں، دونوں ممالک کے تعلقات بڑھتے چلے گئے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی امریکا سے قریبی تعلقات کی پالیسی برقرار رکھی۔ امریکی حکومت نے دہشتگردی اورکشمیر کے مسئلے پر بھارت کی حمایت شروع کردی۔ پہلے امریکی سفارتکارکشمیر کے مسئلہ پر غیرجانبدار ہوجاتے تھے مگر گزشتہ 6 ماہ کے دوران مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر امریکا خاموش ہے۔ پاکستان کے بھارت سے گزشتہ سال تعلقات خراب ہوئے۔

کنٹرول لائن کی خلاف ورزیوں اورپاکستانی فوجیوں اورشہریوں کی ہلاکت کی خبروں سے چند ماہ قبل تک ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دونوں ممالک جنگ کے قریب ہیں۔ دسمبر میں فوجی قیادت کی تبدیلی کے بعد کنٹرول لائن پر فائرنگ کا سلسلہ تھم گیا۔  پاک فوج نے غلطی سے سرحد پار کرنے والے بھارتی فوجی رہا کر کے اور اس کی بندوق واپس کرکے خیر سگالی کا جو مظاہرہ کیا ہے وہ نہ صرف پاک بھارت تعلقات کو بہتر کرے گا بلکہ ٹرمپ انتظامیہ بھی پاکستان کے اس فیصلے کو سراہے گی۔

کینیڈا میں مقیم پاکستافی صحافی سید راشد حسین کا کہنا ہے کہ ریپبلکن پارٹی کا بڑی تیل کمپنیوں سے گہرا تعلق رہا ہے۔ انگریزوں کے سابق سی ای او ریکس ٹیلرسن کا وزیر خارجہ کی حیثیت سے انتخاب سے نیشنل کمپنیوں سے تعلق کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ امریکا کے سابق صدر جارج ایچ ڈبلیو بش اور جارج ڈبلیو بش بھی تیل کمپنی کے عہدیدار رہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بڑی تیل کمپنیاں ریاست کے اندر ریاست قائم کرتی ہیں۔کئی مبصرین کہتے ہیں کہ تیل کے ذخائرکی بناء پر امریکا کی افغانستان میں دلچسپی بڑھی تھی۔

امریکا ابتدائی دنوں میں طالبان حکومت کا مخالف نہیں تھا، اگر طالبان وسطی ایشیائی ممالک سے تیل کی پائپ لائن افغانستان لانے اور پھر دیگر ممالک تک لے جانے میں تعاون کرتے تو امریکا طالبان سے ناراض نہ ہوتا۔  نائن الیون سے پہلے تیل کی پائپ لائن کے بارے میں طالبان کے منفی رویے سے امریکا کی ناراضگی کا آغاز ہوا تھا۔ اب ٹرمپ انتظامیہ تیل کے ذخائر تک پہنچنے کے لیے افغان حکومت کو مضبوط کرے گی۔ امریکا میں پاکستان کی سابق سفیرعابدہ حسین کا کہنا ہے کہ امریکا کو دہشتگردی کی جنگ میں پاکستان کے تعاون کی ضرورت ہے۔ نئی امریکی انتظامیہ کی پالیسی سو دن میں واضح ہوجائے گی۔ پاکستانی نژاد امریکی شہریوں کو امید ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنے مفادات کے لیے ٹرمپ کو اپنے کئی انتخابی نعرے ترک کرنے پر مجبورکردے گی مگر افغانستان،دہشتگردی اور جنوبی ایشیائی ممالک میں امن جیسے معاملات اہم ہونگے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی پہلی تقریر میں اسلامی دہشتگردی کے خاتمے کا نعرہ لگا کر اپنی پالیسی کے خدوخال واضح کیے۔

پاکستان دہشتگردی سے براہِ راست متاثر ہے مگر دہشتگردی کی سرپرستی کے الزام کو سنجیدگی سے لینا ضروری ہے۔ پاکستان کو دہشتگردی کے خاتمے، افغانستان، بھارت اوروسط ایشیائی ممالک سے خوشگوار تعلقات کے لیے نئی حکمت عملی تیار کرنی چاہیے، یوں صدر ٹرمپ انتظامیہ کے خدشات دور ہوسکتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ سے کشیدگی یا دوری سے معاملات مزید خراب ہونگے۔ خارجہ پالیسی پر جذبات سے ہٹ کرنئے حقائق کے مطابق غورکرنے کی ضرورت ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website