تحریر: شاہ بانو میر
شرارتیں شکایتیں وہ وضاحتیں ـ وہ دور ہی ہر انسان کیلیۓ ایسا قیمتی اثاثہ ہے جو دوبارہ وہ لاکھوں اربوں روپے دے کر ویسی بے فکری ویسی شوخیاں ویسی نادانیاں معصومیت نہیں واپس لا سکتا پیاری سہیلیاں اور ان کے ساتھ زندگی کے حسین بچپن کے دن ٬ کزنز کے ساتھ موج مستیاں چھوٹے کزنز کے ساتھ گزرا وقت ناقابل یقین خوبصورتیاں لئے ہوئے آج بھی نگاہوں کے سامنے ہے جیسے ابھی کچھ دیر پہلے ہی ہم سب ساتھ تھے ٬ بڑا خاندان اور پیار کرنے والے رشتے دار ہوں تو گھر کیا سکول کیا خاندان کیا ہر جگہ رونق موج مستی یاد آتی ہے٬ بچپن میں ہر دن ایک نئی سوچ نئی دلچسپی لے کر آتا تھا ـ موسم ہوتے تھے ـ ہر خاص کام کیلیۓ ـ وہ موسم عام موسم نہیں ہوتے تھے ۔نہ بہار نہ خزاں نہ پت جھڑ نہ برسات ـ
وہ تو موسم تھے کبھی موج مستی کرتے ہوئے فن فئیر کی تیاریوں کے یہاں سے وہاں پورے سکول کالج میں اڑتے پھرنا کچھ الگ کرنے دوڑ میں سب کانوں میں کھسر پھسر کرتے ہوئے بڑی اہم اہم باتوں کا انکشاف کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے تھے ـ پھر ماحول بدلتا ہے اور موسم کے تیور خطرناک ہو جاتے ہیں تو ہر سمت تعلیمی اداروں میں کھنکھتی ہنسی سرگوشیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں ہاتھوں میں کتابیں اور چہروں پے تفکرات کی علامت لکیریں نمودار ہو جاتی ہیں جی ہاں یہ موسم امتحانی موسم ہے جو سب سے زیادہ خاموش سنجیدہ اور بردبار بنا دیتا ہے
پھر موسم کروٹ لیتا ہے تو اچھلتے کودتے سپورٹس ڈے کیلیۓ سرخ ہوتے تِمتِماتے چہروں کے ساتھ سارا سارا دن پڑہائی سے پرے کھیل کے میدانوں میں تیاریوں میں گزر جاتا ہے ـ کہیں باسکٹ بال کھیلا جاتا ہے تو کہیں نیٹ بال کہیں والی بال کی تیاریاں ہیں تو کہیں سو میٹر دو سو میٹر ریس کہیں ریبٹ ریس تو کہیں بِنا ہاتھ لگائے فروٹ کو کھا کے دکھائیے ـ کہیں ماؤں کے ساتھ میوزیکل چئیرز کھیلی جا رہی ہے ـ تو کہیں ٹیچرز اپنے روایتی رعب دار چہروں سے ہٹ کر شرارتی نٹ کھٹ لڑکیاں بنی مختلف قسم کی کھیلوں میں حصہ لیتی دکھائی دیتی ہیں ـ انعامات حاصل کرنے والوں کے ہاتھ ٹرافیوں سے بھرے ہوتے ہیں اور دیگر بیسیوں ان کو رشک سے دیکھتے ہوئے کبھی کبھار اپنے ہارے ہوئے بچوں پر ایک نگاہ غلط ڈال کر بے دلی سے ڈھارس بندھاتے بھی دکھائی دیتے ہیں ـ۔
