تحریر: امیر اہلسنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ”ابو عمرو” اور لقب جامع القران ہے نیز ایک لقب ”ذوالنورین”(دو نور والے) بھی ہے کیونکہ حضورصلی اللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی دو شہزادیاں یکے بعد دیگرے حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالی عنہ کے نکاح میںرہیں، مزید برآں آپ تیسرے خلیفہ بھی ہیں۔
نور کی سرکار سے پایا دو شالہ نور کا
ہو مبارک تم کو ذوالنورین جوڑا نور کا
آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے آغاز اسلام ہی میں قبول اسلام کر لیا تھا، آپ رضی اللّٰہ تعالی عنہ کو ”صاحب الہجرتین”(یعنی دو ہجرتوں والے) کہا جاتا ہے کیونکہ آپ رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے پہلے حبشہ اور پھر مدینة منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔
امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان والا بہت بلند وبالا ہے، آپ رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے اپنی مبارک زندگی میں نبی رحمت، مالک جنت صلی اللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے دو مرتبہ جنت خریدی، ایک مرتبہ ”بیررومہ” یہودی سے خرید کر مسلمانوں کے پانی پینے کے لیے وقف کر کے اور دوسری بار ”جیش عسرت” کے موقع پر۔ چنانچہ” سنن ترمذی” میں ہے: حضرت سیدنا عبدالرحمن بن خباب رضی اللّٰہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ میں بارگا ہ نبوی میں حاضر تھا اورحضورصلی اللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلم صحابۂ کرام علیہم الرضوان کو ”جیش عسرت ”(یعنی غزوۂ تبوک ) کی تیاری کیلئے ترغیب ارشاد فرما رہے تھے۔
حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ نے اُٹھ کر عرض کی: یارسول اللہصلیاللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلم! پالان اور دیگر متعلقہ سامان سمیت100 اونٹ میرے ذمے ہیں۔ حضورصلی اللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے صحابۂ کرام علیہم الرضوان سے پھرترغیبا ًفرمایا تو حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالی عنہ دوبارہ کھڑے ہوئے اور عرض کی: یارسول اللہ صلیاللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلم! میں تمام سامان سمیت 200 اونٹ حاضر کرنے کی ذمہ داری لیتا ہوں۔ حضورصلی اللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے صحابۂ کرام علیہم الرضوان سے پھرترغیبا ًارشاد فرمایا تو حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالی عنہنے عرض کی: یارسول اللہ صلیاللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلم میں مع سامان 300اونٹ اپنے ذمے قبول کرتا ہوں۔
راوی فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ حضورصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے یہ سن کر منبر منور سے نیچے تشریف لاکر دومرتبہ فرمایا: ” آج سے عثمان رضی اللّٰہ تعالی عنہ جوکچھ کرے اس پر مواخذہ (یعنی پوچھ گچھ) نہیں۔” امیرالمؤمنین، حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالی عنہ زبر دست عاشق رسول بلکہ عشق مصطفی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا عملی نمونہ تھے اپنے اقوال وافعال میں محبوب رب ذوالجلال صلیاللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی سنتیں اور ادائیں بخوشی اپنایا کرتے تھے چنانچہ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالی عنہ ایک بار وضو کرتے ہوئے مسکرانے لگے! لوگوں نے وجہ پوچھی تو فرمانے لگے: میں نے ایک مرتبہ سرکار نامدار صلی اللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو اسی جگہ پر وضو فرمانے کے بعد مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔
حضرت سیدناعثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالی عنہ کے بے مثال صبر و تحمل پر قربان! کہ جب آپ رضی اللّٰہ تعالی عنہ کے مکان عالیشان کا محاصرہ ہوا تو جاں نثاروں نے دولت خانے پر حاضر ہوکر بلوائیوں سے مقابلے کی اجازت چاہی مگر آپ رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے اجازت دینے سے انکار فرما دیااورجب آپ رضی اللّٰہ تعالی عنہ کے غلام ہتھیاروں سے لیس ہو کر اجازت کے لئے حاضر ہوئے تو فرمایا : اگر تم لوگ میری خوشنودی چاہتے ہو تو ہتھیار کھول دو اور سنو! تم میں سے جو بھی غلام ہتھیار کھول دے گا میں نے اُس کو آزاد کیا۔ اللہ عزوجل کی قسم! خون ریزی سے پہلے میرا قتل ہو جانا مجھے زیادہ محبوب ہے بمقابلہ اِس کے کہ میں خون ریزی کے بعد قتل کیا جائوں اور میری شہادت لکھ دی گئی ہے اور نبی غیب دان صلی اللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اِس کی بشارت دے دی ہے۔ حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے اپنے غلاموں سے فرمایا: ” اگر تم نے جنگ کی پھر بھی میری شہادت ہوکر رہے گی۔”
