جگنو انٹرینشل کی جانب سے الماس شبی کی سالگرہ کے موقع پر ادبی نشست کا اہتمام
میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والے اہل ذوق میں ایک بھی ایسا نہیں جو الماس شبی کے نام و کام سے باخوبی واقف نہ ہو۔شعروادب کے فروغ کیلئے انکی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں ،بڑی پہلو دارممتازشخصیت ہیں شاعرہ ،ادیبہ، براڈ کاسٹر اور ڈائریکٹر ہر میدانِ شعبہ میں شہرت کی بلندیوں پے راج کر نے کے باوجود انکا عاجزانہ دھیما میٹھا لب و لہجہ اور اخلاق و اطوار قابل رشک ہے۔خوش شکل خوش لباس الماس شبی کے شیریں کلام کا تذکرہ ہو تو اس میں حسن و جمال،جدت،بلند خیالی، غم و الم، ندامت، سادگی، محبت کی کشمکش، روشن خیالی، فکری اُڑان، شوخی خوب چھلکتی ہے۔اگر انکی نثری کاوشوں کا تذکرہ کیا جائے تو بہت سادہ اور عام فہم انداز میں عشق کے سمندر کو منتخب الفاظ کے کوذے میں بند کرنے کے ہنر سے باخوبی واقف ہیں۔انکا تعلق پاکستان کے شہر گجرات ہے اور چھ سالوں سے امریکہ میں مقیم ہیں اور مقبول ترین پنج ریڈیو یو ایس اے کی بانی بھی ہیں،جو گزشتہ چار سالوں سے دنیائے ادب میں تہلکہ مچا رہا ہے۔پنج ریڈیو اور سوشل میڈیا کے ذریعے فروغ ادب کے حوالے سے خوب سے خوب تر کی جستجو انکے ادبی مزاج کی حقیقی ترجمان ہے۔ ۔انکا پنجابی نظموں کا پہلا مجموعہ ’’محبت عذاب‘‘ اہل ذوق احباب کے لئے کسی نادر تحفہ سے کم نہیں۔انکے پہلے ڈائیلاک کی نوعیت کا نثری مجموعہ بھی پورے آب و تاب کے ساتھ منظر عام پر آ چکا ہے۔جبکہ انکے دیگر مجموعے ’’کبھی ہم تمھارے تھے‘‘ اور’’دیر سویر تو ہو جاتی ہے‘‘اشاعت کے آخری مراحل میں ہیں ۔گزشتہ دنوں پاک ٹی ہاؤس میں نامور شاعرہ و ادیبہ محترمہ ایم زیڈ کنول نے اپنی ادبی تنظیم ’’جگنو انٹرنیشنل‘‘ کے زیراہتمام الماس شبی کی سالگرہ کے حوالے سے ایک یادگار ادبی تقریب کا انعقاد کیا۔میزبان محفل نے تمام شرکاء کرام کو قلب و نظر کے بے پناہ گہرائیوں سے ویلکم کیا۔مہمانان خصوصی کے تعارف کی ذمہ داریاں ایم زیڈ کنول نے دلکش انداز میں نبھاتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر شفیق جالندھری ایک قدآور ادبی شخصیت ہیں انکے بغیر ادبی تقریبات نامکمل رہتی ہیں ،اختر ہاشمی ہمارے لئے اساتذہ کا درجہ رکھتے ہیں ، میاں آفتاب ناول نگاری کے حوالے سے اپنے جوہر دیکھا چکے ہیں انکی کتاب ’’لال کرتی‘‘ پر بی بی سی اُردو تبصرے بھی شائع کر چکی ہے۔قاضی منشاء ادب کی معتبر شخصیت ہیں اور ادبی محافل کی رونق ہیں۔مقصود چغتائی کی ادبی خدمات کے اعتراف میں شریف اکیڈمی جرمنی نے انہیں ’’ادبی سکاوئٹ‘‘ کے خطاب سے نواز ہے۔انہوں نے اپنے کڑے وقت کے تناظر میں دسمبر کو سفاک مہینہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسی ماہ میرے راز دار بھائی اس دنیا سے کوچ کر گئے ،یکدم چہروں پے سنجیدگی اور محفل پر طاری خاموشی ایم۔زیڈ۔کنول سے دلی اظہار افسوس اور شدید غم کی مکمل ترجمانی تھی۔’’جگنو انٹرنیشل‘‘ کے قیام کے حوالے سے انہوں نے کہا فروغ ادب اور ادبی شخصیات کی خدمات کے اعتراف کیلئے آٹھ فروری ۲۰۱۴ کو اس ادبی تنظیم کا اجراء عمل میں لایا گیا۔اسی تنظیم کے زیراہتمام آن لائن ’’ فروغِ عالمی ادبی ایوارڈ‘‘کئی ادبی شخصیات کو ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے جبکہ الماس شبی کو آئندہ منعقدہ تقریب میں اسی ایوارڈ سے نوازا جائیگا ان شاء اللہ تعالی۔