پھر ایک موسم آجاتا ہے حتمی امتحانات کے بعد اس کلاس روم سے وداعی کا اور پورے سال کی محبت جو ننھے منے دلِوں میں کونپل سے پھول بن چکی ہوتی ہے وہ انہیں جاتے ہوئے اداس کر دیتی ہے لیکن ٹیچرز بڑے حوصلے سے ان کو الوداع کہ کر کامیابی کی نوید دیتے ہیں ہاتھوں میں فتح کے سرٹیفیکٹ اور چہروں پے کامیابی کا اعلان والدین کیلیۓ خوبصورت ترین دن وہی ہوتا ہے ـ ایسے ہی چھٹیوں کے موسم میں نئی نئی گیمز ایجاد ہوتی تھیں جن کی سادگی میں ذہانت کا امتحان ہوتا تھا آجکل تو ایسی کھیلیں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں ـ حالات نے مصنوعی ترقی کی دوڑ میں ان ڈور گیمز اس قسم کی ایجاد کر دیں کہ اب نہ تو کوئی سر شام لُک چُھپ جانا مکئی کا دانہ راجے کی بیٹی آئی کوئی کھیلتا دکھائی نہیں دیتا ـ۔
گھروں کے دالان اور صحن اب سرِ شام ہی دھوپ ڈھلنے کا بیچینی سے انتظار نہیں کرتے کہ جب ان کو گرمی میں کمروں سے باہر نکلنے کی اجازت ہو گی ـ اور وہ سب ہمجولیوں کے ساتھ یا دوستوں کے ساتھ ایسی بے ضرر کھیل کھیل سکیں گے ـ اب کوئی اونچ نیچ کھیلتا اس لیۓ شائد دکھائی نہیں دیتا کہ وہ معصوم کھیل اب معاشرتی اونچ نیچ میں ایسے تبدیل ھو گیا ہے کہ اونچ اب بہت بلند ہو گئی اور نیچ طبقہ اب بہت ہی پستی مین چلا گیا ـ اس کے علاوہ ایک کھیل ہوتی تھی کوک کلاچی پاکی جمعرات آئی ایہہ ـ جمعرات کا نام تو شائد اب مجھ جیسے فرسودہ خیال لوگ ہی جانتے ہوں گے ورنہ تو جدت پسندی نے نام بھی انگریزی رکھ دیے ـ اب تو کب ویک اینڈ آتا ہے کب جاتا ہے مصروف زندگی انٹر نیٹ اور تیز زمانے نے جمعرات والے دِن کسی مخصوص فقیر کا آنا اور ماؤں کا یہ کہنا جمعرات والے بابا کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیتےٹوٹے پیسے نہی تو جا کے آٹا ہی ان کے کشکول میں ڈال آؤ دعا دیں گے ـ اب شائد بابا بھی اردو کی جمعرات والا نام بھول گئے وہ بھی Thursday کہنے لگے ہیں ـ شائد اسی لیۓ تو اب جمعرات کو نہ کوک کلاچی کھیلی جاتی ہے اور نہ بابا آتے ہیں۔
اب تو شام کو آنگن میں بچوں کی مترنم چیخوں کا شور بھی سنائی نہیں دیتا ـ آگے پیچھے بھاگتے ہوئے چیختے چِلاتے یہ بچے نجانے اس جدت پسندی کی کب بھینٹ چڑھ گئے ـ مٹھو گول گرم کے ٹیڑھے میڑھے پتھر کے ٹکڑے بھی شائد نہیں ملتے جن کو اوپر تلے جوڑ کر کچھ فاصلے سے گیند کو ایسا نشانہ لے کر مارا جاتا تھا کہ ایک ہی بال سارے پتھر گرا دے ـ اور پھر بال ان بچوں کو مارنا ہے ان کو بال سے بچنا بھی ہے اور پتھروں کو جوڑنا بھی ہے کس کے جو کمر میں بال لگا وہ وہیں آؤٹ ـ ان بڑے پتھروں سے ہٹ کر کچھ پیاری پیاری کنکریاں بھی ایک سستے سے گیند کے ساتھ ہمجولیاں کھیلتی دکھائی دیتی تھیں جن کو”” گیٹیاں”” یا “”ٹیناں “” کہتے تھے ٬ بڑی مہارت سے کچھ بچیاں لمحوں میں کھیل کر حیرت زدہ کر دیتی تھیں ـ۔
پھر “””” تھے جو گھر گھر کوئلوں سے نقشوں کی صورت مختلف اشکال میں کھیلے جاتے تھے ـ لڑکیوں کا سادہ اور من پسند آسان کھیل تھا ـ لیکن اب تو اس کا نام سنے ہوئے بھی مدت ہو گئی ـ رسی کودنا پسندیدہ کھیل تھا جو بچیاں گروپ کی صورت کھیلتی تھیں ـ تمام لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ اصل بنیادی کھیل کے ذکر کے بغیر سارے کھیل کیسے مکمل ہو سکتے ہیں۔
جی ہاں ان جھلی کملی بچیوں کی زندگی نے جن مسائل سے گزرنا ہے ـ اسکو یہ بچپن سے ہی حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں ـ گڑیا کی شادی گڑیا کا گھر جیسے کھیل کھیلنے کیلیۓ پورا گھرانہ شامل ہوتا تھا ـ کہیں تو گھر والے بچوں کی دلچسپی کیلیۓ ان کو باقاعدہ ہفتہ وار اس پروگرام کی اجازت دیتے تھے٬ اور گڈا گڑیا کو بیاہنے باقاعدہ بارات کی صورت آتا تھا ـ جو اکثر لین دین کے معصوم تنازعے پر ناراضگی میں تبدیل ہو جاتا تھا ـ دلہن کی اماں کو گڑیا سے جدائی نا ممکن دکھائی دیتی اور اس بات پر بارات کو کھانا کھلا کر بغیر دلہن کے جانا پڑتا تھا۔
گرمی کے طویل دنوں میں بڑی چھٹیوں میں عام گھروں کے بچے دوپہر میں دھوپ کی شدت سے باہر نہیں نکل سکتے تھے لہٰذا سب بہن بھائی بڑی محبت سے مل کر چھٹیوں میں لڈو کھیلتے تھے چالاک بڑے باقاعدہ مافیا نما ٹیم بنا کر کیرم بورڈ کھیلتے چھوٹے منہ بسورتے رہ جاتے اور وہ ہر بار کہیں چالاکی سے کہیں مہارت سے گوٹیاں کوئین سمیت لے جاتے ٬ زیادہ پڑھا لکھا گھرانہ ہوتا تو وہ”” شطرنج”” جسے”” بادشاہی کھیل”” کہا جاتا ہے وہ بھی بساط سجا لیتے ـ اسی گھر میں بڑوں سے ذرا پرے کچھ بچے رنگین “”لٹو”” مختلف انداز سے تیز رفتار چلا کر دھاگا لپیٹتے ہوئے عجیب سا فخر ہوتا ٬ چھوٹے بچے الگ انداز سے ریڈی گو کھیل کر پورا شہر سر پے چیخ چیخ کر اٹھا لیتے بھگاتے ہوئے سرخ لال گلال چہرے آج ناپید ہیں۔
کبھی بہت دور ماضی میں جاؤں تو ہماری دادی جان کے حویلی میں دھندلا سا یاد آتا ہے کہ اندرونی کوٹھڑیوں میں ہم سب کزنز مل کر مختلف دیواروں پے لائنیں لگاتے تھے کوئلوں سے اور پھر ان کو گنا جاتا تھا ـ وہ وقت تھا جب ہم حویلی جاتے تھے تو دوسرے چچا پھوپھو تو وہیں رہتے تھے بہت بڑا خاندان تھا ـ ہم اتوار کو دادی جان سے ملنے ماڈل ٹاؤن سے جاتے تھے آج بھی یاد ہے کہ دادی جان کا کئی کئی ٹرنک اتار تار کر نیچے والے ٹرنک میں سنبھال کر رکھی ہوئی اخبار میں وہ چاولوں کی کھیل جس پر بادام اور ناریل لگا ہوتا تھا وہ بڑی مشقت سے نکال کر ہمیں بانٹ کر دیتی تھیں ـ وہ لمحہ ان کاپیار آج بھی انمول یاد ہے ـ اس کی لذت آج تک نہیں بھولی ـ دادی جان کا سب بچوں سے وہ چھپا کر خاص ہمارے لیے اس کھِیل کو سنبھال کر اتوار تک چھپانا ناقابل فراموش ہے ـ ٹھیلوں پے آج بھی جب میں کھیل جو میٹھے چالوں سے بنی ہوتی ہے دیکھوں ضرور خرید کر لاتی ہوں ـ سب کہتے ہیں ٹھیلے سے کچھ لینا حفضانِ صحت کے اصولوں کے خلاف ہے خاص طور سے آپ کے لیۓ باہر والے بیمار ہو جاتے ہیں لیکن میں وہ لمس محسوس کرتی ہوں جب جب اس کو پکڑتی ہوں وہ لمس وہ محبت آج ناپید ہے ــ میں کسی کی نہیں سنتی کیونکہ مجھے اس کھیل کو پکڑتے ہی دادی جان کی وہ سادگی وہ ٹرنک اتارنا اور بڑہاپے میں کانپتے ہوئے ہمارے لیے اس کھیل کو نجانے کتنے دنوں سے سنبھالنا اس کی یاد دلاتا ہے۔
اپنے بچپن کے تمام معصوم کھیل کہیں دور وقت کی دھول میں کھو گئے ہیں ـ کہیں دور ترقی یافتہ خوبصورت دلچسپ گیمز ہر گھر میں آچکی ہیں ـ لیکن میرے اندر کا بچہ کبھی کبھار شدت سے مچل کر سوال کرتا ہے ـ وہ جو ہمارا اصل تھا وہ جو ہمارے آباء و اجداد کی نشانیاں تھیں کیوں ہم نے اپنے اسلاف کا ہر ہنر بیچ دیا کھو دیا ـ اور کیا حاصل کیا؟۔
نہ آج اپنا لباس ہے نہ اپنا معاشرہ نہ اپنا ماحول ہے اور نہ اپنا تمدن ـ نہ اپنی سوچ رہی اور نہ ہی اپنی زمیں ـ جو لوگ اپنی سادگی کو بے مول کر کے امارت سے مرعوب ہو کر خود ہتھیار پھینک دیتے ہیں ـ تو تو طاقتور آقا آپ کی شناخت چھین کر آپ کے ذہن کواس قدر منقسم کر دیتا ہے کہ قوم کی حیثیت سے آپ کمزور ہو جاتے ہیں قوم کمزور ہو جائے تو قومیت خود بخود خطرے میں نظر آتی ہے ـ خدارا لوٹا دو وہ سب کچھ وہ میرے وطن کی سادی سی زندگی تصنع سے مبراء پُرخلوص ماحول خالص سادہ لوگ اور پاکیزہ زندگی جو میرے آقا نبیؑ نے ہمیں بڑے مصائب برداشت کر کے ہمارے لیے تخلیق کی پرسکون ہمدرد یاد گار ـ۔
خدارا اب بھی وقت ہے٬
لوٹ آؤ میرے ہم وطنو لوٹ آؤ پاکستان !!!
اپنے اصل کی طرف اپنی سادگی کی طرف کہ یہی سادگی یہی ہماری اصل شناخت ہے ـ یہی طاقت ہے ـ یہی ہماری پہچان ہے ـ لوٹ آؤ ـ اس سے پہلے کہ بہہت دیر ہو جائے لوٹ آؤ ـ کیونکہ وراثتی سادگی میں غیرت تھی میراث کا غرور تھا جو آج غیر ملکی مصنوعات کی خرید وفروخت میں الجھ کر دور کھہیں دور کھو بیٹھے٬ اپنے پیارے اپنے سادے لوگوں کو کھو بیٹھے ٬ اپنے ملک کو اپنے اصل کو دشمن کی سازشوں سے دشمن کے ناپاک عزائم سے بچا کر پھر سے مثالی ملک بنا دو ـ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں پاکستان نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے ـ اٹھو اپنے وطن، کی آزاد فضاؤں کو غلامی کے بھاری بھرکم بوٹوں سے کچلنے سے بچانے کیلیۓ تیار ہو جاؤ ـ اسی میں آن ہے اسی میں شان ہے اور اسی میں بقا ہے کامیابی ہے وقار ہے فخر ہے ـ
تحریر: شاہ بانو میر