حضرت سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللّٰہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جن دنوں باغیو ں نے حضرت سیدنا عثمان رضی اللّٰہ تعالی عنہ کے مکا ن رفیع الشان کامحاصرہ کیاہوا تھا، میں ملاقات کے لیے حا ضر ہو ا تو آپ رضی اللّٰہ تعالی عنہ اُس دن روزہ دار تھے۔ مجھ کو دیکھ کر فر مایا: اے عبد اللہ بن سلام رضی اللّٰہ تعالی عنہ ! میںنے آج رات حضورصلی اللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو اِس روشن دان میں دیکھا، آپ صلیاللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے انتہائی مشفقانہ لہجے میں ارشاد فرمایا: ترجمہ ” یعنی اگر تمہا ری خو اہش ہو تو ان لوگوںکے مقابلے میں تمہا ری امداد کروں اور اگر تم چاہو تو ہمارے پا س آکر روزہ افطارکر و۔” میں نے عرض کی:یارسول اللہصلیاللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلم! آپ صلیاللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلمکے دربارِ پرُ انوار میں حا ضر ہو کر روزہ افطار کر نا مجھے زیا دہ عزیز ہے۔ حضر ت سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللّٰہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس کے بعد رخصت ہو کر چلا آیا اور اُسی روز باغیوں نے آپ رضی اللّٰہ تعالی عنہ کو شہید کر دیا۔
اِس حکایت سے معلوم ہوا کہ سرکار نامدار صلی اللّہ تعالی علیہ وآلہ وسلم پر بعطائے پروردگار عزوجل سیدنا عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالی عنہ کے تمام حالات ظاہر و آشکار تھے، ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمارے مکی مدنی سرکار صلی اللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلمبے کسوں کے مدد گار بھی ہیںجبھی تو فرمایا: اِنْ شِئْتَ نُصِرْتَ عَلَیْہِمْ”یعنی اگر تمہا ری خو اہش ہو تو ان لوگوںکے مقابلے میں تمہا ری امداد کروں۔۔
حضرت سیدناعثمانِ غنی رضی اللّہ تعالی عنہ زبر دست عاشق رسول بلکہ عشق مصطفےٰ کا عملی نمونہ تھے اپنے اقوال و افعال میں محبوب رب ذوالجلال صلیاللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی سنتیں اور ادائیں خوب خوب اپنایا کرتے تھے۔چنانچہ ایک دن حضرت سیدناعثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالی عنہنے مسجد کے دروازے پر بیٹھ کر بکری کی دستی کا گوشت منگوایا اور کھایا اور بغیر تازہ وضو کئے نماز ادا کی اور فرمایا کہرسول اللہصلیاللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے بھی اسی جگہ بیٹھ کر یہی کھایا تھا اور اسی طرح کیا تھا۔
خضرت سیدنا شرخنیل بن مسلم رضی اللّٰہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سیدنا عثمان رضی اللّٰہ تعالی عنہ لوگوں کو امیروں والا کھانا کھلاتے اور خود گھر جا کر سرکہ اور زیتون پر گزارہ کرتے۔
حضرت سیدناعثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے فرمایا : جس ہاتھ سے میں نے رسول اللہصلیاللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی وہ پھر میں نے کبھی بھی اپنی شرم گاہ کو نہیں لگایا۔ آپ رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم ! میں نے نہ تو زمانہ جاہلیت میں کبھی بدکاری کی اور نہ ہی اسلام قبول کرنے کے بعد۔ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالی عنہ ہمیشہ نفلی روزے رکھتے اور رات کے ابتدائی حصے میں آرام فرما کر بقیہ رات قیام ( یعنی عبادت ) کرتے تھے۔
آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی تواضع کا یہ حال تھا کہ رات کو تہجد کے لیے اٹھے اور کوئی بیدار نہ ہوا ہوتا تو خود ہی وضو کا سامان کر لیتے اورکسی کو جگا کر اس کی نیند میں خلل انداز نہ ہوتے چنانچہ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالی عنہ جب رات تہجد کے لیے اٹھتے تو وضو کا پانی خود لے لیتے تھے۔ عرض کی گئی: آپ رضی اللّٰہ تعالی عنہ کیوں زحمت کرتے ہیں خادم کو حکم فرما دیا کریں ۔ آپ رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے فرمایا :نہیںرات ان کی ہے اس میں آرام کرتے ہیں۔ (ابن عساکرج ٣٩ص٢٣٦) امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالی عنہ ایک موقع پر اپنے باغ میں سے لکڑیوں کا گٹھا اٹائے چلے آرہے تھے حالانکہ کئی غلام بھی موجود تھے۔
کسی نے عرض کی : آپ رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے یہ گٹھا اپنے غلام سے کیوں نہ اٹھوالیا؟ آپ رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے فرمایا : اٹھو ا تو سکتا تھا لیکن میں اپنے نفس کو آزمارہا ہوں کہ وہ اس سے عاجز تو نہیں یا اسے نا پسند تو نہیں کرتا! امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے اپنے ایک غلام سے فرمایا : میں نے ایک مرتبہ تیراکان مروڑاتھا اس لئے تومجھ سے اس کا بدلہ لے لے۔ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالی عنہ قطعی جنتی ہونے کے باوجود بھی قبر کی زیارت کے موقع پر آنسو روک نہ سکتے تھے۔
امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللّہ تعالی عنہ جب کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو اس قدر روتے کہ آنسووں سے آپ رضی اللّٰہ تعالی عنہ کی ریش( یعنی داڑھی) مبارک تر ہوجاتی۔ 18 ذوالحجة الحرام 35 سن ہجری کو جلیل القدر صحابی عثمان غنیرضی اللّٰہ تعالی عنہ نہایت مظلومیت کے ساتھ شہید کئے گئے۔
تحریر: امیر اہلسنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری