انتخابی مہم کے دوران ہی امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی میڈیا کے ساتھ تعلقات بگڑ گئے تھے۔ صدر منتخب ہونے کے بعد بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے میڈیا سے تعلقات اسی طرح کشیدہ ہیں۔ حال ہی میں اپنی پریس کانفرنس کے دوران نومنتخب امریکی صدر نے امریکہ کے مشہور ٹی وی نیٹ ورک سی این این کے نمائندے کے سوال کا جواب دینے کی بجائے اس کے ساتھ جھگڑا کھڑا کر دیا موصوف نے سی این این کے نمائندے کو کہا ہے آپ ایک جعلی خبر ہیں ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک اور امریکی خبررساں ادارے بز فیڈ کے ساتھ بھی تنازعہ چل رہا ہے۔ گزشتہ روز ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے منصب کا حلف اٹھانے کے بعد خطاب کیا تو ان کا خطاب تنقید کی زد میں آگیا۔ امریکی ذرائع ابلاغ نے نئے امریکی صدر کے خطاب کو مایوس کن اور نامکمل قرار دیا۔ دو امریکی تجزیہ نگاروں نے واشنگٹن پوسٹ میں ایک تجزیاتی رپورٹ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر کا جائزہ لیا ہے اور کہا کہ ان کی تقریر حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی۔ مثلاً صدر ڈولنڈ ٹرمپ سے اپنی تقریر میں کہا ’’واشنگٹن نے ترقی کی۔ لیکن عوام کواس دولت میں شریک نہیں کیا گیا سیاست دان خوشحال ہوئے لیکن فیکٹریاں بند ہوئیں اور ملازمین ختم ہو گئیں تجزیہ نگاروں گلین کیسئیر اور مائیکل ہیلی نے لکھا ہے کہ واشنگٹن کے گردو نواح کے علاقے امریکہ میں خوشحال ترین علاقے ہیں اس کی وجہ یہے کہ واشنگٹن امریکی وفاقی حکومت کا گھر ہے امریکی حکومت امریکہ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باصلاحیت لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہے بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہونہار نوجوان ’’لابنگ‘‘ کرنے والی کمپنیوں سے منسلک ہیں جو انہیں زیادہ تنخواہیں اور مراعات فراہم کرتی ہیں۔ نائن الیون کے بعد سیکیورٹی اور دفاع کے شعبہ میں لابنگ کے لئے نئی فرمیں وجود میں آئیں۔ جنہوں نے اعلیٰ تعلیم یافتہ امریکی نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا۔ دونوں امریکی تجزیہ نگاروں نے لکھا ہے کہ اب سیکیورٹی اوردفاع کے شعبوں میں ’’لابنگ‘‘ سست پڑ گئی ہے اس لئے اب ان افراد کو زیادہ مراعات نہیں مل رہیں۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں کوئی ٹھوس اعداد و شمار نہیں جن سے ثابت ہو سکے کہ واشنگٹن میں امریکہ کے دوسرے شہروں کے مقابلے میں زیادہ خوشحال ہے۔
صدر ٹرمپ کے اس جملے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہتمہیں پسند کرتا ہے جن میں دنیا کے سامنے کبھی نہیں دیکھا ہے تاریخی تحریک کا حصہ بننے کے لئے لاکھوں کی دسیوں کی طرف سے آیا.
مذکورہ دونوں تجزیہ کاروں نے اس دعویٰ کو چیلنج کیا ہے اور کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں 29 لاکھ پاپولر ووٹوں سے ہارے ہیں البتہ الیکٹرول ووٹ انہوں نے زیادہ لئے جس کی وجہ سے وہ صدر منتخب ہوئے۔ اس لئے یہ دعویٰ کہ کروڑوں لوگوں نے اس کی حمایت کی محل نظر ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہاندرون شہر بسنے والی مائیں اور بچے غربت میں جھکڑے ہوئے ہیں جرائم‘ منشیات اور جرائم پیشہ افرا کے گینگز نے ان گنت لوگوں کی زندگی چھین لی‘ تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ امریکہ میں اندرون شہر ’’اندرونی شہروں‘‘ کا وجود نہیں ہے۔ 2015ء کے سروے کے مطابق بڑے شہروں میں 13 فی صد امریکی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے امریکہ کا بھی نعرہ لگایا ہے جس کا امریکی میڈیا اور دنیا بھر کے مبصرین یہ مطلب لے رہے ہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک بزنس مین کی طرح سوچ رہے ہیں کہ امریکہ کو مالی فوائد حاصل ہوں۔ وہ ایک سپر طاقت کے صدر کی حیثیت سے نہیں سوچ رہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا ہے امریکہ نے اپنی سرحدوں کی حفاظت کی بجائے دوسرے ملکوں کی سرحدوں کی حفاظت کی۔ امریکہ دوسرے ملکوں کو امیر اور خوشحال بناتا رہا لیکن اپنے بارے میں نہیں سوچا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خظاب پر رائے زنی ہو رہی ہے۔ ان کے اتحادیوں کو خدشہ ہے کہ وہ انہیں تنہا چھوڑ دیں گے۔ بہت سے ملکوں نے امریکہ کہنے پر اور اس کے مفاد میں جنگیں لڑیں اور نقصان اٹھایا ایسے اتحادیوں سے منہ موڑ لینے کی پالیسی امریکہ کے لئے نقصان دہ ہو گی۔ چین کے ساتھ تجارت اور دوسرے کئی معاملات پر ڈونلڈ ٹرمپ ایک تصادم کی پالیسی اپنانے کا عندیہ دیتے رہے ہیں۔ ’’نیٹو‘‘ کو وہ ایک بے کار اورفرسودہ اتحاد قرار دیتے رہے ہیں جس سے ڈونلڈ ٹرمپ کے یورپی اتحادی کئی طرح کے خدشات سے دوچار ہیں انہوں نے اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ کو یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کر رکھا ہے جس پر مشرقی وسطیٰ اور دنیا کے دوسرے خطوں کے اسلامی ملکوں میں بھی سخت ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ نئے امریکی صدر کی پہلی تقریر پر امریکی میڈیا نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ دوسرے ملک بھی پریشانی سے دیکھ رہے ہیںاگلے سو دن کے اندر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیا پالسیاں اپناتے ہیں۔ امریکہ کے اندر مسلمان اور دوسری اقلیتیں بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اگرچہ صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کہا کہ سب کو تحفظ دیا جائے گا۔ لیکن عملاً وہ کیا کریں گے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ امریکی مبصرین نے صدر ٹرمپ کے پہلے خطاب پر اس لحاظ سے بھی مایوسی کا اظہار کیا ہے کہ انہوں نے حالیہ صدارتی انتخاب میں امریکی قوم میں جو بڑی تلخ قسم کی تقسیم پیدا ہو گئی ہے اس کے خاتمے کے لئے انہوں نے کوئی قدم اٹھانے کا اشارہ نہیں دیا۔