تحریر: اعظم طارق کوہستانی
تاریخ کبھی کبھار بڑے بے رحم فیصلے کرتی ہے۔ اس کا بس چلے تو آپ کو ہیرو سے زیرو بنانے میں دیر نہ لگائے۔ ایسا بھی نہیں کہ اس کا بس نہیں چلتا۔ جہاں بھی موقع ملتا ہے وہ اپنا کام کرجاتی ہے۔ ولی دکنی کو زمانہ ایک عرصے تک اردو کا باقاعدہ صاحب دیوان شاعر مانتا تھا۔ لیکن قلی قطب شاہ کی باقیات میں اس کا وہ عظیم ذخیرہ دریافت ہوا جس نے تاریخ کو ایک دم بدل کر رکھ دیا۔
یہ وہ وقت تھا جب اردو کا نام اردو نہیں تھا۔ اردو کی ابتدائی شکل والی زبان مختلف خطوں میں مختلف طریقوں سے بولی اور سمجھی جاتی تھی۔ معلوم ہوا کہ قلی قطب شاہ کی کلیات دکھنی، تلنگی و فارسی میں محفوظ ہے جس کے تقریباً اٹھارہ سو صفحات ہیں۔ اب نہ ولی حیات ہے، نہ قلی قطب شاہ اس دنیا میں موجود ہے لیکن اردو ادب کی تاریخی تبدیلی میں قلی قطب شاہ نے میدان مار لیا۔ یقینا عالم ارواح میں قلی قطب شاہ نے ولی دکنی سے کہا ہوگا: آئی ایم سوری۔
تعارف:
محمد قلی قطب شاہ صرف اردو کا شاعر ہی نہیں تھا بلکہ وہ ایک ریاست کا حاکم بھی تھا۔ بیجا پور، گولکنڈہ اور احمد نگر کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر مشتمل یہ سلطنت ١٥١٨ء میں قائم ہوئی۔ اپنے والد کی وفات کے بعد قلی قطب شاہ ١٥٨١ء میں تخت نشین ہوا۔ اُس وقت وہ نوعمر لڑکا تھا۔ تاریخ اس کی عمر ١٢ سال بتاتی ہے۔ قلی قطب شاہ مختلف قسم کے مزاجوں کا حامل تھا۔ وہ بادشاہ تھا لیکن اس کی صلاحیتوں نے ادب کو خوب ترقی دی۔ وہ عوامی بادشاہ تھا’ لوگوں میں گھل مل جاتا’ معاشرے کی چھوٹی سے چھوٹی شے کو بھی اپنی شاعری میں کمال کے ساتھ بیان کرتا۔ اسے فنِ تعمیر سے بھی دلچسپی تھی۔ اس نے بہترین عمارتیں بھی تعمیر کروائیں۔ شاعری کا سرپرست تھا’ آس پاس کی ریاستوں کے بادشاہوں کے مقابلے میں اس کا جداگانہ وصف یہ تھا کہ وہ شیعہ مذہب سے تعلق رکھتا تھا، اس لیے آپ کو اُس کی شاعری میں مرثیے ہی مرثیے ملیں گے۔ دربار میں مذہبی مناظرے ہوتے رہتے تھے جن کی بادشاہ بھرپور حوصلہ افزائی کرتا۔ شعر و شاعری کی محفلیں جما کرتی تھیں، مختلف صلاحیتوں کے حامل افراد قلی قطب شاہ سے حوصلہ افزائی پانے کے لیے دور دراز کے علاقوں سے اُس کے دربار میں آتے تھے۔ بادشاہ کو خوش نویسی کا بے حد شوق تھا، اس لیے اچھے خطاط اُس کے دربار میں جمع ہوتے رہتے تھے۔ بادشاہ کی بنائی ہوئی عمارتوں میں خطاطوں کے ذریعے نہایت باریکی کے ساتھ خطاطی کرائی گئی تھی۔
قلی قطب شاہ کی کلیات میں مثنویاں، قصیدے، ترجیح بند، مراثی بزبانِ فارسی دکھنی اور رباعیات شامل تھیں۔ کُل ملا کر اس نے پچاس ہزار سے زائد اشعار کہے۔ اسی طرح اس نے اپنے نام کے ساتھ سیکڑوں تخلص استعمال کیے۔ اس کے تخلص کی تعداد ١٧ بنتی ہے جو یہ ہیں: ١۔ محمد’٢۔ محمد شاہ’ ٣۔ محمد قلی’ ٤۔ محمد قطب’ ٥۔ قطب’ ٦۔ قطب زماں’ ٧۔قطب شہ’ ٨۔ محمد قطب شہ’ ٩۔ محمد قطب شہ غازی’ ١٠۔ محمد قطب شہ راجا’ ١١۔ محمد قطب شہ سلطان’ ١٢۔ قطب شہ نواب’ ١٣۔ معانی’ ١٤۔ قطب معانی’ ١٥۔قطب معنا’ ١٦۔ قطب معانی’ ١٧۔ ترکمان۔
ایک نظم میں اپنے سہرا باندھنے کا ذکر کرتے ہوئے اپنا تخلص ترکمان استعمال کیا ہے۔
محمد قطب شاہ راجا اپن سر
محمد نانوں لے باندیا ہے سہرا
نبی صدقے سدا کہتا ترکماں
کہ منج سرتاج ہے حضرت امیرا
تعلیم:
قلی قطب شاہ اکثر شاعروں کی طرح عشق کو ہی اپنی تعلیم کہتا تھا۔ چونکہ قلی قطب شاہ کے بارے میں زیادہ تر اس کی شاعری سے ہی اس کی شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ قلی قطب شاہ نے اپنے اشعار میں کہا:
عالم منجے تعلیم کریں علم و ہنر کا
لکھے ہیں ازل تھے تمنا عشق قرار
ازل سے تھے عشق کے پلڑے کے تئیں کئی منج بٹ
فقیر و زاہداں سیانے منجے کئے ہیں سراج
عالم مجھے سکھائیں گے کیا آپنا علم
وہ نانوں کے حروف ہمن دل میں ہیں کلام
میں اُمّی کر گنتے ہیں سب امیال تو علم ہیں
موزبانی کا قلم تجہ وصف لکھ ناسک بھگیا
یعنی میرے استاد مجھے علم و ہنر سکھانا چاہتے ہیں لیکن میں تو ازل سے عشق کے لیے پیدا ہوا ہوں۔ اگر میں علم و ہنر سیکھنا بھی چاہوں تو علما مجھے بھلا کیا سکھا لیں گے۔ میں نے تو اپنے دل میں اپنے محبوب کے حروف کے نام پیوست کرلیے ہیں۔ لوگ مجھے ان پڑھ سمجھتے ہیں’ میں ان پڑھ اس حد تک ہوں کہ تیری خوبیاں مجھے منھ زبانی یاد نہیں۔ میرا قلم اس کی وضاحت نہیں کرسکتا۔
عاشق مزاج شاعر:
قلی قطب شاہ نے اسی طرح کی شاعری کرکے اپنے عاشق مزاج ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ قلی قطب شاہ عیش پسند طبیعت کا مالک تھا تو بے جا نہ ہوگا۔ وہ سیکڑوں محبوبائیں رکھتا تھا اور اپنے ہر ایک محبوب سے متعلق اس نے کئی نظمیں لکھی ہیں۔ ان دوشیزائوں میں: ١۔ ننھی’٢۔ ساونلی’ ٣۔ کونلی’ ٤۔ پیاری’٥۔ گوری’ ٦۔ چھبیلی’ ٧۔ لالا’ ٨۔لالن’ ٩۔ موہن’ ١٠۔ محبوب’ ١١۔ بلقیس زمانی’ ١٢۔ حاتم’ ١٣۔ ہندی چھوری’ ١٤۔ پدمنی’ ١٥۔ سندر’ ١٦۔ سجن’ ١٧۔ رنگیلی’ ١٨۔ مشتری’ ١٩۔ حیدر محل عیش پسند بادشاہ نے اپنی شاعری میں ان تمام محبوبائوں کا ذکر اس تفصیل کے ساتھ کیا ہے کہ آپ بآسانی اس کی شاعری کے ذریعے ان کے سراپے کا نقشہ کھینچ سکتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بتایا ہے کہ قلی قطب شاہ چونکہ اہلِ تشیع تھا اس لیے اس کی شاعری میں بارہ اماموں کا تذکرہ قدم قدم پر ملے گا، یہی نہیں بلکہ وہ ان اماموں کے علاوہ عید میلاد النبی کی نظموں میں بھی اپنی محبوبائوں کا ایک خاص انداز میں ذکر کرتا ہے۔
حیدرآباد شہر کی تعمیر کے دوران قلی قطب شاہ نے وہاں ایک محل تعمیر کروایا، اس کا نام ”خداداد محل” رکھا گیا تھا۔ اس محل میں وہ اپنی بارہ پیاریوں کو لاتا تھا جو اُس وقت اس کی منظور نظر تھیں۔
نبی صدقے بارا اماماں کرم تھے
کرو عیش جم بارہ پیاریوں سو پیارے
ایک اور شعر ملاحظہ فرمایئے:
مبارک منج اچھو یو عید ہور مولود پیغمبر
ملے ہیں قطب سوں بارہ اماماں ہور نگاراں خوش
قلی قطب شاہ اور حافظ شیرازی:
قلی قطب شاہ وہ شعر ہے جس کا دیوان مجموعی صورت میں دستیاب ہے۔ ممکن ہے کہ اس سے پہلے بھی ایسے شاعر گزرے ہوں’ یقینا گزرے ہوں گے لیکن ان کا کلام اب محفوظ نہیں ہے۔ ہاں جس طرح قلی قطب شاہ دریافت ہوئے ایسے ہی دریافت اگر کوئی اور ہوگئی تو یقینا قلی قطب شاہ سے کہنا پڑے گا آئی ایم سوری۔ لیکن فی الحال ایسا ممکن ہوتا نظر نہیں آرہا۔ قلی قطب شاہ ایران کے فارسی شاعر حافظ شیرازی سے بے حد متاثر تھے۔ اسی سے متاثر ہو کر اس نے اپنے کلام میں تصوف کو بہت زیادہ جگہ دی۔ اسے ایک عجیب وغریب بادشاہ کہا جاسکتا ہے جو بلا شبہ بہت ساری خصوصیات کا حامل تھا۔ لیکن وہیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ وہ زندگی کے بنیادی فلسفے کے حوالے سے گومگو کا شکار نظر آتا تھا۔ اس لیے اس کی شاعری میں تصوف کا ایک الگ ہی رنگ ہے۔ اس کی تصوفانہ شاعری پڑھ کر لگتا ہیں کہ اس کو عاشق مزاجی کی ہوا بھی چھوکر نہیں گزری۔
قطب دل کے صیحفے پر اوّل تیرا لکھیا صورت
کیا منج پر کرم آخر دیا سوں وواوّل نقاش
معانی آس تمیں کیا بوجھیں اے میخواراں
تمھاری بزم میں کرتا ہے شمع بات مجاز
سکی کا حسن کیتا جذب مولود
اسی تے مج ہے مجذوباں سو آنند
معانی خون تمن ٹمزیاں تھی میں ہوش
نچھل صفی بندا ہے نار کھو بخ
دیا استاد منج تکلیم کچھ ہور
ہمیں کچھ دیکھ کر باندھی ہیں زنار
درد جانے حکیم خوب دانا
ہمارا درد کیا بوجھیں گے اغیا
یعنی: میرے عشق مجازی کو دیکھ کر نقاش ازل نے مجھ پر رحم کھایا۔ مجھے استاد نے کچھ اور پڑھایا اور میں نے کچھ اور دیکھ کر زنار باندھا ہے۔ میرے دل کے درد کو اغیار کیا سمجھیں گے۔
آگے لکھتے ہیں:
میں فاش کیوں نا ہوں سکی تجہ عشق تھے دو جگ منے
منصور سا عاشق ہوا اگر سو تیرے دار فاش
میں اپنے عشق حقیقی کو بھلا کیسے چھپائوں جب کہ منصور جیسا عاشق بھی اس کو چھپا نہ سکا۔ اسی طرح قلی قطب شاہ نے حافظ شیرازی کی بعض نظموں کو ہو بہو اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ اگر ہم اس کا جائزہ لیں تو یہ صورت سامنے آتی ہے:
حافظ:
بعزم توبہ سہر گفتم استخارہ کنم
بہار توبہ شکن می رسد چہ چارہ کنم
سخن درست بگویم نمے تو انم دید
کہ میخو رند حریفاں ومن نظارہ کنم
زروی دوست مرا چوں گل مراد شگفت
حوالہ سر دشمن سنگ خسارہ کنم
محمد قلی:
منگیا جو توبہ کے تیں صبح استخارہ کروں
ہنگام توبہ توڑن آیا کہا میں چارہ کروں
درست بات کتا ہوں نہ جا سے منجد تے دیکھیا
شراب پیوں حریفاں ومیں نظارہ کروں
سجن کے مکھ تھے کھلے ہیں امید پھول میرے
وندے کیسر کوں پتھر پر پچھاڑ پارہ کروں
یہ وقت تھا جب اردو نام کی اس زبان کو دکھنی زبان کہا جاتا تھا۔ اتنے قدیم دور میں بھی اس عمدہ طریقے سے ترجمہ کرنا یقینا صاحب کی صلاحیتوں کو منوانے کے لیے کافی ہے۔
شاعری کا محور:
قلی قطب شاہ کی شعری ہر ایک موضوع سے متعلق ہے۔ انہوں نے تصوف اور عاشقانہ رنگوں سے اپنے کلام کو رونق بخشی۔ قدرتی مناظر کو کس خوب صورتی کے ساتھ اپنے کلام میں استعمال کیا یہ انہی کا خاصا تھا جسے بعد میں نظیر اکبر آبادی نے ترقی دی۔ کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیںکہ اس کی اکثر مثنویاں خاص ہندوستانی پھلوں’ ترکاریوں اور شکار چڑیوں سے متعلق ہے۔ چونکہ وہ ایک مخلوط معاشرہ تھا جس میں ہندو اور مسلمان آپس میں بہت زیادہ گھل مل گئے تھے۔ اس لیے اس کی بعض نظموں میں شادی بیاہ’ ولادت کے رسم و رواج ہندو اور مسلمانوں کے رسم ورواج’ عید’ بقرعید’ ہولی’ دیوالی’ بسنت وغیرہ کا ذکر بھی پایا جاتا ہے۔
موسم برسات اور صراحی و ساغر کادلچسپ مکالمہ بھی لکھا۔ عید میلاد النبی اور بارہ اماموںکا تذکرہ تو اس کی شاعری میں جا بجا نظر آئے گا۔ ان کی شاعری میں ہندی استعمارے’ تشبیہیں’ ہندی الفاظ اور ترکیبیں جابجا بکھری ہوئی نظر آئیںگی۔ قلی قطب شاہ کے کلام کو پڑھ کر چند نئی چیزیں بھی پتا چلتی ہیں۔ محرم کے مہینے میں محرم کو عظیم الشان طریقوں سے منانا اور عید میلاد النبی کو بطور عید کے منانا قلی قطب شاہ کے کلام سے ہی پتا چلتا ہے۔
قلی قطب شاہ محرم کے مہینے میں شایان شان طریقوں سے مناتے تھے اسی طرح عید میلاد النبی کو جوش و خروش سے منایا (٩۔١٠ محرم کو) جاتا تھا۔ عید بعثت نبویۖ پر قلی قطب شاہ کی کلیات میں پانچ نظمیں موجود ہیں۔ ان کی نظموں کا مختصر خلاصہ پیش کیا جارہا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے ”اے موالیو خوشیاںکرو کہ عید مبعث رسول آئی ہے اور اپنے ساتھ طرح طرح کے عیش و آرام لے آئی ہے۔
مزید کہتے ہیں اس عید کے زمانہ میں اپنی خوشی منائی جاتی ہے کہ غم کا نشان کہیں ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتا کیونکہ آج ہی کے دن سے دین اور ایمان آشکارا ہوئے اور اسی دن کے فیض نے تمام امت کے دل و جان کو روشن کردیا۔ اسی طرح عید غدیر’ شب برات جیسے موضوعات پر بھی محمد قلی قطب شاہ نے اپنے قلم سے قرطاس پر جی کھول کر لکھا اسی طرح عید رِمضان کا ایک الگ رنگ اس کے ہاں نظر آتا ہے۔ رمضان میں تمام عیش و عشرت کوموقوف کردیا جاتا ہے اور جنگ و رباب کے تمام باب بند کرکے رمضان کی تقدیس کا ہر ممکن خیال رکھا جاتا۔
عید کے ذکر سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس زمانے میں بھی عید کی سویاں پکا کرتی تھی۔
قلی قطب شاہ یوں کہتا ہے:
عید سیوں لیا ئیا خوشیاں انند
اس انداں سوں کریں خوباں انند
شیر خرما’ بادام اور پستوںکا بھی ذکر ملتا ہے۔
نابات’ شیرخرما’ پستے’ شکر ادھر دھر
کیوں روزے رکھتی سکیاں کر کر سوال ساقی
خرم خوشیاں سوں’ شیوے کے سویاں بھری پڑی
ساقی پلا پیالہ کہ آیا ہلال عید
تج خندہ کا شکر دے منجے شیر خرمے میں
شربت پلا ادھر ستے کھلیا گلال عید