مقصود چغتائی نے ابتدائیہ کلمات میں الماس شبی ،مہمانان خصوصی اور شرکاء کو خوش آمدید کہا ۔انہوں نے کہا پاکستان کا دل لاہور، لاہور کا دل پاک ٹی ہاؤس ، اور پاک ٹی ہاؤس کا دل جگنو انٹرنیشل ہے۔جگنو انٹرنیشل برق رفتاری سے کامیابیوں کی منزلیں طے کر رہی ہے اور اب تک اس کے ممبران کی تعداد تقریباً ایک ہزار ہو چکی ہے۔انتظار کی کڑی گھڑیوں نے دم توڑا، تقریب کا جمودبھی ٹوٹا اور سب شرکاء اس راستے کی جانب متوجہ ہوئے جہاں سے شانِ محفل محترمہ الماس شبی ،لیلی اور ڈاکٹر مروہ کے ہمراہ ہال میں تشریف لا رہی تھیں۔میزبان محفل ایم۔زیڈ۔کنول اور مہمانانِ خصوصی نے انکا پرتپاک استقبال کیا اور پھولوں کے گلدستے پیش کئے ۔شرکاء کی نگاہوں میں چمک دمک،رخسار پے رقاص شادابی،لبوں پے چہکتی مسکراہٹوں کی شدت سے چہرے پے طویل انتظار کی تھکاوٹ کے اثار تک ختم ہو چکے تھے۔
تقریب کا باقاعدہ آغازرب جلیل کے بابرکت کلام سے ہوا جس کی سعادت گولڈ میڈلسٹ حافظ قاری احمد ہاشمی نے حاصل کی اور اپنی پرسوز قرآت سے روحوں کو منور کر دیا۔غنی فاطمہ نے نعت رسول مقبولﷺ پیش کی جسے شرکاء نے بڑی عقیدت و احترام سے سماعت فرمائی،زبانوں پے ’’سبحان اللہ۔سبحان اللہ‘‘ کا ورد جاری ہوا تو محفل پے ایک روحانی سحر سا طاری ہو گیا۔نظامت کے فرائض باحسن خوبی ایم زیڈ کنول نے سرانجام دیئے اور خو بصورت و معطر الفاظ کی زنجیر میں سامعین کو ایسے جکڑے رکھاکہ شرکاء کی توجہ محفل سے لمحہ بھر کے لئے بھی غیر حاضر نہ ہوپائی اور دل کھول کر پذیرائی حاصل کی ۔مسند صدارت پے ڈاکٹر شفیق جالندھری جلوہ افروز وہوئے،جبکہ مہمانانِ خصوصی میں میاں آفتاب، قاضی منشاء، مقصود جعفری ، اختر ہاشمی اور لیلی رانا بھی صاحب تقریب ہر دلعزیز شخصیت محترمہ الماس شبی کے ہمراہ سٹیج کی رونق بڑھا رہے تھے۔مظہر سلیم مجوکہ، علامہ خورشید کمال ، خواجہ ذاکر، احمد ہاشمی، محمد اقبال، اعجاز فیروز اعجاز، حرا فاطمہ، اعتبار ساجد، ڈاکٹر مروہ،مظہر قریشی، ممتاز راشد، شگفتہ غزل، بشری سحرین، ثریا یاسمین چوہدری،علامہ عبدالستار عاصم سمیت کئی اہم ادبی شخصیات کی شرکت نے محفل کو مزید باوقار کر بنا دیا۔ایم ۔زیڈ۔کنول نے الماس شبی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ انکی شخصیت میں جادو اور محبت میں عجب سحر ہے ،دیارغیر میں رہنے کے باوجود اپنی دھرتی سے بے حد محبت رکھتی ہیں ۔انکی آواز پنج ریڈیو ،یو ایس اے کے ذریعے ۶۵ ممالک میں گونج رہی ہے ،مقبولیت کی بلندیوں کو چھونے کے باوجود انکے اخلاص میں کوئی کمی نہیں آئی۔لیلی رانا نے اپنے اظہار خیال میں خوبصورت ادبی محفل کے انعقاد پر ایم زیڈ کنول کا شکریہ ادا کیا اور انکی ادبی خدمات کو بھی سراہاانہوں نے اپنے پاکستانی ہونے پر فخر کا اظہار بھی کیا۔مظہرقریشی نے فروغ ادب کے لئے پنج ریڈیوکی خدمات کو سراہا اور ایم زیڈ کنول کو تقریب کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی ۔ممتاز راشد نے اپنا ایک دلکش منتخب شعر الماس شبی کی نذر کیا۔منشاء قاضی نے الماس شبی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ، جیسے جلیل القدرادبی لوگ آپ کیلئے منتظر رہے میں آپ کی خوش نصیبی پر فخرکرتا ہوں اور آپ کی مزید کامرانیوں پر دعاگوہ بھی ہوں۔شگفتہ غزل نے صرف اس مصرعے پر ہی اکتفا کیا’’دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو‘‘۔اخترہاشمی ،میاں آفتاب ،ڈاکٹر ابرار نے ادبی خدمات کے اعتراف میں الماس شبی کو تحسینی کلمات سے نواز ۔ثریا یاسمین چوہدری نے اپنی نظم ’’آنسو‘‘ سماعتوں کی نذر کی اور خوب داد و تحسین حاصل کی
الماس شبی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس محفل میں شرکت میرے لئے باعثِ اعزاز ہے،ہر لمحہ میرے لئے قرض ہے یہ محبتوں کا وہ قرض جسکی ادائیگی ناممکن ہے ۔ میں کہیں بھی جاؤں مگر جو پیار اور راحتِ قلب میں نے یہاں سمیٹا ہے کبھی نہیں بھولا سکتی۔پنج ریڈیو آپ کا اپنا چینل ہے ۔ انہوں نے وقت کی مناسبت سے ایک دلفریب نظم ’’دیر سویر تو ہو جاتی ہے‘‘پیش کی تو سامعین بے ساختہ واہ۔واہ۔سبحان اللہ کہہ اُٹھے۔قارئین کی شعری پیاس بجھانے کیلئے انکا تخلیقی حسن پیش خدمت ہے۔
دروازے پر جو آنکھیں ہیں
اُن انکھوں میں جو سپنے ہیں
اس سپنوں میں جو مورت ہے
وہ میری ہے
دروازے سے باہر کیا ہے
اک رستہ ہے
جس پہ میری یادوں کا شہر بسا ہے
میرا رستہ دیکھنے والی ان انکھوں کا جال بچھا ہے
مجھے پتا ہے
لیکن ان آنکھوں کو کیسے میں یہ بات بتاؤں
ہر رستے پہ اتنی بھیڑ، چلنا مشکل ہو جاتا ہے
آوازوں کے اس جنگل سے بچنا مشکل ہو جاتا ہے
دکھ کا ایسا لمحہ آتا ہے ،ہسنا مشکل ہو جاتا ہے
جب ایسے حالات کھڑے ہوں
قدموں میں زنجیر کی صورت
روشنیوں کے سائے پڑے ہوں
ایسے میں دل اُن آنکھوں سے
ایک ہی بات کہے جاتا ہے
دیر سویر تو ہو جاتی ہے
سامعین نے انکے خوبصورت لب و لہجے، منفرد ادائیگی لفظ کو خوب سراہا۔صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے شفیق جالندھری نے کہا کہ الماس شبی کے کلام نے سماعتوں میں ایسا رس گھولا ہے کہ انتظار کی تلخی اب شادابی اور اطمینان میں بدل گئی ہے ۔میدان ادب میں الماس شبی نے اپنے نام کا لوہا منوایا ہے انہیںیہاں پا کر دلی مسرت ہوئی ہے اور خوشی ہے کہ دیارغیر میں بھی ترویج ادب محفوظ ہاتھوں میں ہے۔انہوں نے پریس کونسل آف انٹرنیشل افیئرز، کونسل آف پاکستان افیئرز، حلقہ یاداں اور مولانہ ظفر علی خان ٹرسٹ کی جانب سے انہیں سالگرہ کی مبارکباد پیش کی اور نیک تمناؤ ں کا اظہار بھی کیا۔اس طرح یہ شاندار جلوے دیکھاتی ادبی محفل شام کے آخری پہر کی دستک پر اختتام پذیر ہوئی۔الما س شبی اور پنج ریڈیو کی سالگرہ کے کیک کٹائی کی رسم ادا کی گئی، مہمان پاک ٹی ہاوس کی گرما گرم چائے اور ایک نئی غیر رسمی ادبی نشست سے لطف اندوز ہوتے رہے ۔ شعراء کرام اشعار کے موتی لٹانے لگے ۔ثریا یاسمین چوہدری نے الماس شبلی کی نذر آنکھوں کے حوالے سے ایک خوبصورت غزل پیش کی اور محفل کو رنگین کر دیا۔خوش آواز، آبروئے ترنم غنی فاطمہ نے کلامِ الماس پرترنم پیش کر کے سامعین کو اشعار کے حصار میں باندھ لیا۔ابن مظہر قریشی نے بھی ترنم کے ساتھ صوفیانہ کلام پیش کیا تو شرکاء پر کیفیت طاری ہو گئی۔محفل کا رنگ ڈھنگ بدلا اور محترمہ لیلی رانا نے پنج ریڈیو کے لئے اپنے پروگرام کا آغاز کر دیا ہاتھوں میں ریکارڈر اور مائیک تھامے تقریب کی مناسبت سے دلچسپ گفتگو میں تمام شرکاء کو شامل کر لیا انکے منفرد اندازِ گفتار نے آخری لمحات کوبھی کشت زعفران بنا دیا۔سبھی بہت محظوظ ہوتے رہے ۔اوریوں اپنی جھولی کو خوشگوار یادوں سے بھرتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو ہو لئے