قصور کی معصوم زینب کا کیس ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ جڑانوالہ میں ایک اور معصوم کلی درندگی کا شکار ہو گئی۔ ایک اور ماں کی گود کو ویران کر دیا گیا، ایک باپ سے اس کی شہزادی دور کر دی گئی ، ایک بھائی سے اس کی گڑیا جدا ہو گئی، ایک گھر کی رونق کو چھین لیاگیااور والدین کو سسکیاں اور آنسو وں کے حوالے کر دیا گیا۔ ایک اور خاندان میں صف ماتم بچھا دیا گیا۔ ابھی تو معصوم مبشرہ نے ماں کے آنگن سے باہر کی دنیا کو دیکھا بھی نہیں تھا، اور اس انسانیت سوز واقعے سے غموں کے پہاڑ تلے دب کر والد کے اپنی بیٹی کیلئے دیکھے خواب بکھر گئے۔
زینب کے واقعے کے بعد سے لے کر اب تک مبشرہ کا ایک واقعہ نہیں ہوا ۔ بلکہ ہر روز اخبارات میں اس طرح کے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں ۔ کہیں اسماء کیس ہے تو کہیں عابدہ کا دل سوز قتل ہے۔ صرف پنجاب میں اوسطاً ہر ماہ ایسے 11واقعات پیش آ رہے ہیں ۔ اعداد و شمار میں صرف وہ کیس آتے ہیں جو پولیس ریکارڈ میں درج ہوتے ہیں ۔ نہ جانے کتنے ایسے واقعات ہیں جن کو سیاسی دبائو کی وجہ سے ریکارڈ کا حصہ نہیں بننے دیا جاتا یا والدین اپنی عزت کو لوگوں میں تماشہ بننے کے ڈر سے چپ سادھ لیتے ہیں ۔ جب بھی کسی کیس کی تحقیق ہوتی ہے تو اس میں زیادہ تر سیاسی یا دولت کے نشے میں امیروں کی بگڑی اولادوں کے نام ہی سامنے آتے ہیں مگرصاحب منصب اس بات پر قائم ہیں کہ ملک میں انصاف کا رائج ہے ۔ ہم سے اچھی حکومت کوئی کر ہی نہیں سکتا، ہم سے بڑا منصف اس ملک کو ملا ہی نہیں ۔ ہم تو ہیں ہی اس عوام کے خادم ِاعلیٰ۔
میڈیا کے سامنے زینب کی ماں نےحکومت سے ایک ڈیمانڈ کی تھی کہ میری معصوم بیٹی کے قاتل کو قصور کی اسی گلی میں پھانسی پر لٹکایا جائے جہاں سے زینب کی لاش ملی تھی۔ مگر حکومت یہ بتانے لگی کہ اس کی قانون میں اجازت نہیں ،اور آج معصوم مبشرہ کی ماں وزیرِ قانون سے سوال کر رہی ہے کہ اس ملک کی بیٹیوں کی عزت سے کھیلنے والوں کو زندہ رہنے کی اجازت کس قانون نے دی ہے؟ اگر سپریم کورٹ سے نااہل ہونے وا لے نوازشریف کی پارٹی صدارت کیلئے ملک کا قانون تبدیل کیا جا سکتا ہے تو ان سفاک صفت درندوں کو سرِعام پھانسی کے پھندے پر لٹکانے کیلئے قانون میں تبدیلی کیوں نہیں کی جاسکتی ۔ شیطانی کھیل کے حیوانوں کو عبرت کا نشان کیوں نہیں بنایا جاتا؟
کراچی کے چیف جسٹس کے اغواء ہونے والے بیٹے اویس شاہ کو ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں کراچی سے 1100 کلومیٹر دور ٹانک ، خیبر پختونخواہ کے علاقے میں کارروائی کرتے ہوئے گاڑی میں موجود 3 دہشت گرودوں کو قتل کرتے ہوئے اویس شاہ کو بچا سکتی ہیں کیوں کہ وہ ایک چیف کا بیٹا تھا ۔ تو کیا د خترانِ وطن کی ان درندہ صفت لوگوں سے حفاظت کیلئے ہمیں دوسرے ملک کی ایجنسیاں کی مدد لینا ہو گی ؟ یا عوام کی حفاظت ہمارے حکمرانوں، سیکورٹی اور عدل کے اداروں کی ڈیوٹی میں شامل نہیں ہے؟ یا پھر اس قوم کو کہہ دیں کہ گھر سے نکلنے والے بچوں پر آیت الکرسی پھونکنا نہ بھولیں ورنہ کسی انہونی کی صورت میں صاحبِ منصب ذمہ دار نہیں ہوں گے۔
ایک ماں جس کی آہ کے آسمان پر پہنچنے میں دیر نہیں لگتی ، معلوم نہیں ہمارے ایوان عدل تک کیسے نہیں پہنچ رہی۔ معصوم زینب کیلئے انصاف کی آواز اٹھانے والی عوام جب پولیس کے ہاتھوں اپنی ہی لاشیں لے کر گھر واپس پہنچی تو انصاف کا جنازہ تو اس وقت ہی اٹھ گیا تھا۔ قصور کی معصوم زینب کے کیس میں پوری قوم کے غم و غصہ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے سوموٹو ایکشن تو لیا گیا مگر اس کیس کوعوام کی ڈیمانڈ کے مطابق حل کرنے کی بجائے گمنام کر دیا گیا ۔ زینب کے والدین آج بھی عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج پھر ایک اور زینب ایوان ِعدل سے انصاف مانگتی نظر آ رہی ہے۔