تحریر : علی عمران شاہین
سپر پاورز کا قبرستان کہلانے والی سرزمین افغانستان کے ایک عظیم سپوت ملا محمد عمر مجاہد اپنے رب سے جا ملے (اناللہ و اناالیہ راجعون)۔ ان کی وفات کی خبر ان کے دشمنوں کو بھی اڑھائی سال تک نہ ہو سکی۔ یہ دشمن وہ تھے جو اس بات کے دعویدار تھے کہ دنیا کا ہر انسان ہی نہیں، ہرچھوٹی سے چھوٹی شے بھی ان کی دسترس میں ہے۔ یہی سوچ کر ہی انہوں نے نائن الیون کے بعد افغانستان کو دھمکیاں دینا شروع کی تھیںکہ جیسے ہم کہیں، ویسے کرتے جائو… وگرنہ… زمین سے ہی مٹا دیئے جائو گے۔ ملا عمر نے تاریخ انسانی کی نئی مثال قائم کر دی۔ ایک خاک نشین جس نے ایک ملک کا حکمران ہوتے اتنی سادہ زندگی گزاری کہ دور اسلاف سے ہی اس کی مثال مل سکے گی۔ خود کو ”خدا” سمجھنے والوں سے ملا محمد عمر نے اپنے کندھے پر رکھی چادر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا ”میرے نزدیک میرے کندھے پر رکھی چادر کی قدرواہمیت میری حکومت سے زیادہ ہے۔ میں اس سے کتنے کام لیتا ہوں… یہ مجھے گرمی سردی میں کام دیتی ہے، میری حفاظت کرتی ہے، مجھے آرام مہیا کرتی ہے۔
اپنے دامن کو میرے لئے پھیلا کر بیٹھنے اور نماز تک ادا کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ حکومت تو میرے لئے اس چادر جتنی بھی اہمیت نہیں رکھتی۔” یہ کہہ کرانہوںنے وہی چادرکندھے پر رکھی اور نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔ امریکہ نے ان کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کی، اقوام متحدہ سے ان کے اور ان کی تنظیم کے خلاف قراردادیں منظور کروائیں ۔پھر ایٹم بم کے بعد سب سے خطرناک بم ڈیزی کٹر بارش کی طرح برسانے شروع کئے۔ امریکہ کے ساتھ دنیا کے 50کے لگ بھگ طاقتور ملک بھی تھے۔ یہ سبھی طاقت کے نشے میں چور ایک طرف ، تو نہتے افغان، دنیا کی سب سے کمزور ترین اقوام میں سے ایک، دوسری طرف تھے۔ امریکہ نے ملا عمر اور ان کے ساتھیوں تک پہنچنے کیلئے ساری صلاحیت اور قوت آزما لی لیکن … 14 سال میں ان کی گرد تک کونہ پہنچ سکا۔
دیکھتے ہی دیکھتے ملا محمد عمر کے ساتھیوں نے امریکی اتحادیوں کو ایسے رگیدنا شروع کیا کہ وہ ایک ایک کر کے سب اپنے گاڈفادر کا ساتھ چھوڑتے گئے۔ ملک کے اطراف واکناف میں امریکی کیمپوں اور قافلوں پر اتنے حملے ہوئے کہ سپرپاور بھی بلبلا اٹھی۔ امریکہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کے ہیلی کاپٹرز اور ہوائی جہازوں تک دنیا کا کوئی ہتھیار پہنچ سکتا ہے لیکن ملا محمد عمر کے ساتھیوں نے انہیں بھی مار گرانا شروع کیا۔ اس سارے عرصہ میں امریکہ کے اسلحہ ساز اداروں اور کمپنیوں نے نئی سے نئی اور مضبوط سے مضبوط عسکری ٹیکنالوجی متعارف کروائی لیکن ان کی ایک نہ چلی۔
امریکہ میں فوجیوں اور ان کے افسران کی لاشوں کے تابوتوں سے بھرے جہاز جب اترتے تو دنیا کا ”طاقتور ترین انسان” امریکی صدر بھی آنسو بہاتا دکھائی دیتاتو امریکی مزاج اور لہجا تبدیلی ہونا شروع ہوا۔ دوستوں کے فرار کے بعد امریکہ نے اسی ”چیونٹی” کے سامنے ہاتھ جوڑ کے انہیں مذاکرات پر آمادہ کرنے کیلئے منتیں سماجتیں شروع کیں جسے اس نے روند روند کر اپنے ہی پائوں زخمی کر ڈالے تھے۔3سال پہلے ملا محمد عمر کے ساتھیوں کا دفتر قطر میں خود امریکہ نے کھولا۔ بدنام زمانہ گوانتانامو کے قید خانے سے 5 مجاہد کمانڈروں کو اپنے خصوصی طیارے میں بٹھا کر قطر پہنچا کر ایک فوجی واگزار کروایا۔ دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ امریکہ اپنا تھوکا خود چاٹ رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ افغان طالبان دہشت گرد نہیں، مسلح باغی ہیں۔ پھر کہہ رہا تھا کہ ملا محمد عمر کے سر کی رکھی قیمت وہ ختم کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ ملا محمد عمر اور ان کی تنظیم اب ”پاک، پوتر” ہونے جا رہی ہے تو امریکہ اسے ”دہشت گردوں” کی فہرست سے خارج کرنے کی تیاری میں ہے۔
امریکہ نے ملا محمد عمر کے ساتھیوں سے ترکی، مالدیپ، قطر، جرمنی اور چین سمیت کتنی جگہ مذاکرات کی کوششیں کیں کہ کسی طرح افغانستان کے کمبل سے جان چھوٹ جائے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔دنیا نے چند دن پہلے عجیب منظر دیکھا کہ امریکہ اسلام آباد اور پھر مری میں انہی ملا عمر کے ساتھیوںسے مذاکرات کر کے واپسی کیلئے راستے تلاش کر رہا تھا۔ آج ہمارے سامنے تاریخ کا مسافر ایک ایسی تبدیلی کو دیکھ رہا ہے جو بہت کچھ نیا رکھتی ہے۔ اب بھی کچھ ”دانشور” جن کی دانشوری اپنے کمرے سے شروع ہو کر اپنے دفتر ہی پر ختم ہو جاتی ہے، نام نہاد عقل کے گھوڑے دوڑاتے نظر آتے ہیں کہ اگر ”ملا محمد عمر یوں کرتے، یوں نہ کرتے” تو آج منظر کچھ اور ہوتا۔
لیکن انہیں ابھی تک یہ دکھائی نہیں دے رہا کہ قندھار کے ایک معمولی سے گھر میں آنکھ کھولنے والے شخص نے کیسے ایک عالم کو تہ و بالا کر کے تاریخ ہی کو بدل کر رکھ دیا۔ آج فاتح کون ہے اور مفتوح کون…؟ نکھر کر سامنے آ چکا ہے۔ قوموں کی تاریخ ہمیشہ خون سے لکھی جاتی ہے… بزدلوں کیلئے تاریخ میںذلت کے سوا کچھ نہیںہوتا۔ لیکن جنہوں نے دل و دماغ سے دشمن سے مرعوبیت کو قبول کر لیا ہو، انہیں دوبارہ عقل کے راستے پر لانا آسان نہیں ہوتا۔ افغانستان کی تاریخ میں ایک آزمائش کا مرحلہ گزر چکا، اب ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ ملا محمد عمر نے اپنی زندگی کے آخری سالوں میں ملا محمد اختر منصور کو تمام تر ذمہ داریاں تفویض کر دی تھیں اور وہی ایک لمبے عرصہ سے نظام چلا رہے تھے۔
افغانستان کے سبھی جہادی لوگ ان امور سے واقف ہیں تو دشمن ایک نئی چال لے کر آیا ہے کہ ملا محمد عمر کے خاندان کے لوگ خصوصاً ان کے بیٹے ملا محمد اختر منصور کی نامزدگی کے خلاف ہیں۔ یہ کہنے و الے بھی بخوبی جانتے ہیں کہ اسلام پر مر مٹنے والوں کیلئے ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ اگر حکومت و امارت کی ملا محمد عمر کے نزدیک ذرہ برابر حیثیت ہوتی تو وہ اپنے آپ کو اور اقتدار کو بچانے کی کوشش کرتے۔ عقل کے گھوڑے دوڑانے والوں کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ اسلام کے فدائی لوگوں کے ہاں امارت و قیادت کوئی عہدہ نہیں بلکہ ایک بوجھ ہوتی ہے۔ یہ لوگ حتی الوسع یہی کوشش کرتے ہیں کہ ایسی ذمہ داریوں کا بوجھ ان کے کندھوں پر نہ پڑے۔ ایسی افواہیں پھیلانے والے عقل و خرد سے عاریہیں جنہیں نہ تو اسلامی شریعت و احکام کا ذرہ بھر علم ہے اور نہ وہ اسلام کے ماننے والوں کے مزاج اور طبیعت سے واقف ہیں۔
ملا محمد عمر مجاہد نے20 سال جس قدر کامیابی کے ساتھ میدان جہاد سجا کر اور پھر تاریخ عالم کی سب سے بڑی قوت امریکہ اور سب سے بڑے اتحاد نیٹو بلکہ 50کے لگ بھگ اتحادیوں کا مقابلہ کیا، وہ ہمیشہ یادگار رہے گا۔ آج سپرپاور امریکہ ملا محمد عمر کے ساتھیوں کے سامنے سر جھکا کر اور پاکستان کے دروازے پر ناک رگڑ کر جس طرح عبرت کا نشان بنتے نظر آتا ہے، یہ ان پاکباز لوگوں کے خون کی قربانی کا نتیجہ ہے جنہوں نے افغانستان کے اطراف و اکناف میں اپنے جسموں کے ٹکڑے کروائے لیکن سر نہیں جھکائے۔ اللہ تعالیٰ ایسے ایمان والوں کے اعمال اور قربانیوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ نظر آ رہا ہے کہ افغانستان ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔
یہ دور اسلام کے غلبہ کی وہ روشنی لے کر آ رہا ہے جس کیلئے امت ایک عرصہ سے دعائیں التجائیں کر رہی ہے۔ ہمارا تو ایمان ہے کہ جس کا جو وقت مقرر ہے، وہ اپنے و قت پردنیا سے رخصت ہو گا۔ آج تک دنیا میں آنے والا کوئی انسان نہ ہمیشہ زندہ رہا نہ رہے گا۔لیکن عظیم ہیں وہ لوگ جنہوں نے عزیمت اختیار کر کے تاریخ کو ایک نیا رخ دے کر اپنا نام اور کام منوا لیا۔ یہی ملا محمد عمر کی زندگی تھی۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے اور ان کی عظیم جدوجہد کو اس منزل تک پہنچائے جس کیلئے اکیسویں صدی میں اہل اسلام نے تاریخ میںعزیمت کا ایک نیا باب رقم کیا۔
تحریر : علی عمران شاہین