شیر خرما’ قند’ بداماں’ پستے جیواں ملاکر
صنعت سوں کیتا صانع لب لال ہونیاں کے
اسی طرح قلی قطب شاہ سال گرہ’ مہندی اورجلو غیرہ کی رسموں کو نہایت تزک و احتشام کے ساتھ منایا کرتا تھا۔ اپنی سال گرہ کو تو وہ ایسے مناتا کہ شاید ہی کسی نے ایسی سال گرہ منائی ہو لیکن ان سب چیزوں کا تذکرہ ہمیں تاریخ کی کتابوں میں نہیں ملتا’ بلکہ زیادہ تر اس کی نظموں سے ہی پتا چلتا ہے کہ اس نے کن چیزوں میں اپنا وقت خرچ کیا۔ کھیل کود میں ناٹک یا ٹٹوں کے کرتبوں پر بھی اس کی نظمیں موجودہیں۔ ایک نظم میں اس کھیل کا ذکر کرتے ہیں۔ کہتے ہیں ”طرح طرح سے چہرے بناکر یہ ٹٹوے ایسی قلابازیاںکھاتے ہیں کہ ان پتلی کمر دیکھ کر دنیا والے چیتے کی کمر بھول جاتے ہیں۔اسی طرح چوگانی’ پھوکڑی پھوں اور ڈھان ڈھلی جیسے قدیم کھیلوں کا بھی ذکر اس کی نظموں میں آپ کو مل جائے گا۔
قلی قطب شاہ ایک بادشاہ تھا’ حاکم تھا’ اس لیے اس نے بہت سارے یادگاری کام کیے’ اس کی عمارتیں آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ لیکن اس کا سب سے عظیم کارنامہ اس کی کلیات ہے’ اس کلیات میںوہ زبان استعمال کی گئی جسے آج ہم اردو کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ شروع شروع میں یہ مسودہ لوگوں کی نظروں سے غائب تھا جس کے پاس بھی یہ مسودہ موجود تھا اس نے اسے چھپا کر رکھا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ لیکن آخر کب تک۔ اس دوران لوگوں نے اس کے ملنے والے نسخوں کے متعلق عجیب عجیب قیاس آرائیاںشروع کردی تھیں اسے برج بھاشا زبان کا کلام بھی قرار دیا گیا حتیٰ کہ یہ بھی کہا گیا معانی’ نام کے کسی شاعر کا کلام ہے۔ لیکن بعد میںمعلوم ہوا کہ معانی دراصل قلی قطب شاہ کا ہی تخلص تھا جسے اس نے اپنے کلام میں سب سے زیادہ استعمال کیا۔ اس کے گیت اتنے مشہور تھے کہ دیہاتی عورتیں ایک زمانے تک اسے تقریبات میں گاتی رہتی تھیں۔
حقیقت بہرحال یہ ہے کہ محمد قلی قطب شاہ کی کلیات نے اسے زندہ و جاوید کر دیا ورنہ دیگر بادشاہوں کی طرح وہ بھی آج صرف خاک کا حصہ ہوتا۔
کتابیات:
١۔ نذرِ دکن مْرتبہ سکینہ بیگم ، عہد آفریں برقی پریس ۔ حیدرآباد دکن، 1929ئ
٢۔سْرورِ رفتہ، امیر چند بہار، خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری. پٹنہ، 1998ئ
٣۔تاریخ اَدب اْردو، رام بابو سکسینہ اْردو ترجمہ مرزا محمد عسکری، سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور 2004ء
٤۔تاریخ اَدب اْردو جِلد اول، ڈاکٹر جمیل جالبی، مجلس ترقی اَدب، لاہور طباعت ہفتم 2008ئ
٥۔سلطان محمد قلی قطب شاہ ، ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور ، اعظم اسٹم پریس .حیدرآباد ، 1940ئ
٦۔کلیاتِ محمد قلی قطب شاہ مرتب سیدہ جعفر
٧۔سلطان محمد قلی قطب شاہ، اسلم پرویز، انجمن ترقی اْردو (ہند) 2010ئ
تحریر: اعظم طارق کوہستانی
kazam_tariq@yahoo.com