تحریر: محمد عرفان چوہدری
جنوب مشرقی برازیل میں Noiva Do Cordeiro نام کا ایک قصبہ ہے جس کا انگریزی میں ترجمہ کیا جائے تو Lamb’s Bride اور اگر اردو میں ترجمہ کیا جائے تو نوجوان بھیڑیں یا نوجوان دلہنیں اخذ کیا جاتا ہے ذرائع کے مطابق اس قصبے کی کل آبادی 600 خواتین پر مشتمل ہے جن کی اوسط عمر 20 سے 35 سال کے درمیان ہے اور زیادہ تر کنواری ہیں جبکہ شادی شدہ خواتین کی طرف سے اپنے شوہر حضرات پر دبائو ڈالا جاتا ہے کہ وہ کام کے سلسلے میں قصبے سے دور رہیں اور قریب و جوار میں نظر نہ آئیں اور سوائے چھٹی والے دن کے وہ گھر نہیں آ سکتے بالکل اسی طرح جب اُن کی اولاد میں سے مرد 18 سال کی عمر کو پہنچ جاتا ہے تب اسے بھی گھر سے باہر بھیج دیا جاتا ہے اس کے علاوہ کسی بھی مرد کو اس قصبے میں کل وقتی رہنے کی اجازت نہیں ہے کہ وہاں صرف اور صرف عورتوں کی اجارہ داری ہے ہاں اگر کوئی مرد وہاں جز وقتی رہنے کے لئے تیار ہوتا ہے تو اُس کو عورتوں کے بنائے ہوئے قوانین کے تحت رہنا پڑتا ہے ان تمام معاملات میں مغربی عورت کا اپنا ہاتھ ہے کہ وہ سمجھتی ہے کہ وہاں کی عورت مرد کی غلام ہے جو کہ درست بھی ہے اس لئے وہ اپنا حق لینے کے لئے ایسے حیلے بہانے کرتی رہتی ہے۔
مگر پاکستان کی عورت کو یہ احساس کس نے دلا دیا ہے کہ وہ مرد کی غلام ہے؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں واضع ارشاد فرمایا ہے کہ ” جو شخص نیک اعمال کرے گا مرد ہو یا عورت وہ مومن بھی ہوگا تو ہم اس کو (دنیا میں ) پاک (اورآرام کی) زندگی سے زندہ رکھیں گے اور آخرت میں اُن کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ دیں گے النحل 97-” اس کے علاوہ بیشتر مقامات پر مرد و عورت کی برابری پر بنیاد رکھی گئی ہے مگر یہ اس صورت ممکن ہے جب قرآن پاک کو اپنی رہنمائی کے لئے منتخب کر لیں مگر کیا کریں ہماری آج کی عورت جو کہ کسی بھی طرح اللہ تعالیٰ کے احکامات ماننے کو تیار نہیں اور کسی بہکاوے میں آ کر مغربی روایات کے تحت اپنا حق مانگتی ہے جو کہ پہلے سے ہی اُسی کا ہے اُس کے ساتھ ساتھ قربان ہونے کو دل کرتا ہے اپنی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت پر جو کہ قائم تو کی گئی اسلام کے نام پر مگر آج تک مغرب ذدہ ہے اسلامی قوانین کا دور دور تک نام و نشان نہیں شائد اسی لئے پاکستان کی عورت در بدر ہو کر غیروں سے اپنے حقوق مانگتی نظر آتی ہے جو کہ بلا شبہ افسوس کا مقام ہے۔
قارئین کرام سوچ رہے ہوں گے کہ شروع میں کیا تمہید باندھی اور کہاں پر آگیا ہوں تو کیا کریں صاحب جب سے حقوق بیگماں کا بل منظور ہوا ہے کچھ پاگل پن سا محسوس ہونے لگا ہے آدھی رات کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ بیگم صاحبہ ہاتھ میں بیلنا لئے کھڑی ہے اور کسی بھی وقت وار کر سکتی ہے اس لئے آج کل جاگتی آنکھوں سے سونا پڑتا ہے جس بناء پر سمجھ نہیں آتی کہ کیا لکھ رہا ہوں پہلے باہر والی سے خوف تھا اور اب گھر والی سے بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں ”پُولَس” کو ہی نہ بلا لے اپنی نازک کلائیوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ جن کلائیوں پر کبھی ہتھ گھڑی نہیں باندھی اُس پر ہتھکڑی کیسی محسوس ہو گی چلیں تو بات کرتے ہیں کہ 8 مارچ کو پوری دنیا میں عالمی یومِ خواتین منایا جاتا ہے جس میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کی بات کی جاتی ہے جو کہ اُن کے بقول مرد حضرات نے سلب کئے ہوئے ہیں جو کہ سرا سر غلط ہے کوئی ایک مرد ہو سکتا ہو جو کہ بیوی کے حقوق سلب کر رہا ہو اُس بنیاد پر تمام مردوں کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں ہے اسلام نے خواتین کو تمام مذاہب سے بڑھ کر حقوق عطاء کئے ہیں اس کے باوجود عورت اپنا حق کس بناء پر مانگتی ہے کیا صرف عورت ہی مظلوم ہے جس پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں ایسی بات ہرگز نہیں ہے مرد حضرات تو پہلے ہی چکی میں پِسے ہوئے تھے اب حقوق بیگماں کا قانون پاس کر کے ان کا جوس بھی نکالا جا رہا ہے۔
پہلے بیچارے مرد حضرات سارا دن گدھوں کی طرح روزی روٹی کے چکر میں خوار ہونے کے بعد گھر جا کر تھوڑا بہت غصہ نکال لیا کرتے تھے کہ کیا کریں دن بھر کی پریشانی ہوتی تھی کبھی دفتر میں افسر سے سرزنش ہو گئی تو کبھی بس کنڈیکٹر سے جھگڑا ہو گیا، کبھی موٹر سائیکل کا ٹائر پنکچر ہو گیا تو دو میل گھسیٹ کر کام سے واپس آیا، کبھی بجلی کا بل جمع کروایا تو کبھی بچوں کو سکول چھوڑا، کبھی مالک مکان کی منتیں کیں اور کبھی کریانہ سٹور والے کی مگر ہمیشہ بیوی بچوں کو عزیز رکھا اُن پر کوئی آنچ نہیں آنے دی، دو دو نوکریاں کر کے بیوی کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کی مگر بلا سُود! ان تمام باتوں کو پسِ پردہ ڈال کر اپنی جوانی بیوی بچے پالنے میں گنوا دی تو عورتوں کے ٹھیکیدار کہنے لگے کہ مرد کی ذمہ داری ہے عورت کے حقوق پورے کرنا تو کیا عورت کی کوئی ذمہ داری نہیں کہ وہ مرد کے حقوق پورے کرے ، اُس کی بات سُن سکے کہ وہ اُس کا حاکم ہے؟۔
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے کہ ” مرد عورتوں پر مسلط و حاکم ہیں اس لئے کہ خدا نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو جو نیک بیبیاںہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں اور ان کے پیٹھ پیچھے خدا کی حفاظت میں (مال و آبرو) کی خبرداری کرتی ہیں اور جن عورتوں کی نسبت تمہیں معلوم ہو کہ سر کشی (اور بد خوئی) کرنے لگی ہیں تو پہلے اُن کو (زبانی) سمجھائو( اگر نہ سمجھیں تو) پھر ان کے ساتھ سونا ترک کر دو اگر اس پر بھی باز نہ آئیں تو زدوکوب کرو اور اگر فرمانبردار ہو جائیں تو پھر ان کو ایذا دینے کا کوئی بہانہ مت ڈھونڈو بے شک خدا سب سے اعلیٰ (اور) جلیل القدر ہے (النسائ- 34)” مگر کون ان باتوں پر عمل کرے اب تو اگر بیوی کو بُرا بھلا کہہ دو تو سیدھا کیس کرانے کی دھمکی ملتی ہے اور تھانے والوں سے انصاف کے تقاضے مانگے جاتے ہیں۔
جبکہ میاں بیوی کی باہمی چپقلش کے بارے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ” اور اگر تم کو معلوم ہو کہ میاں بیوی میں اَن بَن ہے تو ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے مقرر کرو وہ اگر صلح کرا دینی چاہیں گے تو اللہ ان میں موافقت پیدا کر دے گا کچھ شک نہیں کہ خدا سب کچھ جانتا اور سب باتوں سے خبردار ہے ( النساء 35- )” کتنی خوبصورت بات ہے قرآن پاک کی ہر مسئلے کا حل موجود ہے مگر نہ جانے ہم اس پر عمل کیوں نہیں کرتے کیوں ہم ہر روز نئے حقوق کی بات کرتے ہیں اگر ایسے شور ڈال کر ہی حقوق ملتے ہیں تو مردوں کے لئے بھی کچھ حقوق وضع کر دیے جائیں کہ پہلے دفتر والیوں سے دامن بچا کے چلتے تھے اور اب گھر والی سے بچنے کے چکر میں بنا پیسوں کے اوور ٹائم لگانے شروع کر دیے ہیں پھر بھی سکون میسر نہیں اس لئے میری جناب وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے مظلومانہ گزارش ہے کہ سُننے میں آیا ہے کہ اتفاق فونڈری بِک چکی ہے۔
اس لئے ملک ریاض صاحب کے تعاون سے اتفاق فونڈری کی جگہ Noiva Do Cordeiro کی طرز پر ایک قصبہ بنا دیا جائے جس کا پرتگالی نام Noivo Do Cordeiro ہو جس کا اگر انگریزی میں ترجمہ کیا جائے تو Lamb Groom اور اُردو میں ” مردستان پورہ” بنتا ہے جس پر صرف اور صرف مظلوم مرد حضرات کی اجارہ داری ہو جہاں پر وہ سُکھ کا سانس لے سکے، جہاں پر کوئی اُن کو ہراساں نہ کر سکے، جہاں پر اُسے ہتھکڑی لگنے کا خوف نہ ہو، جہاں پر وہ اپنی محنت کی کمائی صرف اپنی ذات پر استعمال کر سکے اور جہاں پر وہ اپنی مرضی سے آ جا سکے مگر ایک شرط ہو کہ Noiva Do Cordeiro کی طرح عورتوں کو کبھی بھی ” مردستان پورہ” آنے کی اجازت نہ ہو کیونکہ اگر مردستان میں عورت آگئی تو پھر سے ” عورتوں کے حقوق” آڑے آ جائیں گے اور بیچارے مرد پھر کسی نئے ” مردستان پورہ” کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں گے میاں صاحب وزیراعلیٰ نہیں بلکہ ایک مظلوم شوہر کی حیثیت سے ذرا سوچئے کہ آپ بھی ایک عدد شوہر ہیں۔
تحریر: محمد عرفان چوہدری